یو ٹیلٹی سٹورز کارپوریشن کے22ارب سے زائد پھنس گئے،ہزاروں ملازمین کا مستقبل تاریک

اسلام آباد (عترت جعفری) یوٹیلٹی سٹورز کارپوریشن کے 14 ہزار سے زائد ملازمین کا مستقبل تاریک ہو گیا ہے۔ کارپوریشن کے 22 ارب روپے سے زائد پھنس گئے ہیں اور اس میں سے بیشتر رقم وزارت خزانہ نے دبا رکھی ہے اور کچھ رقم قانونی موشگافیوں کے باعث رکی ہوئی ہے۔ ادارے کے بیشتر ’’وینڈر‘‘ اشیاء کی سپلائی بند کر چکے ہیں اور اگر صورتحال کا تدارک نہ کیا گیا تو سٹیل ملز کے بعد یوٹیلٹی سٹورز کارپوریشن دوسرا ادارہ ہو گا جو مالی مشکلات کے باعث بند کرنا پڑے گا۔ یوٹیلٹی سٹورز کارپوریشن کی صورتحال اتنی گھمبیر ہو گئی ہے کہ اس کے سالانہ سیلز 7 ارب روپے سے کم ہو کر ایک ارب روپے رہ گئی ہے اور ادارے کے ملازمین کے آئندہ ماہ احتجاج کی دھمکی دے دی ہے۔ یو ایس سی کے ذمہ دار ذرائع نے بتایا ہے کہ اس وقت وزارت خزانہ کے پاس ’’یوٹیلٹی سٹورز‘‘ کارپوریشن کے 22 ارب روپے سے زائد کے کلیم موجود ہیں جبکہ کچھ رقم رہ رہی ہے جن پر آڈٹ ابجکشن کے باعث رقم رکی ہوئی ہے۔ وفاقی حکومت کے اعلیٰ ترین فورم اقتصادی رابطہ کمیٹی اور کابینہ کی منظوری کے بعد گزشتہ چند سال میں چینی اور رمضان المبارک میں مختلف آئیٹمز کے ریٹ کم کئے جاتے رہے۔ ’وینڈرز‘ سے چیزیں خریدی گئی جن پر اٹھنے والی لاگت کارپوریشن نے خود برداشت کی اور حکومتی فیصلہ کے مطابق چینی‘ دال‘ چاول‘ مصالحہ جات وغیرہ پر رمضان المبارک پیکج یا سال کے دوران قیمت خرید سے کم نرخ پر فروخت کیا جاتا رہا۔ وفاقی حکومت گزشتہ چند سال میں بجٹ میں رمضان پیکج کی رقم مختص کر رہی ہے تاہم اس میں سے کارپوریشن کو بہت ہی کم رقم جاری کی جاتی رہی جس کے منطقی نتیجہ میں اب 22 ارب روپے سے زائد رقم واجب الادا ہو چکی ہے جو وزارت خزانہ نے جاری کرنا ہے تاہم اس رقم کو دبا لیا گیا ہے جبکہ اس رقم کا کچھ حصہ قانونی مسائل کے باعث بھی پھنسا ہوا ہے۔ ذرائع نے مثال دیتے ہوئے بتایا کہ گزشتہ مالی سال رمضان میں ای سی سی نے سبسڈی کی منظوری دی تھی اس میں سے صرف 60 کروڑ روپے جاری ہوئے۔ ایک ارب 77 کروڑ روپے کے بقایا جات موجود ہے۔ اس طرح گزشتہ چند سال کے دوران منظور شدہ رقم اور یوٹیلٹی سٹورز کو ادا کی جانے والی رقم میں تفاوت بڑھتا ہوا 22 ارب روپے سے تجاوز کر چکا ہے۔ ادارے کو تنخواہوں کی ادائیگی اور دوسرے معاملات چلانے میں مشکلات کا سامنا ہے اور اب تمام بڑے ’وینڈر‘ نے ادارے کو سپلائی بند کر دی ہے اب نہ ادارے کے پاس فروخت کرنے کے لئے چیزیں ہیں اور نہ خریدنے کے لئے رقم موجود رہی ہے۔ 2007 ء میں ای سی سی کے فیصلہ کی روشنی میں 2 ہزار نئے سٹور کھولے گئے جن کا مقصد ہر یونین کونسل میں کم از کم ایک یوٹیلٹی سٹورز قائم کرنے کی پالیسی کا حصہ تھا۔ اس توسیع میں ایسے مقامات پر سٹورز کھولے گئے جن کو کمرشل بنیادوں پر چلانا ممکن نہیں تھا۔ اب یہ تمام سٹورز ایک بوجھ بن گئے ہیں اور کارپوریشن کے نقصانات کی بڑی وجہ ہیں۔ ان سٹورز کے لئے بھرتیاں بھی ہوئیں۔ ان ملازمین کی تعداد ہزاروں میں ہے۔ ادارے کی حیثیت ’ٹائی ٹینک‘ کی ہو چکی ہے اور اس میں چھید خود وزارت خزانہ نے پیدا کر رکھا ہے۔ اس صورتحال پر ادارے کی سی بی اے نے 15 جنوری سے احتجاج کا اعلان کر دیا ہے۔ وزیراعظم شاہد خاقان عباسی سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ وہ صورتحال کا نوٹس لیں کیونکہ وزارت صنعت و پیداوار نے آنکھیں بند کر لیں ہیں۔

ای پیپر دی نیشن

''درمیانے سیاسی راستے کی تلاش''

سابق ڈپٹی سپیکرقومی اسمبلی پاکستان جن حالات سے گزر رہا ہے وہ کسی دشمن کے زور کی وجہ سے برپا نہیں ہو ئے ہیں بلکہ یہ تمام حالات ...