محترمہ بے نظیر بھٹو کی داستان حیات اتفاقات، حادثات اور معجزات سے بھرپور تھی ۔ لیاقت باغ ہمارے دو وزراء اعظم کے لہو سے لالہ زار ہوا۔ دونوں پاکستانی تاریخ میں بے نظیر تھے۔ ایک کی شیروانی نے وزیراعظم ہونے کے باوجود غریب لیاقت علی کی پھٹی بنیان کا بھرم چھپا رکھا تھا۔ دوسری اسلامی دنیا کی واحد خاتون وزیراعظم، عالمی اور اسلامی دنیا کی سیاست کے منفرد کردار ذوالفقار علی بھٹو کی لاڈلی ’پنکی‘ بے نظیر تھی۔ پھر لہو رنگ دن کی یاد منائی جارہی ہے۔ پاکستان کی متنازعہ سیاست کے کرداروں میں سے ایک بے نظیر، واقعی بے نظیر ہی تھی۔ بے مثال رنگ ڈھنگ کی مالک، عورت ہو کر مردانہ وار سیاست کرنیوالی، اسٹیبلشمنٹ کو سیاسی چالوں سے زچ کر دینے والی بے نظیر پاکستان کی تاریخ سے مائنس نہیں ہو سکتی۔ اس نے بیٹی، بیوی اور ماں ہونے کے تمام روپ کچھ خوب ہی نبھائے ہیں۔ بیٹی ہوکر باپ، بہن ہوکر بھائی اور وزیراعظم ہوتے ہوئے بھی بیوی کا مشرقی کردار اسکی شخصیت کے حیرت انگیز روپ ہیں۔ مغربی طور طریقوں سے بخوبی آگاہ، آکسفورڈ سے تعلیم یافتہ لڑکی جب دختر مشرق بنی تو چادر سر سے سرکنے نہ دی۔ مشرقی اقدار نبھانے میں بھی بے نظیر ہی ثابت ہوئی۔
سیاسی گھرانے میں آنکھ کھولنے والی بے نظیر کو بھٹو کا بڑا نام ورثہ اور ترکہ میں ضرور ملا لیکن غیرجانبدارانہ تجزیہ کریں تو یہ حقیقت شک سے مبرا ہے کہ والدہ نصرت بھٹو ہوں یا پھر الذوالفقار کے جارحانہ انداز سے متنازعہ ہوجانے والے بھائی مرتضیٰ بھٹو، بے نظیر نے نوجوان لڑکی کے طورپر اپنا منفرد سیاسی قدکاٹھ بنایا۔ کم عمری اسکی سیاسی سفر کے راستے میں کمزوری نہ بن سکی۔ ’گھاگھ‘ سیاسی انکل بھلے ہی میدان سے ’تتربتر‘ ہوگئے لیکن وہ جم کر کھڑی رہی اور پھر ایوان اقتدار کی راہداریوں میں قسمت اسے واپس کھینچ لائی۔ بھٹو کی پنکی وزیراعظم بن گئی۔ مرتضیٰ بھٹو کی مردانہ وجاہت بھی بے نظیر کو بھٹو کی سیاسی وراثت سے الگ نہ کرپائی۔ صوبائی اسمبلی کیلئے مامتا کے ہاتھوں مجبور نصرت بھٹو نے کیسے گھر گھر جاکر مرتضیٰ کیلئے ووٹ مانگے، خاصی تگ ودو اور منت زاری سے کام لیا، یہ بھی تاریخ کا حصہ ہے۔ اسٹیلشمنٹ کے مخالف کھڑی لڑکی کا افسانوی کردار تخلیق ہوا، یہ سب بے نظیر کی سیاسی منزلت کو اور قدرآور بنانے کیلئے تھا۔ بے نظیر کے حوالے سے حامی اور مخالفین کی طویل فہرست مرتب ہوسکتی ہے لیکن یہ بھی ایک منفرد باب ہے کہ جس میں مخالفت کرنے اور حمایت کرنیوالے دونوں جانب ہی کوئی معمولی لوگ نہ تھے۔ بہرحال ایک معیار اور بے باکانہ وابستگی دونوں طرف ہی تھی۔
حبیب جالب کے انداز اور بے قابو سوچ رکھنے والی زبان بھی بے نظیر کی سیاسی زندگی کا ایک اظہار بنی اور آج بھی لاٹھیاں کھا کر رندانہ شاعری کرنیوالے کا ذکر ذہن کو ماضی کی فلم دکھانے لگتا ہے۔ بے نظیر کا سیاسی، علمی،ادبی، سفارتی حلقہ استوار ہوا۔ اسکے حامی اور مخالفین کی لکیر کھنچ چکی تھی۔
