لاہور (وقائع نگار خصوصی)سپریم کورٹ نے زلفی بخاری کو معاون خصوصی کی حیثیت سے کام کرنے کی اجازت دیدی۔ فاضل عدالت نے قرار دیا کہ وہ وزیر کی حیثیت سے کام نہیں کر سکتے۔ عدالت نے گورنر پنجاب چوہدری سرور اور نزہت صادق کی دوہری شہریت سے متعلق کیس بھی وزارت خارجہ کی رپورٹ کی روشنی میں نمٹادیا۔ رپورٹ میں کہا گیا کہ چوہدری سرور اور نزہت صادق مستقل طور پر دوہری شہریت چھوڑ چکے ہیں۔ درخواست گزار کے وکیل نے کہا کہ زلفی بخاری غیر قانونی طور پر وزیر کے طور پر کام کر رہے ہیں۔ زلفی بخاری کی دوہری شہریت ہے لیکن انہیں وزیر مملکت کا عہدہ دیا گیا ہے۔ سپریم کورٹ کا سرکاری ملازمین کی دوہری شہریت سے متعلق فیصلہ زلفی بخاری پر بھی لاگو ہوتا ہے۔ زلفی بخاری کے وکیل نے کہا کہ زلفی بخاری وزیر کے طور پر کام نہیں کر رہے۔ عدالتیں انتظامیہ کے بہت سے معاملات میں مداخلت نہیں کر سکتیں۔ دیکھنا یہ ہے معاون خصوصی کا عہدہ آئین سے متصادم تو نہیں؟ عدالت نے کہا کہ ہم زلفی بخاری کو نکال نہیں سکتے۔ پارلیمنٹ کو اس پر تجاویز دے سکتے ہیں۔ انہیں کہاں سے منسٹر بنایا گیا۔ پوری سمری لائیں۔ انہوں نے اپنی ویب سائٹ پر کیسے وزیر مملکت کا عہدہ لکھ دیا؟۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیئے کہ زلفی بخاری کی اہلیت بتائیں۔ سرکاری ملازمین کی دوہری شہرت سے متعلق سپریم کورٹ کا فیصلہ زلفی بخاری پر لاگو نہیں ہوتا۔ معاون خصوصی کی تعیناتی وزیراعظم کا اختیار ہے۔ زلفی بخاری آئین کے آرٹیکل 62 اور 63 کی زد میں نہیں آتے۔ آپ کو ثابت کرنا ہو گا تقرری آئین کے مطابق ہے۔ اگر آئین اجازت نہیں دیتا تو زلفی بخاری کسی طرح وزیر کا عہدہ استعمال نہیں کر سکتے۔ چیف جسٹس نے درخواست گزار کے وکیل سے کہا کہ آپ نے فیصلہ غور سے نہیں پڑھا، ہم نے اس فیصلے میں پابندی نہیں لگائی، ہم نے پارلیمنٹ کو تجاویز دی ہیں، ہم اوورسیز پاکستانیوں کی بہت قدر کرتے ہیں جیسے انہوں نے ڈیم فنڈ میں حصہ لیا، آپ کو زلفی بخاری کی تعیناتی کیخلاف رولز آف بزنس کو چیلنج کرنا چاہئے تھا۔ چیف جسٹس نے کہا کہ معاون خصوصی کی تعیناتی کا فیصلہ وزیراعظم نے کرنا ہے، کیونکہ حکومت چلانا وزیراعظم کا کام ہے۔ وکیل ظفر کلانوری نے کہا کہ قانون نے اوورسیز پاکستانیوں کیلئے معاون خصوصی کی کوئی اہلیت مقرر نہیں۔ اس پر جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ اگر ایسا ہے تو پھر یہ وزیراعظم کا صوابدیدی اختیار ہے۔ درخواست گزار نے کہا کہ زلفی بخاری بطور وزیر کام کر رہے ہیں اور کابینہ اجلاس میں شرکت کر رہے ہیں، بیرون ملکوں سے معاہدے کررہے ہیں، یہ کام وزیر کے ہیں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ ہم زلفی بخاری کو آپ کی استدعا کے مطابق نکال نہیں سکتے، پارلیمنٹ کو اس پر تجاویز دے سکتے ہیں، عدالت نے استفسارکیا کہ کیا وزیراعظم کو لامتناہی اختیارات دیئے جا سکتے ہیں؟ چیف جسٹس نے کہا کہ اگر وزیر اعظم کا صوابدیدی اختیار ہے تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ وزیراعظم جس طرح مرضی کام کرے۔ عدالت نے مزید سماعت وقفے تک ملتوی کردی گئی جس کے بعد فیصلہ سناتے ہوئے سپریم کورٹ نے زلفی بخاری کی تعیناتی کیخلاف درخواست مسترد کر دی۔ عدالت نے یہ بھی قرار دیا کہ نئے پاکستان میں تو جید لوگوں کو لگانا چاہئے تھا۔ کون ہے زلفی بخاری، اسکی کیا اہلیت ہے؟ کہاں سے آیا؟ اچانک تعیناتی کیسے کر دی گئی۔ عدالت نے زلفی بخاری کو وزیر مملکت کی حیثیت سے کام کرنے سے روکتے ہوئے معاون خصوصی کی حیثیت سے کام کرنے کی اجازت دے دی۔ عدالت نے کہا زلفی بخاری وزیراعظم کو صرف مشورہ دے سکیں گے۔ سادہ الفاظ میں کان میں کھسر پھسر کر سکیں گے۔ زلفی بخاری اگر انتظامی حکم جاری کرے یا وزیرکی حیثیت سے کام کریں گے تو پھر عدالت جائزہ لے گی۔ اگر زلفی بخاری نے وزیر مملکت کی حیثیت سے اختیارات استعمال کئے یا پروٹوکول لیا تو ان کیخلاف کارروائی ہو گی۔ عدالت فیصلے میں معاون خصوصی کی تعیناتی کے طریقہ کار کے حوالے سے اپنے فیصلے میں گائیڈ لائن دیگی۔ سماعت کے بعد میڈیا سے گفتگو میں زلفی بخاری نے کہا کہ وزیراعظم کے پاس اوورسیز کی وزارت ہے۔ میں معاون خصوصی کے طور پر کام کر رہا ہوں۔ اگر شہری مجھے وزیر سمجھتے یا پکارتے ہیں تو اس میں میرا کیا قصور ہے۔ سپریم کورٹ نے سرکاری ہسپتالوں میں وینٹی لیٹرز کی کمی پوری کرنے کیلئے حکومت پنجاب کو چار ماہ کی مہلت دے دی۔ عدالت نے حکم دیا کہ سرکاری ہسپتالوں میں 279وینٹی لیٹرز کی فراہمی کو یقینی بنایا جائے۔ عدالت نے ریمارکس دئیے کہ سفارشی فون آنے پروینٹی لیٹر پر لیٹے غریب کو اتار کر امیر آدمی کو لٹا دیا جاتا ہے۔ وینٹی لیٹرز کو مذاق سمجھا ہوا ہے۔ کیا وینٹی لیٹرز کے بغیر ہسپتال چل سکتے ہیں؟ بد قسمتی ہے کہ امیر کو وینٹی لیٹر لگانے کے لیے غریب کا اتار دیا جاتا ہے۔ پرائیویٹ ہسپتال آئی سی یو کے بیڈ کا 23ہزار اور وینٹی لیڑ کا 5 ہزار لیتے ہیں۔ مریض کو وینٹی لیٹر مفت دینا حکومت کی ذمہ داری ہے۔ صوبائی وزیر صحت یاسمین راشد نے بتایا پچھلی حکومت کے وزیر نے سمری پر دستخط نہیں کیے۔ موجودہ وزیر پیپرا رولز کے تحت دستخط کا اختیار نہیں رکھتا۔ وینٹی لیٹرز کی خریداری سے متعلق سمری وزیراعلی پنجاب کو منظوری کے لئے بھجوائی ہے۔ عدالت نے کہا کتنی سمریاں وزیراعلی کے پاس التوا میں ہیں؟ وینٹی لیٹرز کے معاملے کو حکومت نے مذاق سمجھ رکھا ہے۔ کیوں نہ وزیراعلی کو سمریوں سمیت بلا کر جائزہ لینے کا کہیں۔ ان کو ادھر ہی بٹھا کر سمری منظور کروا لیتے ہیں۔ یہ کام حکومت کے کرنے کے ہیں جن پر توجہ کی ضرورت ہے۔ وزیر صحت نے کہا کہ میں خود ذاتی طور پر اس معاملے کو دیکھوں گی اور دس دن میں وزیراعلی سے سمری منظور کرالیں گے۔ سپریم کورٹ نے ملک بھر میں پولیس کو غیرسیاسی کرنے اور پولیس آرڈر 2002 کے نفاذ کیلئے دائر آئینی درخواست پر وفاقی حکومت اور تمام صوبائی حکومتوں کو جواب جمع کرانے کیلئے دوبارہ نوٹس جاری کردئیے۔ عدالت نے وفاقی اور تمام صوبائی حکومتوں کو 3 جنوری تک کی مہلت دے دی۔ عدالت کو آگاہ کیا گیا کہ وفاقی حکومت اور صوبوں کی طرف سے جواب جمع نہیں کرایا گیا۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دئیے کہ یہ بہت اہم معاملہ ہے، اگر جوابات نہیں بھی آتے تو کیس کا فیصلہ کرینگے۔ اگر ایک اچھا قانون ہے تو اسے 1861 کے قانون کی بجائے استعمال کرنا چاہیے۔ سپریم کورٹ نے سکولوں اور کالجوں میں منشیات کے استعمال کے کیس میں چاروں صوبوں کو جامع رپورٹس پیش کرنے کا حکم دے دیا۔ عدالت کو بتایا گیا کہ بلوچستان، پنجاب، سندھ اور کے پی کے کی جانب سے جواب داخل نہیں کرایا گیا ہے۔ عدالت نے کہا کہ منشیات پورے ملک کا مسئلہ ہے۔ اب اس معاملے کو اسلام آباد میں سنیں گے۔ سکول و کالجز کے بہت سے بچے منشیات استعمال کر رہے ہیں۔ انہیں منشیات کہاں سے مل رہی ہیں بتایا جائے؟ چیف جسٹس نے استفسار کیا حکومت پنجاب کو منشیات کے عادی افراد کی بحالی کیلئے ادارہ قائم کرنے کا حکم دیا تھا۔ اس کی کیا رپورٹ ہے۔ حکومت بچوں اور والدین کی آگاہی کے لیے میڈیا پر مہم چلائے تاکہ لوگوں کو معاملات کی سنگینی کا احساس ہو۔ سپریم کورٹ نے یونیورسٹی آف مینجمنٹ اینڈ ٹیکنالوجی کے سب کیمپسز کے معاملہ سے متعلق ہائر ایجوکیشن کمیشن اور یونیورسٹی انتظامیہ سے جواب طلب کر لیا۔سپریم کورٹ کے چیف جسٹس نے ایم کیو ایم کے رہنما علی رضا عابدی کے قتل پر ازخود نوٹس لینے کی درخواست مسترد کر دی۔ چیف جسٹس نے قرار دیا کہ کسی انفرادی شخص کی درخواست پر کارروائی نہیں کر سکتا ۔کراچی جا کر معاملے کو خود دیکھ لوں گا۔