پنکی سے شہید بی بی تک بے نظیر سفر

Dec 27, 2018

محمد اسلم خان....چوپال

نام ہی کی نہیں، وہ واقعی بے نظیر تھی، اس جیسا پھر کوئی نہ ہوا۔ اندھی گولیوں کا نشانہ بنے اسے گیارہ برس ہونے کو آئے افسوس اس کے قاتلوں کا کچھ پتہ نہ چل سکا، یہ راز ہے اور شاید راز ہی رہے گا،بے نظیرکے بہت سے اعزازات ہیں، اسلامی دنیاکی پہلی خاتون وزیراعظم، مقبول ترین پارٹی کی سربراہ، دلیر سیاسی قائد، کئی سیاسی تحریکوں کے سرخیل، کم ترین عمر میں وزارت عظمیٰ سنبھالنے والی پاکستانی، مغربی میں پڑھی لکھی لیکن مشرقی روایات پر کاربند، آج پھر 27 دسمبر ہے، اس کی یاد پھر دلوں کو رنجیدہ کرگئی ہے۔
اس کالم نگار سے شہید بی بی بے نظیر کی واشنگٹن کے کارنیگی انسٹی ٹیوٹ میں گھنٹوں پر محیط صرف ایک طویل ملاقات ہوئی تھی جہاں وہ جنوبی ایشیا سے تعلق رکھنے والے طلبہ سے خطاب کرنے آئی تھیں اس خطاب میں انہوں نے اپنے خاندانی جاہ و جلال کا تفصیلی ذکر کیا تھا اس لیکچر کا اہتمام غدار پاکستان حسین حقانی نے کیا تھا جو ان دنوں وہاں تحقیق کار تھے آرمی چیف ہاؤس میں آج بھی شہید نظیر کا ‘‘پنکی روم ‘‘ موجود ہے جہاں وہ اپنے والد کی وزارت عظمی کی دور میں قیام پذیر رہی تھیں جنرل قمر جاوید باجوہ نے اس کالم نگار کو بتایا کہ پنکی روم کا رنگ آج بھی گلابی ہے یہ شہید بی بی کے پاکستانی اشرافیہ پر گہرے اثرات کا مظہر ہے۔اس کی والدہ نصرت بھٹو اصفہان، ایران میں پیدا ہوئی تھیں۔ اصفہان یونیورسٹی سے تعلیم حاصل کی تھی۔ بے نظیر نے کم عمری میں اپنے والد کی پھانسی کا غم سہا، والد سے جیل میں نصیحت اور وصیت وصول کرنے کا بوجھ اپنے نازک کندھوں پر اٹھانا پڑا۔ شاید سیاست اس کومرغوب نہ تھی۔اس کے دونوں بھائیوں کو قتل کیاگیا۔ ایک بھائی تو عین اس وقت گولیوں سے بھون دیاگیا جب وہ خود وزیراعظم تھی۔ پے درپے غموں پر اس کی والدہ زندہ لاش بن کر رہ گئی تھی۔ یقینا بے نظیر ہونا آسان نہ تھا۔ اس کے والد ذوالفقار علی بھٹو نے شاید اسی لئے اس کا یہ نام رکھا تھا، اسے عجیب اتفاق کہیں یا کچھ اور لیکن خدا کرے اس جیسا کوئی اور نہ ہو۔
21 جون 1953ء کو بے نظیر کراچی میں پیدا ہوئی تھی، اس نے جوناگڑھ ریاست کے وزیراعظم سرشاہنواز بھٹو کے فرزند اوراپنے زمانے کے سب سے ذہین سیاستدان ذوالفقار علی بھٹو کے خانوادے میں آنکھ کھولی تھی۔ بابا کی پیاری پنکی بچپن سے ہی میدان سیاست میں والد کی انگلی تھامے تاریخ کی ممتاز ترین شخصیات سے ملتی تھی۔
