بینظیر بھٹو کے نام … مجھے تو یاد آتی ہے

Dec 27, 2017

ڈاک ایڈیٹر

تیرا سپنا سہانا تھا 

مجھے کیوں آزمانا تھا
رگ و پئے میں سرائیت تو
میری روح پہ عنایت تو
مجھے ناں اس قدر چاہو
نہیں پتھر مگرِ… چاہو
میرے ارمان تک چھلنی
نہیں سہتے شمع جلتی
میں شاموں کے اندھیروں میں
بڑے مضطر سے ڈیروں میں
میں کتنی تنہا تنہا ہوں
تیرے بن جان ذرہ ہوں
مجھے آواز دے دو اب
مجھے دم! راز دے دو اب
میرے لفظوں میں لغزش سی
میرے جذبوں میں آتش سی
کہیں اک دن جو ایسا ہو
تجھے چھو لوں تو کیسا ہو
بڑی دشوار راہوں پر
دکھی سی شاہراہوں پر
کہیں رونے کو دل چاہے
کہیں کھونے کو دل چاہے
تجھے چاہا تجھے سوچا
تجھے سمجھا تجھے پوچا!
میں کتنی پاگل پاگل ہوں
بہت ہی گھائل گھائل ہوں
میری دھرتی بہت ویران
میں ہوں آکاش تک حیران
میری حسرت میرے ارمان
تو میری جان تو میری جان
بہکنا چاہتی ہوں میں
سلگنا چاہتی ہوں میں
تیری یادوں کے درپن میں
تڑپنا چاہتی ہوں میں
تجھے نہ بھول پائوں گی
کبھی نہ بھول پائوں گی
مجھے تو یاد آتی ہے
بہت ہی یاد آتی ہے
(الویرا یاسمین)

مزیدخبریں