مودی سرکار نے سیکولرزم کی ارتھی اٹھا کردو قومی نظریہ آب و تاب سے اجاگر کردیا ہے

’’قائد اعظم کا وژن مستند حقیقت بن چکا‘‘ سیاسی و عسکری قیادت کا اقلیتوں کے تحفظ کا عزم


آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے کہا ہے کہ دو قومی نظریہ کی بنیاد پر قیام پاکستان کے بارے میں قائد اعظم کا ویژن اب پہلے سے بھی زیادہ مستند حقیقت بن چکا ہے۔ آئی ایس پی آر کے مطابق آرمی چیف نے قائد اعظم کے یوم پیدائش کے موقع پر کراچی میں ان کے مزار پر حاضری دی۔ اس موقع پر قائد اعظم کو شاندار الفاظ میں خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ قائد نے ہمیں ملک لے کر دیا، اس پر ان کا شکریہ ادا کرنے کیلئے ہمارے پاس الفاظ نہیں ہیں۔ انتہائی مشکل وقتوں میں بھی اقلیتوں سمیت تمام پاکستانی متحد رہے۔ انہوں نے کہا کہ قائداعظم محمد علی جناح کا ویژن ہمیشہ ہماری رہنمائی کرتا رہے گا۔ ان کے ویژن اتحاد، ایمان، تنظیم پر چل کر ملک کو آگے لے جایا جا سکتا ہے۔ ڈی جی آئی ایس پی آر میجر جنرل آصف غفور نے کہا ہے کہ جو لوگ قیام پاکستان کی مخالفت کر رہے تھے انہیں آج احساس ہورہا ہے۔ قائد اعظم کے یوم پیدائش اپنے ٹوئٹر پیغام میںانہوں نے کہا کہ مخالفت کرنے والوں کیلئے یہ ایک نئی شروعات ہے۔انہوں نے قائد اعظم کی سالگرہ کی مناسبت سے ان کی تصویر شیئر کی جس پر ان کا یہ قول بھی نقل کیا کہ ’’ ہندو اور مسلمان دو الگ الگ قومیں ہیں، ان میں کوئی بھی قدر مشترک نہیں ہے‘‘۔ دوسری طرف قائد اعظم کے یوم ولادت پر وزیراعظم عمران خان کا کہنا تھا کہ نوجوان لیڈرشپ کو قائداعظم کو اپنا رول ماڈل بنانا چاہئے۔ قائداعظم صادق اور امین تھے، ان کی 40 سالہ جدوجہد کسی ذاتی مقصد کے لئے نہیں تھی، انہوں نے اتنی جدوجہد مسلمانوں کے لئے الگ ملک کے حصول کی خاطر کی۔ اس سے قبل سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر ٹویٹ کرتے ہوئے وزیراعظم عمران خان نے مسیحی برادری کو مبارکباد دی اور نیک خواہشات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ آج امن، محبت، رواداری اور انسانیت کا پیغام عام کرنے کا دن ہے۔ وزیراعظم کا کہنا تھا کہ حکومت اقلیتوں سمیت تمام پاکستانیوں کیساتھ یکساں سلوک روا رکھے گی، پاکستان میں اقلیتی برادری کو مکمل معاشی، سیاسی اور مذہبی آزادی حاصل ہے، اقلیتیں ملکی ترقی کیلئے تمام شعبوں میں کردار ادا کر رہی ہیں۔
پاکستان کا دو قومی نظریے کے تحت معرضِ وجود میں آنا اظہرمن الشمس حقیقت ہے۔ اس حقیقت سے روگردانی کرنے والے مسلم رہنمائوں کے دلائل سورج کو چراغ دکھانے سے زیادہ نہیں تھے۔ آج بھارت میں جو کچھ ہو رہا ہے ایک وطن ایک قوم کا موقف لے کر اسلامیانِ ہند کی رائے کو گمراہ کرنے کی کوشش کرنے اور مولانا ابوالکلام جیسے ہندو لیڈر شپ کی غلامی کا دم بھرنے والے مرحومین کی روحیں شرمندہ ہو رہی ہونگی۔ 71 میں سقوط مشرقی پاکستان کے موقع پر بھارتی وزیراعظم اندرا گاندھی نے بڑے تکبر اور رعونت سے کہا تھا آج دو قومی نظریہ خلیج بنگال میں ڈوب گیا۔ بھارتی وزیراعظم کے یہ الفاظ اُس پاکستانی ’’مخلوق‘ کو ان کی کم علمی پر شرم دلانے کے لیے کافی ہیں جو نہ صرف نظریہ پاکستان سے انحراف کرتے ہیں بلکہ ان الفاظ کو جنرل شیر علی خان کی اختراع بھی قراردیتے ہیں۔ آج دو قومی نظریہ پوری آب و تاب سے عیاں اور نمایاں ہوا ہے۔ یہ سب کچھ پاکستان کے وجود اور بھارت میں موجود کروڑوں مسلمانوں کی بدترین دشمن بی جے پی حکومت نے کیا ہے۔ یہاں یہ تذکرہ بھی بے محل نہیں ہو گا کہ اندرا گاندھی کے بقول دو قومی نظریہ مشرقی پاکستان کے الگ ہونے سے واقعی ختم ہو گیا ہوتاتو مشرقی پاکستان بنگلہ دیش بننے کے بجائے بھارت میں ضم ہو جاتا۔
آج کی ہندو لیڈر شپ کی جانب سے اوپر تلے دو اقدامات نے دو قومی نظریے کی حقانیت پر عملاً مہر تصدیق ثبت کر دی ہے۔ 5 اگست کے آئین میں تبدیلی کے ذریعے کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کی گئی تو بھارت نواز لیڈر شپ جو بنیئے کے جوتوں میں بیٹھنے کو اعزاز سمجھتی تھی، کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم ہونے پر بلبلا اٹھی۔ مفتی اور شیخ خاندان اپنے آبائو اجداد کو مطعون کرتے اور دو قومی نظریہ کو برحق تسلیم کرتے نظر آئے۔ اسے بھارتی سیکولرازم کی موت بھی قرار دیا گیا ۔ رہی سہی کسر اکثریت کے بل بوتے پر شہریت بل کی منظوری نے پوری کر دی۔ اس پر پورے بھارت میں آگ سی لگ گئی۔ بھارتی تاریخ میں اس کے اندر سے کبھی اس قدر شدید ردعمل نہیں آیا جتنا شہریت بل کی منظوری پر آیا ہے۔ پورے بھارت میں کرفیو کی کیفیت ہے۔ مظاہرین بے قابو ہو رہے ہیں ہر شہرمیں مظاہرے احتجاج اور ریاستی تشدد سے ہلاکتیں ہو رہی ہیں اور گرفتاریوں کانہ رکنے والا سلسلہ جاری ہے ۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق مودی حکومت کی جانب سے کیے گئے حالیہ مسلمان مخالف فیصلوں پر بھارت میں مودی کو ہٹلر سے تشبیہ دی جانے لگی ہے۔ احتجاج کے دوران بھارتی عوام نے کارٹون پر مبنی پوسٹرز اٹھا رکھے تھے جس پر دیکھا جا سکتا ہے کہ ہٹلر نے مودی کواپنے ہاتھوں پر اٹھایا ہوا ہے۔ روسی میڈیا کے مطابق شہریت کے متنازع بل کے خلاف بھارت میں ہوئے احتجاج کی یہ تصویر جرمن ٹی وی نے بھی نشر کی ہے ، جس کے بعد کارٹون سوشل میڈیا پر وائرل ہو گیا۔
ہانگ کانگ سے شائع ہونیوالے انگریزی اخبار’’ا یشیا ٹائمز‘‘نے ایک رپوٹ میں لکھا کہ بھارت کو کئی دہائیوں سے جاری سفارتی فتوحات کے بعد اب عالمی سطح پر غیرمعمولی شک و شبہات اور بے توقیری کا سامنا ہے۔ بھارت کی حیثیت کو عالمی سطح پر کھوکھلا کرنے میں نریندر مودی حکومت کی تین اہم پالیسیوں ’’مذہب کی بنیاد پر شہریت کا قانون، کشمیر کی خصوصی حیثیت کا خاتمہ اور نوٹ بندی‘‘ نے اہم کردار ادا کیا۔ اخبار لکھتا ہے کہ رواں برس اپریل، مئی میں ہونے والے عام انتخابات میں نریندر مودی نے دوسری بار حکومت کے لئے بھاری کامیابی حاصل کی لیکن ابتدائی چند مہینوں میں ہی پالیسیوں کی بڑی تبدیلیوں نے اب انکی حکومت کو عالمی سطح پر مشکلات میں ڈال دیا ہے۔ ایشیاء ٹائمز نے لکھا کہ شہریت بل کو بھارتی آئین کی خلاف ورزی کے طور پر دیکھا جارہا ہے اور بہت سے لوگوں کو خدشہ ہے کہ شہریوں کا قومی اندراج شروع ہونے کے بعد مسلمانوں کو حق شہریت سے محروم کیا جائے گا۔ اخبارمزید لکھتا ہے بھارت اس قانون کی زد میں آنے والوں کیلئے حراستی مراکز تعمیر کرنا شروع کر چکا ہے اوریہ مراکز نازیوں کے تعمیر کردہ حراستی کیمپوں سے ملتے جلتے ہیں۔