ذوالفقار علی بھٹو نے سندھی وڈیرہ ہونے کے باوجود روایت کے برعکس اپنی پنکی کو اعلی ترین تعلیم دلوائی، انڈرگریجویٹ ڈگری ریڈکلف کالج ہارورڈ یونیورسٹی سے کرائی جہاں معیشت کے استاد جان کینتھ گیلبریتھ ذوالفقارعلی بھٹو کے دوست تھے، گیلبریتھ انڈیا میں امریکہ کے سفیر بھی رہ چکے تھے، اپنے دوست کی درخواست پر وہ بے نظیر کے نگران بن گئے، ایک سال بعد مرتضی بھی ہارورڈ آگئے۔ بے نظیر کے بقول ہاروڈ میں گزرے چار سال اس کی زندگی کے خوشگوارترین دن تھے۔ وہاں بھی اس کے اندر کی روشن خیال روح زندہ و بیدار رہی اور وہ ویتنام میں امریکی مداخلت کے خلاف مہم کا حصہ بن گئی۔1971ء میں ذوالفقار علی بھٹو نے انہیں نیویارک آنے کی دعوت دی جہاں اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کا اجلاس ہونا تھا اور سقوط مشرقی پاکستان کے تاریخی لیکن بدقسمت ترین واقعات کا انہیں چشم دید گواہ بننا تھا۔ پاکستان اور بھارت کے درمیان جنگ کے اس ماحول میں بے نظیر کو عالمی سیاست کے اس بڑے فورم پر بہت کچھ دیکھنے اور سیکھنے کو ملا۔ پھر اس کے والد صدر بن گئے اور اسے ایک اور تاریخی معاہدے کے موقع پر والد کی ہمرکابی نصیب ہوئی۔ اس بار کا سفر وہ مشہور تاریخی معاہدہ کرنے کے لئے تھا جسے دنیا شملہ معاہدے کے نام سے جانتی ہے۔ شملہ بھارتی ریاست ہماچل پردیش کا دارالحکومت ہے۔ تقسیم ہند کے بعد اسے مشرقی پنجاب کا گرمائی دارالحکومت بنادیاگیا۔ بعدازاں ہماچل پردیش کا دارالحکومت بنایاگیا۔
1973ء میں بے نظیر آکسفورڈ پہنچیں اور لیڈی مارگریٹ ہال، یونیورسٹی آف آکسفورڈ کا حصہ بن گئیں۔ تین سال بعد انہیں سند مل گئی لیکن والد کے اصرار پر ایک سال پوسٹ گریجویٹ ڈگری کے لئے وہ مزید آکسفورڈ میں رک گئی۔ یہ ذوالفقارعلی بھٹو کی اس دلچسپی کا بھی عکاس ہے جو انہیں اپنی بیٹی کو تعلیم یافتہ بنانے سے متعلق تھا، ورنہ عمومی سندھی روایت پسند وڈیروں کے ہاں ایسا ہونا ناممکن ہے۔ یہ شاید بھٹو کی دوربین نگاہیں تھیں جوآنے والے زمانے میں اپنی بیٹی کے مقام کو دیکھ رہی تھیں جس میں تعلیم ہی اس کی اصل قوت بننی تھی۔ اس کے ساتھی طالب علموں کے مطابق بے نظیر ہنس مکھ اور علمی جستجو رکھنے والی ایک طالبہ تھی۔ یہی وجہ تھی کہ وہ آکسفورڈ ڈیبیٹنگ سوسائٹی کی صدر بھی منتخب ہوئی۔ وہ پہلی ایشیائی خاتون تھیں جنہیں یہ اعزاز ملاتھا۔اس کی والد کے لئے محبت کا اندازہ اس امر سے بھی ہوتا ہے کہ اس نے آکسفورڈ میں ایک مہم چلائی کہ اس کے والد کو اعزازی ڈگری دی جائے، اس معاملے میں اس کے والد کے دیرینہ دوست مورخ ہیوٹریور روپر کی حمایت بھی اسے میسرآئی۔ اس تحریک کی مخالفت بنگلہ دیش میں شیخ مجیب الرحمن اور ان کے ساتھیوں پر مظالم کی بنیاد پر کی گئی۔ مشرقی پاکستان کی المناک کہانیوں کا اتنا شور شرابہ ہوا کہ یونیورسٹی نے ذوالفقارعلی بھٹو کو اعزازی ڈگری دینے سے انکار کردیا۔
