لاہور(احسان شوکت سے ) سابق وزیراعظم بے نظیر بھٹوکی شہادت کو گیارہ برس گزر جانے کے کے باوجود انہیں انصاف نہیں مل سکا، نہ توقاتلوں کا سراغ لگا کر انہیں کیفر کردار تک پہنچاگیا اور نہ ہی ان کے قتل کی سازش بے نقاب ہو سکی ہے ۔27 دسمبر 2007کو راولپنڈی لیاقت باغ جلسہ میں خوودکش دھماکے اور فائرنگ میں بے نظیر بھٹوکی شہادت کے واقعہ کو آج گیارہ سال گزرنے کے بعد بھی ایک معمہ بنا ہوا ہے حالانکہ اس واقعہ کی ذمہ داری سابق صدر اور تحریک طالبان کے سربراہ بیت اللہ محسود پر ڈالی گئی جبکہ سکاٹ لینڈ یارڈکی رپورٹ پر 13نومبر 2010کودو پولیس افسروں سابق سی پی او سعود عزیز اور ایس پی خرم شہزادکو بھی اس مقدمے میں نامزد کیا گیا۔سکاٹ لینڈ یارڈکو بھاری معاوضہ کی ادائیگی کے باوجودپیپلز پارٹی کے پانچ سالہ دور حکومت میں بھی اس کیس کا حل نہیں نکل سکا۔ انسداد دہشت گردی اسلام آباد کی خصوصی عدالت نے 317سماعتوں،آٹھ ججز کی تبدیلی اور 67گواہوں کے بیانات کی روشنی میںاس دلخراش واقعہ کے تقریباً 9 سال 8 ماہ بعد بالاآخر 31اگست 2017 کو سابق سی پی او سعود عزیز اور ایس پی خرم شہزادکو 17,17سال قید اور 5,5 لاکھ روپے جرمانے جبکہ سابق صدر پرویز مشرف کو اشتہاری قرار دیا،ان کی جائیداد ضبط کرنے کا فیصلہ سنایاجبکہ عرصہ 9سالہ سے جیل میں قیدکالعدم تحریک طالبان (ٹی ٹی پی)سے تعلق رکھنے و الے پانچ ملزموں رفاقت،حسنین گل،رشید احمد،شیر زمان اور اعتزازشاہ کو عدم ثبوت پر باعزت بری کر دیاگیا۔11ستمبر2017ہائی کورٹ کے راولپنڈی بنچ نے سعود عزیز اور ایس پی خرم شہزاد کی سزاؤں پرنظر ثانی کی اپیل منظور کرتے ہوئے ان کوانسداد دہشت گردی عدالت کی دی گئی سزاؤں کو معطل کر دیا اس فیصلے کے خلاف پیپلز پارٹی نے سپریم کورٹ سے رجوع کیا توسپریم کورٹ نے5 اکتوبر2018 کو پولیس افسروں کی ضمانتوں کی منسوخی کیلئے دائر درخواست مسترد کر دی۔اس واقعہ میں بے نظیر بھٹواور 20 پاکستانیوں کی شہادتوں کے باوجود آج بھی ملزم قانون کی گرفت سے آزاد ہیں۔