گویا مودی حکومت مزید ستم کے لیے تیار ہو چکی ہے۔ ایسے موقع پر عالمی برادری کو اپنا کردار ادا کرنے کی ضرورت ہے۔ کشمیریوں پر بربریت میں اضافہ کیا گیا تو دنیا بھر سے ردعمل سامنے آیا جس کے باعث مقبوضہ جموں کشمیر میں سنگین انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے مرتکب بھارت کو منہ کی کھانا پڑی۔ بھارتی حکومت نے مقبوضہ جموں کشمیر سے پولیس اور پیرا ملٹری فوج کی 72 کمپنیوں کو واپس بلانے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ بھارتی وزارت داخلہ امور نے چیف اور ہوم سیکریٹری سری نگرکو احکامات جاری کر دیئے ہیں۔ اُدھر مقبوضہ کشمیر میں مسلسل 145ویں روز بھی بھارتی فوجی محاصرہ جاری رہا جسکی وجہ سے خوف و دہشت کا ماحول اور غیر یقینی صورتحال بدستور برقرار ہے۔
امریکی رکن کانگریس پرامیلا جے پال نے کہا کہ مقبوضہ کشمیر میں 144 بچوں سمیت 5 ہزار کشمیری زیرحراست ہیں۔ انہوں نے مطالبہ کیا کہ گرفتارافراد کو رہائی دی جائے اور انسانی حقوق کا تحفظ یقینی بنایا جائے۔ خود بھارتی اراکین پارلیمنٹ کو بھی مقبوضہ وادی میںجانے کی اجازت نہیں جبکہ بھارتی وزیرخارجہ کا مجھ سے ملنے سے انکار بھارتی کمزوری کا عکاس ہے۔ بھارتی وزیرخارجہ اس لیے نہیں ملے کیوں کہ میں نے ایوان میں کشمیر پر قرارداد پیش کی۔پرامیلا جے پال نے کہا کہ بدقسمتی سے اب مودی سرکارکی جانب سے شہریت کا نیا قانون متعارف کرایا جارہا ہے جس میں مسلمانوں کو تعصب کا شکار بنایا گیا ہے جو سیکولر پالیسیوں سے انحراف ہے۔صرف ایک پرامیلا پال ہی نہیں‘ دنیا میں جہاں کہیں سے بھارت اور کشمیر کے مظلوم مسلمانوں کے حق میں آواز اٹھتی ہے بھارت اس آواز کو پوری قوت سے دبانے کی کوشش کرتا ہے مگر بھارت عالمی دبائو کی ایک حد تک ہی مزاحمت کر سکتا ہے۔ اب اس نے مقبوضہ وادی میں کچھ سختیوں میں کمی بھی عالمی دبائو پر کی ہے حالانکہ یہ دبائو کسی عملیت کے تحت نہیں محض بیانات کی حد تک تھا۔ عالمی برادری بھارت کو سخت لہجے میں مسلمانوں پر مظالم بند کرنے کو کہے اور اقوام متحدہ کشمیریوں کو ان کے حقوق کی بحالی اور تمام تر پابندیوں کے خاتمے تک اس کی رکنیت معطل کر دے تو بھارت یقیناً راہِ راست پر آ سکتا ہے۔
ایک طرف بھارت میں مسلمانوں سمیت اقلیتوں کے ساتھ امتیازی ہی نہیں ظالمانہ سلوک روا رکھا جا رہا ہے دوسری طرف پاکستان میں اقلیتوں کا ہمیشہ تحفظ یقینی بنایا گیا۔ اس حوالے سے وزیراعظم کاکرسمس پر مسیحی برادری کے لیے پیغام پاکستان میں اقلیتوں کے تحفظ اور یکساں سلوک کا آئینہ دار ہے۔ پاکستان میں کرسمس دیوالی اور بابا گورونانک کے جنم دن سمیت اقلیتوں کے دیگر خصوصی مواقع کی تقریبات میں اکثریت کے حامل مسلمان بھی شریک ہوتے ہیں۔ اُدھر بھارت میں مساجد، گردواروں اور چرچوں کو شدت پسند ہندوئوں کی طرف سے جلایا اور گرایا جاتا ہے۔ ان شدت پسندوں کی پشت پناہی مودی کی سربراہی میں بی جے پی حکومت کرتی ہے۔ انکے انہی کرتوتوں سے بھارت سے سیکولرازم اور بی جے پی کی اکثریت کی ارتھی بھی اٹھ رہی ہے جس کا عکس جھاڑ کھنڈ میں بی جے پی کی بدترین شکست سے نظر آرہا ہے۔

ای پیپر دی نیشن