آرمی چیف ملازمت توسیع: عدالتی فیصلہ غیر قانونی، کالعدم کیا جائے: حکومت

Dec 27, 2019

اسلام آباد (نمائندہ نوائے وقت) وفاقی حکومت نے آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع کے معاملے پر سپریم کورٹ میں نظرثانی کی درخواست دائر کر دی۔ نظرثانی اپیل میں لارجر بنچ تشکیل دینے کی استدعا کی گئی ہے۔ حکومت نے اپیل میں کیس کو ان کیمرہ سماعت کیلئے مقرر کرنے کی استدعا بھی کی۔ سپریم کورٹ میں دائر درخواست میں کہا گیا ہے کہ فیصلے کو کالعدم قرار دیا جائے۔ فیصلے میں اہم آئینی و قانونی نکات کا جائزہ نہیں لیا گیا۔ ایڈیشنل اور ایڈہاک ججز کو بھی سپریم کورٹ ماضی میں توسیع دیتی رہی ہے۔ عدالت نے ججز توسیع کیس کے فیصلوں کو بھی مدنظر نہیں رکھا گیا۔ آرمی چیف کی مدت کا تعین وزیراعظم کا اختیار ہے۔ فیصلے میں ایگزیکٹو کے اختیارات کو کم کردیا گیا۔ مدت کا تعین کرنا آئین کے منافی ہے۔ مدت نہ ہونے کا مقصد ہے وزیراعظم جب چاہیں آرمی چیف کو رکھیں‘ جب چاہیں ہٹا دیں۔ فوج سکیورٹی کا ادارہ ہے۔ قبل ازیں وزیر قانون فروغ نسیم اٹارنی جنرل سے ملاقات کیلئے سپریم کورٹ آئے جس میں نظرثانی درخواست دائر کرنے سے متعلق مشاورت کی گئی اور آرمی چیف کی مدت ملازمت کے فیصلے پر نظرثانی درخواست کا ڈرافٹ تیار کیا گیا۔ وزیر قانون نے میڈیا سے گفتگو میں کہا کہ سپریم کورٹ نے فیصلے میں کئی آئینی نکات کا جائزہ نہیں لیا۔ بہت سے آئینی معاملات پر نظرثانی کی ضرورت ہے۔ عدالت میں دائر اس درخواست میں وفاقی حکومت، وزیراعظم عمران خان، صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی اور آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ درخواست گزار ہیں۔ خیال رہے کہ وزیراعظم عمران خان نے اگست میں آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کی مدت ملازمت میں 3 سال کی توسیع کی تھی کیونکہ اس سے قبل وہ 29 نومبر کو متوقع طور پر ریٹائر ہوجاتے لیکن اس سے قبل ہی وزیراعظم نے ان کی مدت ملازمت میں 3 سال کی توسیع دے دی تھی۔ تاہم 29 نومبر سے قبل ہی عدالت میں اس توسیع کے خلاف درخواست سامنے آئی جس پر سپریم کورٹ کے اس وقت کے چیف جسٹس کھوسہ نے سماعت کی اور 26 نومبر کو اس مدت ملازمت میں توسیع کے نوٹیفکیشن کو معطل کر دیا تھا۔ جس کے بعد 3 روز تک عدالت میں طویل اور اہم ترین سماعت کے بعد سپریم کورٹ نے 28 نومبر کو پارلیمنٹ کو ہدایت کی تھی کہ وہ 6 ماہ میں آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع/دوبارہ تعیناتی پر قانون سازی کرے اور اس دوران جنرل قمر باجوہ ہی آرمی چیف رہیں گے۔ بعد ازاں اس کیس کا 43 صفحات پر مشتمل تفصیلی فیصلہ جاری کیا گیا تھا، جس کے جائزے کے بعد گزشتہ روز حکومت نے عدالت عظمیٰ میں درخواست دائر کی۔ عدالت عظمیٰ میں اٹارنی جنرل کی جانب سے دائر کی گئی درخواست میں فیصلے کے قانونی پہلوؤں پر سوالات اٹھائے گئے۔ درخواست میں کہا گیا کہ یہ حکم بے ضابطگیوں کا شکار ہے جس نے انصاف کی مدد سے ہونے والے ایک عمل کو ناانصافی کے عمل میں تبدیل کر دیا۔ اس کے علاوہ یہ بھی دعویٰ کیا گیا کہ عدالت نے آئین میں وضع کردہ قوانین کے ساتھ ساتھ 'اہم قوانین' کو بھی 'مکمل طور پر نظر انداز' کیا ہے۔ علاوہ ازیں درخواست میں یہ بھی کہا گیا کہ یہ درخواست عوام کے بہترین مفاد میں دائر کی گئی ہے، ساتھ ہی یہ بھی کہا گیا کہ عدالت کو عوامی پالیسی اور مشترکہ مفادات کے معاملات میں مداخلت نہیں کرنی چاہیے۔ مذکورہ درخواست میں کہا گیا کہ مودبانہ طور پر اس عمل کی طرف نشاندہی کی جاتی ہے کہ مبہم فیصلے میں نمایاں بھول چوک اور واضح غلطیاں ہیں، جو آئین و قانون کے خلاف ہے۔ حکومتی درخواست میں کہا گیا کہ اس تنازعہ کی نوعیت حقیقت میں منفرد ترین کیسز میں بھی منفرد تھا جس میں معزز عدالت کو مشترکہ مفاد اور عوامی پالیسی کے معاملات میں مداخلت نہیں کرنی چاہیے تھی۔ ساتھ ہی یہ بھی کہا گیا کہ درحقیقت معزز عدالت کا طویل منظور شدہ کنونشنز اور حکومت کی مجوزہ پالیسی کی چھیڑ چھاڑ میں کوئی کردار نہیں ہوتا۔ مذکورہ درخواست میں یہ بھی کہا گیا کہ عدالت نے کہا کہ منتخب نمائندے آرمی چیف کی مدت ملازمت میں تویسع اور تعیناتی سے متعلق معاملات کا فیصلہ کریں اور یہ لوگ اپنے منتخب نمائندوں کے ذریعے کیے گئے فیصلے کو 'قبول یا مسترد' کرسکتے ہیں۔ تاہم درخواست میں کہا گیا کہ بہت احترام کے ساتھ اس بات کا مطلب ہے کہ یہ تعیناتیاں ان منتخب نمائندوں کے ذریعے کی جانی چاہیے جنہوں نے 7 دہائیوں تک قانون سازی نہ کرکے اس معاملے کو نمٹایا اور اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔ عدالت عظمیٰ میں دائر درخواست میں 'بہت احترام کے ساتھ' کہا گیا کہ عدالتی فیصلے میں 'واضح غلطیاں' ہیں اور یہ غلطیاں نمایاں ہیں۔

مزیدخبریں