1977ء کے بعد پھر ایک اور دور شروع ہوا جسکے بعد بے نظیر کو دکھوں اور مصائب کے ایک مشکل ترین دور سے گزرنا پڑا اور اس کے اعصاب کا سخت ترین امتحان ہوا۔والد کی پھانسی کے بعد اس کی دنیا ہی بدل گئی، ہنسنے مسکرانے والی پنکی اْداس ہوگئی۔ یہ زندگی جدوجہد اور ابتلائ￿ کا دور بن گیا۔ اس کے بھائیوں مرتضی اور شاہنواز نے الذوالفقار قائم کرکے فوج کے خلاف باضابطہ جنگ کا راستہ اپنایا۔ پی آئی اے کا طیارہ اغوا ہونے پر نصرت بھٹو اور بے نظیر بھٹو کو گرفتاری کا سامنا کرنا پڑا۔ بے نظیر نے مسلح جدوجہد کا راستہ مسترد کردیا جو اس کے سیاسی فہم و ادراک کا مظہر تھا، جولائی 1981ء میں نصرت بھٹو کو سرطان کے علاج کے لئے بیرون ملک جانے کی اجازت دے دی گئی۔ کراچی اور سکھر جیل کی قید تنہائی کا دلیری سے مقابلہ کیا کامل دوسال اسے گھر میں نظربند رکھاگیا امریکہ میں ذوالفقار علی بھٹو کے دوست پیٹر گیلبریتھ نے کلیبورن پیل اور جیمز برکلے جیسے امریکی سیاستدانوں کی حمایت حاصل کی تاکہ بے نظیر کو قید وبند کی صعوبتوں سے نجات ملے۔ جنرل ضیاء الحق جب دسمبر1982ء میں واشنگٹن ڈی سی آئے تو بے نظیر بھٹو کی حمایت میں ان کی گرفتاری اور قیدوبند کے معاملے پر بات ہوئی۔ اس عالمی دبائو پر ان کو رہا کرکے جنوری 1984ء میں جنیوا پہنچادیاگیا۔ پھر جلاوطنی کا دور آیا اور پھر حالات بدلے اور بے نظیر وزیراعظم بن گئی۔ سیاست میں کئی طرح کی ناتجربہ کاریاں اور غلطیاں بھی اپنی جگہ ایک الگ باب ہے۔
26دسمبر کی رات جنرل اشفاق پرویز کیانی نے شہید بی بی سے خفیہ ملاقات کرکے انہیں لیاقت باغ والا جلسہ ملتوی کرنے کا مشورہ دیا تھا لیکن وہ سوئے مقتل جانے پر ڈٹ گئی۔
27 دسمبر2007ء کی صبح افغان صدر حامد کرزئی سے اس کی ملاقات ہوئی تھی۔ اس نے لیاقت باغ راولپنڈی میں جلسہ عام سے خطاب کرنا تھا۔ اس کی جرأت مردوں کے لئے چیلنج بن گئی تھی۔ لیکن اس بہادری کی قیمت اسے اپنی جان کے بدلے چکانی پڑی۔ ہنستی مسکراتی بے نظیر سارے غموں سے نجات پا کر زمیں تلے جاسوئی۔ افسوس اس کے والد کی طرح اس کے قاتل بھی نہ پکڑے جاسکے۔ قاتل تو لیاقت علی خان کے پکڑے گئے اور نہ ہی جنرل ضیاء کے۔ کاش ہم اپنا وقت ضد، انا اور انتقام میں ضائع کرنے کے بجائے اس قوم اور ملک کی تعمیر پر لگاتے تو شاید تاریخ آج کچھ اور ہوتی۔ مزاروں کی جگہ ہسپتال اور درس گاہیں تعمیر ہوں تو اچھا ہے۔ کاش یہ سبق سیکھا جائے لیکن افسوس کہ سبق سیکھنا شاید بہت مشکل ہے۔

مزیدخبریں