خونِ خاک نشیناں؟

Dec 27, 2019

فضل حسین اعوان....شفق

آج بینظیر بھٹو کی 12ویںبرسی پیپلز پارٹی بڑے اہتمام سے تو منارہی ہے مگر روایت سے ہٹ کر’’ شہدائے بھٹوز‘‘ کے مزارات سے سیکڑوں میل دور بینظیر بھٹو کی جائے قتل لیاقت باغ راولپنڈی میں جلسہ عام کیا جارہا ہے۔پی پی پی کے لیڈروں نے جتنا ہر دفعہ انتظام انصرام بینظیر کی سال گرہیں اور برسیاں منانے کی خاطر کیا اس سے آدھازور بے نظیر قتل کی’’ سپاری‘‘ دینے والے کی تلاش میں کیا ہوتا تو وہ سامنے آجاتا۔بے نظیر کے دور حکمرانی میں بھی کرپشن کے سوتے پھوٹتے ،قانون اور ضابطے ٹوٹتے رہے مگر وہ ایک بڑی لیڈر ضرور تھیں۔ بے نظیر بھٹو کے بارے میں بہت سی کتابیں لکھی جا چکی ہیں جن میں شیام بھاٹیا، بروک ایلن، اینا سوورووا، لیبی ہیوز اور اقبال آخوند کی لکھی ہوئی سوانح عمریاں شامل ہیں۔تاہم،گزشتہ سال بے نظیر بھٹو کی ایک نئی سوانح عمری شائع ہوئی ہے، جس میںنامور سیاستدان،سیدہ عابدہ حسین نے بے نظیر کی زندگی اور ان کی جدوجہد کو اپنے مشاہدے کی بنیاد پر پرکھتے ہوئے تحریر کیا ہے۔ یہ کتاب آکسفورڈ یونیورسٹی پریس نے شائع کی ہے۔ان کی نئی کتاب سپیشل سٹار بے نظیر بھٹو کی کہانی ایک کہانی کی شکل میں لکھی گئی۔ جس میں وی او اے کے مطابق محترمہ عابدہ حسین نے بے نظیر کی ابتدائی زندگی، ان کے والد اور سابق وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کے عدالتی قتل، بے نظیر کی پیپلز پارٹی کی قیادت، وزیر اعظم کی حیثیت سے ان کے دونوں ادوار، ان کا قائد حزب اختلاف کی حیثیت سے کردار، ان کی جلا وطنی کا دور، پرویز مشرف کی حکومت کے دوران مصنفہ اور بے نظیر کے رابطوں، مشرف کی حکومت کے خاتمے، بے نظیر کی وطن واپسی اور پھر ان کی شہادت کے بارے میں تفصیلاً لکھا ہے۔ کتاب کے دیباچے میں عابدہ حسین کہتی ہیں کہ شروع میں وہ سمجھتی تھیں کہ بے نظیر ہر قسم کی قابلیت سے عاری خاتون ہیں۔ تاہم، رفتہ رفتہ جب وہ انہیں سمجھنے لگیں تو وہ ان کی مداح بن گئیں۔ بے نظیر کی پر اثر شخصیت کی کشش نے انہیں ان کا گرویدہ بنا دیا۔ بے نظیر ذہانت، قابلیت، دلیری، وقار اور حسن کا مجسمہ تھیں۔ بے نظیر یقینا کسی منفرد ستارے کے زیر اثر پیدا ہوئی ہوں گی۔اپنی کتاب میں متعدد بار عابدہ حسین نے لکھا ، جب ان کی بے نظیر سے قربت ہوئی تو بے نظیر ہر نازک معاملے پر ان سے مشورہ کرتی تھیں اور ان کے مشوروں کو ہمیشہ قدر کی نگاہ سے دیکھتی تھیں۔ بے نظیر کو جب بھی کسی سیاسی الجھن کا سامنا ہوا تو انہوں نے ہمیشہ عابدہ حسین کو بلا کر مشورہ کیا۔ بے نظیر کی ہاروڈ اور آکسفورڈ یونیورسٹی میں زندگی کے بارے میں تفصیلات بتاتے ہوئے لکھا ہے کہ ان کے والد ذوالفقار علی بھٹو کی یہ خواہش تھی کہ بے نظیر بھی ان کی طرح ہارورڈ کے بعد آکسفورڈ یونیورسٹی میں تعلیم حاصل کریں۔ لہذا، اس وقت برطانیہ میں موجود پاکستان کے ہائی کمشنر میاں ممتاز دولتانہ کی مدد سے بے نظیر کا داخلہ آکسفورڈ میں ہو گیا جہاں انہوں نے پولیٹکل سائنس، فلسفہ اور معاشیات جیسے مضامین کا انتخاب کیا۔ آکسفورڈ یونیورسٹی کے قدیمی فن تعمیر نے انہیں بہت متاثر کیا۔ یونیورسٹی کے دوسرے سال کے دوران وہ یونیورسٹی یونین کی صدر منتخب ہوئیں۔ ان دنوں عمران خان بھی، جو بعد میں کرکٹ ہیرو اور پھر سیاسی رہنما بنے(اب وزیر اعظم پاکستان ) اسی یونیورسٹی میں زیر تعلیم تھے۔ بے نظیر اور عمران خان آکسفورڈ یونیورسٹی میں ہم عصر تھے اور ایک دوسرے کو بخوبی جانتے تھے۔انہی دنوں جب ذوالفقار علی بھٹو بھارتی وزیر اعظم اندرا گاندھی سے 1971 کی جنگ کے نتیجے میں جنگی قیدی بننے والے 90,000 پاکستانی قیدیوں کی رہائی کیلئے مذاکرات کرنے شملہ گئے تو وہ بے نظیر کو بھی اپنے ہمراہ لے گئے۔ عابدہ حسین لکھتی ہیں کہ شملہ نے بے نظیر کو مری کی یاد دلائی۔ تاہم، شملہ مری کے مقابلے میں زیادہ بڑا اور گنجان آباد تھا۔ اس مختصر دورے میں بھارتی میڈیا نے بے نظیر کو بہت زیادہ کوریج دی۔کتاب میں ذوالفقار علی بھٹو کی شہادت کے بعد ان کے دونوں بیٹوں مرتضی اور شاہنواز کی طرف سے بھارت جا کر الذوالفقار تنظیم بنانے سے لیکر دونوں کی شہادت تک کی تفصیلات بھی بتائی گئی ہیں۔ اس دوران، بے نظیر بھٹو لندن میں جلا وطنی کی زندگی گزار رہی تھیں۔ بالآخر 1986 میں متحدہ عرب امارات کے حکمران شیخ زید کی مدد سے وہ پاکستان واپس آنے میں کامیاب ہوئیں جہاں عوام نے ان کا شاندار استقبال کیا۔اس دوران، بے نظیر نے تمام ملک کے تفصیلی دورے کئے اور پیپلز پارٹی کو ازسرنو منظم کیا اور انتخابات کیلئے بھرپور مہم چلائی۔ عابدہ حسین لکھتی ہیں کہ اس موقع پر نصرت بھٹو کی خواہش تھی کہ بے نظیر کی جلد شادی ہو جائے۔ اس کیلئے، بقول ان کے، سندھ کے ایک سرکاری افسر شجاع شاہ کا نام لیا گیا، جنہوں نے سرکاری افسر ہونے کی وجہ سے جنرل ضیا کو خط لکھ کر بے نظیر سے شادی کرنے کی اجازت مانگی۔ تاہم، جب بے نظیر کو یہ معلوم ہوا تو انہوں نے اس رشتے کو قبول کرنے سے انکار کر دیا۔ اس کے علاوہ فیصل صالح حیات کا نام بھی تجویز کیا گیا۔ لیکن، عابدہ حسین کہتی ہیں کہ فیصل حیات کی تعلیم کم تھی اور وہ بور قسم کے آدمی تھے۔ (یاد رہے فیصل صالح حیات محترمہ عابدہ کے سیاسی حریف ہیں)۔ انکے بعد آصف زرداری کی سوتیلی والدہ ٹمی آصف کا رشتہ لیکر نصرت بھٹو کے پاس آئیں۔ اس وقت بے نظیر لندن میں تھیں۔ آصف ان سے ملنے لندن آئے۔ ملاقات میں بے نظیر پر آصف زرداری کا اچھا تاثر قائم ہوا اور انہوں نے یہ رشتہ قبول کر لیا (زرداری صاحب کی تعلیم!)۔
بے نظیر بھٹو سے شادی آصف علی زرداری کی شہرت ، عزت اور دولت کو آسمان کی بلندیوں تک لے گئی اور کچھ لوگوں کے خیال میں بے نظیر کو بھی آسمان تک پہنچانے میں یہی شادی سبب بنی۔ آصف زرداری اور پرویز مشرف محترمہ کے قتل کا الزام ایک دوسرے پر لگاتے ہیں۔ بینظیر بھٹو کوجس طرح قتل کیا گیا وہ ایک فول پروف پلاننگ تھی ایسا ہالی وڈ کی ایکشن فلموں میں ہوتا ہے۔ اس کی نقالی بالی وڈ اور چربہ سازی ہمارے ڈراموں میں بھی نظر آتی ہے۔ عورت کی حکمرانی کی طالبان مخالفت کرتے رہے۔ شروع میں مولانا فضل الرحمن نے بھی فتویٰ بازی کی مگر بعدازاں ’’قومی مفاد‘‘ میں بینظیر بھٹو کا ساتھ دیا۔ طالبان کو مولانا فضل الرحمن ایسے قومی مفاد پر آمادہ نہ کیا جا سکا۔ بیت اللہ محسود نے انہی دنوں بینظیر کو بکری کی طرح ذبح کرنے کا بیان دیا تھا۔ بینظیر قتل کے ڈانڈے طالبان ہی سے ملتے ہیں۔ طالبان کے پیچھے کون تھا؟ طالبان کی اپنی سوچ تھی۔ آصف علی زرداری‘مشرف یا کوئی اور۔ قتل کے بعد جو شواہد سامنے آئے جن میں پوسٹمارٹم نہ کرانا،خالد شہنشاہ کے مشکوک اشارے۔ قتل کے فوری بعد مشرف حکومت کا پر طالبان کی آڈیو سامنے لانا اور جائے وقوعہ کو دھلوا دینا۔ ان سے تو مشرف زرداری گٹھ جوڑ کی جھلک بھی دکھائی پڑتی ہے۔ گزشتہ دنوں ایک جیالا جو اپنا تعارف شہزادہ کے نام سے کراتے ہوئے دعویٰ کر رہا تھا کہ آصف زرداری نے محترمہ کو راستے سے ہٹانے کے لیے اس سے سب سے پہلے مشورہ کیا تھا،یہ پی پی پی کلچر ونگ کا عہدیدار رہا ہے اس کے بقول وہ گواہی دینے اور شریک جرمِ مشورہ ہونے پر پھانسی گھاٹ پر جانے کو تیار ہے۔مگر اس کی گواہی سے بھی کسی پیشرفت کی امید نہیں،ایسی گواہیاں سیاسی اور سنیاسی قسم کی بھی ہوتی ہیں۔مگر آج پھر یہ سوال ہے ،کیا بینظیر کا خان خونِ خاک نشیناں تھا تو رزقِ خاک ہوا۔

مزیدخبریں