بے نظیر نے کم عمری میں ہی کئی تاریخی سفر کئے، ملاقاتوں میں شریک رہی۔ شعوری آنکھ کھلنے سے بھی شاید پہلے قدرت نے اس پر سیاسی بلوغت کے دروازے اپنی مہربانی سے کھول دئیے۔ تاریخ کا وہ بھی عجب سنگم تھا۔ کیا قدآور سیاسی شخصیات تھیں جن کے جلو میں وہ بھی چمکتی آنکھوں اور معصوم لڑکپن سے شریک رہی۔ شاید بڑوں کی اسی محفل نے اس کو کم سنی میں ہی سیاسی سمجھ بوجھ کا ورثہ عطا کردیا تھا۔
میزائل ٹیکنالوجی کے حوالے سے بھی اس کو کریڈٹ دینے والا حلقہ موجود ہے۔ میثاق جمہوریت کی داغ بیل ڈالنے میں اس کا سیاسی ذہن بروئے کار آیا۔ مخالفین کو بھی ایک میز پر جمع کردکھانے والے نوابزادہ نصراللہ خان کا آخری ’سیاسی ایڈونچر‘ میثاق جمہوریت پر ماضی کے دو بڑے سیاسی مخالفین کا اجماع تھا۔ لندن میں بے نظیر اور نوازشریف کی ملاقات گویا ’بریکنگ نیوز‘ سے بھی کچھ بڑھ کر تھی۔ ایک دوسرے کے خون کے پیاسے سیاسی گھاٹ پر جمع ہوگئے۔ نکات طے ہوئے اور مستقبل کا خاکہ بنا۔ پاکستان کی سیاسی تاریخ کا یہ موڑ بھی کم دلچسپ نہیں۔
عروس البلاد کراچی کی روشنیاں بحال کرنے میں بھی بے نظیر کو بھلایا نہیں جا سکتا۔ کراچی میں لسانی عصبیت کو سیاسی لباس بنانے والے بندوق برداروں نے خاتون سمجھ کر اسکے اعصاب کا امتحان لیا۔ معاملہ اْلٹ نکلا اور بے نظیر نے نوادرات کے شوقین، سخت گیر لیکن ہر وقت ہونٹوں پر مسکراہٹ سجائے میجر جنرل (ر) نصیراللہ خان بابر کو یہ ٹاسک دیا۔ پیپلزپارٹی کی سیاسی حکومت ہوتے ہوئے کراچی میں آپریشن کرنا معمولی فیصلہ نہ تھا۔ نصیراللہ بابر مردآہن بن کر دہشت گردی اور ’ڈرل‘ سے انتقال لینے والوں پر ایسے نازل ہوئے کہ ’لنگڑے‘، ’کانے‘، ’ڈسکو‘ اور ’چارلی‘ سب میدان سے ایسے صاف ہوئے گویا کبھی تھے ہی نہیں۔ بے نظیر نے نصیراللہ بابر کا ہاتھ نہ روکا۔ نصیراللہ بابر نے بھی جراتمندی اور کسی دبائو کو خاطر میں لائے بغیر یہ قومی فرض نبھایا۔ یہ دونوں کی نیکی لکھی جائیگی۔ 20ستمبر1996ء کو بے نظیر بھٹو وزیراعظم تھی کہ اسکے بھائی کو گولیوں سے چھلنی کیاگیا۔ دھاڑیں مارکر روتے ہوئے اسکی تصویر آج بھی ذہنوں میں محفوظ ہے۔ سیاسی اختلاف کے باوجود بے نظیر کا کہنا تھا کہ وہ اس کا بھائی تھا اور اسے خوشی تھی کہ وہ واپس سیاسی دھارے میں آچکا ہے۔ والد، شاہنواز کی زہر سے موت کے بعد مرتضیٰ کی اپنی حکومت اور پھرسندھ میں اس طرح ہلاکت نے اسے شدید دھچکا پہنچایا تھا۔
بے نظیر کا ایک حیرت انگیز پہلو اس کی خانگی زندگی بھی ہے۔ ایرانی کرد نژاد نصرت بھٹو کی بیٹی نے ابتدائی تعلیم لیڈی جیننگ سکول کراچی سے پائی۔ کونونٹ آف جیزز اینڈ میری کراچی اور پھر مری میں جیزز اینڈ میری کونونٹ میں تعلیم حاصل کی۔ او لیول امتیازی نمبروں سے اس نے پاس کیا اور پھر اے لیول کراچی گرامر سکول کراچی سے مکمل کیا۔ 1969ء سے 1973ء تک ریڈکلف کالج اور پھر ہاورڈ سے بے نظیر نے تعلیم کے اہم مراحل طے کئے۔ بھارت میں سابق امریکی سفیر اور ہارورڈ یورنیورسٹی میں اس وقت معاشیات کا پروفیسر جان کیننتھ گیلبریٹ بے نظیر کا گارڈین تھا۔ یہ ذمہ داری اسکے دوست ذوالفقار علی بھٹو نے اسے سونپی تھی۔ اس کا بیٹا پیٹر گلبریتھ ساری زندگی بے نظیر کا دوست رہا۔ بے نظیر نے یونیورسٹی آف آکسفورڈ میں فلسفہ، سیاست اور اقتصادیات کی تعلیم حاصل کی۔ لیڈی مارگریٹ ہال سے وہ سینٹ کیتھرائن کالج آکسفورڈ گئی۔ وہ آکسفورڈ یونین ڈیبیٹنگ سوسائیٹی کی صدر بھی رہی۔ اس سب کے باوجود 1987ء میں پاکستان آمد کے بعد اسکی 18دسمبر 1987ء کو آصف علی زرداری سے شادی ہوتی ہے تو وہ مشرقی اقدار کی تصویر بن جاتی ہے۔ بلاول، بختاور اور آصفہ کی ماں بن کر اس نے اپنا کردار نبھایا۔ جیل میں قید شوہر کی بیوی کی ذمہ داری بھی اداکرتی رہی۔ قدرت کا عجب معاملہ ہے کہ اسے شوہر بھی آصف زرداری جیسا ملا۔ اس حوالے سے بھی کئی تلخ یادیں ہیں جو پھر کبھی سہی۔ اکتوبر2007ء کو کراچی پہنچی۔ وہ ایک ایسے وقت میں شیرنی بن کر سیاسی منظر پر واپس آئی جب بڑے بڑے شیر محلات میں سرور لے رہے تھے اور بڑی مونچھ رکھنے والے عافیت کی تلاش میں تھے۔ دہشت گرد حملوں کی دھمکیوں کے باوجود جب اس نے سڑک پر آنے کا فیصلہ کیا تو بند کمروں میں اسکے مخالف سیاسی سورمائوں نے بھی اس کی دلیری کو تسلیم کیا۔
کراچی میں دو بم چلے، 149کے قریب افراد ہلاک اور چار سو سے زائد زخمی ہوئے۔ دو روز قبل اس نے لاڑکانہ کے حلقے سے اپنے کاغذات نامزدگی جمع کرائے۔ 27 دسمبر 2007ء کو افغان صدر حامد کرزئی سے بے نظیر کی ملاقات ہوئی۔ راولپنڈی کے لیاقت باغ میں جلسہ سے اس نے خطاب کیا۔ جلسہ ختم ہوا اور وہ روانہ ہوئی تھی کہ چند ہی لمحوں بعد وہ گاڑی کی چھت سے باہر نمودار ہوئی اور باہر کھڑے لوگوں کوہاتھ ہلارہی تھی کہ دھماکہ ہوا، فائرنگ ہوئی اور اس شورشرابہ اور افراتفری میں متضاد خبریں آنے لگیں اور پھر رات گئے آخری خبرآئی کہ بے نظیر نے دم توڑدیا۔
بے نظیر ایک پوری کہانی ہے۔ اس میں کئی رنگ، کئی دکھ، کئی سبق اور کئی ایڈونچر ہیں۔ تنقید و تحسین قلم کے پیشہ وروں اور سیاست کے شاہسواروں کا کام ہے ہی لیکن آج دس برس بیت جانے پر اسکی شخصیت بطور انسان اور طرح سے دکھائی دیتی ہے۔ اسکے بعد اس معیار پر کوئی خاتون نہ پہنچ پائی۔ مرتضیٰ کی طرح بے نظیر کے قاتلوں کا بھی کچھ پتہ نہ چلا۔ لیاقت باغ میں پہلے شہید لیاقت علی کے قتل کا پتہ نہیں چلا تو بے نظیر کے قاتلوں کا کیا پتہ چلتا۔ پیپلزپارٹی کی حکومت بھی رہی لیکن… اسکی سیاسی وراثت پر بھی کئی سوال تاحال موجود ہیں۔ اس سے منسوب ایک وصیت سوالیہ نشان سے تاحال آگے بڑھ نہ پائی ہے۔ کوئی وصیت تھی بھی یا نہیں؟ کس نے یہ کاغذ وصیت بنا کر پیش کردیا؟ کیا سچ مچ اس نے ہی یہ لکھ رکھا تھا؟ ان سوالات پر کئی ذہن پریشان ہیں اور رہیں گے… لیکن میں خود سے سوال پوچھتا ہوں کہ خوش قسمت نظر آنیوالے کئی کتنے بدقسمت ہوتے ہیں۔ جن سے مل کر لوگ خوش ہوتے ہیں، وہ خود نجانے اندر سے کس قدر اداس اور تنہاء ہوتے ہیں۔ گڑھی خدابخش میں پنکی سو رہی ہے لیکن اس کا ذکر اسکے والد کی طرح اب بھی جاری ہے اور شاید جاری رہے گا۔