پاکستان کی سرزمین شہدائکی وارث ہے اور اگر یہ کہا جائے کہ پاکستان قدرت کا وہ انعام ہے جو لاکھوں قربانیوں کے بعد قائداعظم اور ان کے ساتھیوں کی لا زوال محنت کے بعد رب ذوالجلال کی جانب سے عطا کیا گیا ہے، تو یہ بے جا نہ ہو گا۔اسی دہرتی کی بیٹی جو اپنے باپ شہید بھٹو کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے اس پاک وطن کی مٹی کے نیچے سو گئی، اس بے نظیر بیٹی کو یہ بھی اعزاز حاصل تھا کہ وہ پاکستان کی دو دفعہ وزیر اعظم رہی اور پہلی خاتون مسلم وزیر اعظم کا منصب بھی اسی کے حصے میں آیا۔
سانحات زندگی کا حصہ ہیں لیکن کچھ واقعات ایسے ہوتے ہیں جو آپ زندگی بھر نہیں بھلا پاتے اور موت کو اتنے قریب سے دیکھنا شائید آئندہ زندگی کو بدل کے رکھ دیتا ہے، جلسہ لیاقت باغ میں شرکت کے لئے راقم کو اپنی لیڈر شہید محترمہ بے نظیر بھٹو کی جانب سے حکم ملا تو اپنی تمام مصروفیات کو پسِ پشت ڈالتے ہوئے حکم کی تعمیل کی اور پیرس سے پاکستان پہنچا، محترمہ بہت پر جوش تھیں۔ وطن سے محبت بھٹو خاندان کا اثاثہ ہے، جسے اس خاندان نے ہمیشہ اپنے خون سے سینچا ہے، اور یہی پاکستان سے محبت اور وطن سے پیار کی نشانی ہے جو پیپلز پارٹی کے ماتھے کا جھومر ہے، شہید محترمہ بے نظیر جو نہ صرف، بھٹو کی بیٹی بلکہ اس قوم کی بیٹی تھیں جسے لاکھوں قربانیوں کے بعد حاصل کیا گیا۔ ایک ایسی لڑکی جو ناز و نعم سے پلی بڑھی ہو اور جس نے لندن سے اعلیٰ تعلیم حاصل کی اور برطانیہ سے پاکستان واپس آ کر اس قوم کی خدمت میں لگ گئی۔ پیارے وطن میں ڈکٹیٹر نے شدید تکالیف سے دوچار کیا لیکن بھٹوکی بیٹی تھی اپنے ارادے کی پکی اور وطن کے لئے لازوال محبت رکھنے والی، کہاں دشمن کے سامنے سر جھکاتی، اور پھر تاریخ نے دیکھا، اور پھر بے نظیر بھٹو نے بھی قوم کی بیٹی ہونے کی لاج رکھی اور پاکستان میں جمہوریت قائم کر کے عوام کو ان کا حق ان کی دہلیز تک پہنچایا۔1977ء میں ضیاء الحق نے شہید بھٹو کو تختہ دار پر لٹکایا تو اس وقت بے نظیر بھٹو صرف چوبیس برس کی تھیں لیکن انہوں نے اس وقت بھی بھٹو کے کیس کو لڑا اور تن تنہا مقابلہ کیا اور وقت نے ثابت کیا کہ بے نظیر نہ صرف ذہین خاتون بلکہ دلیر لیڈر ہیں اورپاکستان سے محبت انہیں ورثے میں ملی ہے۔ بھٹو شہید کے بعد محترمہ نے تکالیف کو جیسے برداشت کیا یہ ایک عام عورت کے بس کی بات نہیں، انہیں اندرون سندھ قائم ٹارچر سیلز میں بھی رکھا گیا جسے انہوں نے اپنی کتاب ڈاٹر آف ڈیسٹنی میں بھی تحریر کیا ہے، بے نظیر لکھتی ہیں کہ انہیں نظر بندی کے دوران ایک بار غیر معلوم مقام پر بھیجا گیا جہاں ایسا ٹارچر سیل تھا جس کی چھت نہیں تھی اور جس میں کیڑے مکوڑے اور مچھروں کی بھرمار تھی، وہ لکھتی ہیں کہ ان کے بال سخت اذیت کے باعث مسلسل جڑھنا شروع ہو گئے تھے اور جب وہ اس ٹارچر سیل سے باہر آئیں تو ایک ماہ کے لئے ہسپتال بھی داخل رہیں،بے نظیر بھٹو 1984 ء میں عالمی دباو پر علاج کے لئے باہر چلی گئیں، انتیس سالہ بے نظیر کو دو سال چار ماہ جلا وطنی برداشت کرنا پڑی وہ اکثر کہا کرتی تھیں کہ جو وقت انہوں نے پاکستان سے باہرجلا وطنی میں گزارا وہ ایک کٹھن دور تھا اور وہ اسے بھول نہیں سکتیں،آمر ضیائ الحق نے عدالت کو آلہ کار بناتے ہوئے بھٹو شہید کو 1979 میں تختہ دار پر لٹکانے کے بعد سوچا تھا کہ پیپلز پارٹی بھی شائیدماضی کی ایک یاد بن کر رہ جائے گی لیکن عوام کے دلوں پر راج کرنے والوں کے نام یادوں سے کھرچنا کبھی ممکن نہیں،اگر ایسا آسان ہوتا تو آج تاریخ میں سچ کا ساتھ دینے کے بجائے ظالموں کے کارناموں کا چرچا ہوتا،عظیم باپ کی دلیر بیٹی محترمہ بینظیر بھٹونے تمام تر ظلم و ستم کے باوجود اس مشن کو جاری رکھا،دختر مشرق اور جیالے کارکنوں کی بے مثال جدوجہد کا ثمر 1988میں ملا جب انہیں عالم اسلام کی پہلی خاتون وزیر اعظم کی مسند سنبھالنے کا موقع ملا۔ اگرشہداء کے وارث بھٹو خاندان کے اقتدار کو دیکھا جائے تو بہت طویل نہیں ہے لیکن عوام کے حقوق کی جدوجہد طویل ترین ہے اور اسی میں موت کو گلے لگا کرعظیم باپ اور بیٹی نے شہادت کامرتبہ پایا۔
ذوالفقار علی بھٹو نے اپنی عیش و آرام کی زندگی پر عوام کی فلاح کیلئے صعوبتیں اٹھانے کو ترجیح دی،انہوں نے 1967میں پارٹی کی بنیاد رکھی اور مختصر عرصے میں ہی اس کو مقبول ترین جماعت بنادیا،ملک کو ایٹمی طاقت بنا کر عالم اسلام کا قلعہ بنادیا، انہوں نے مزدوروں، کسانوں اور عام شہریوں کی حقوق کی بحالی کیلیے دن رات ایک کیا، اگر قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دینے کی بات کریں تو یہ کارنامہ نہیں بلکہ دین اسلام کی خدمت ہے جو اس وقت کے وزیر اعظم اور عوامی لیڈر ذوالفقار علی بھٹو کے احسن اقدامات میں سے ایک ہے، انہوں نے اپنی ذہانت سے نہ صرف اس مسئلے اور فتنے کو ختم کیا بلکہ اپنی ذہانت کی بدولت چودہ دن کی قومی اسمبلی کی کاروائی میں قادیانیوں کے پیشوا کو اپنا موقف پیش کرنے کی پوری اجازت دی جو اسلام کی اساس اور آئین پاکستان کی روح ہے، اس طرح چودہ دن جرح کے بعد بالآخر سات ستمبر انیس سو چوہتر کو قادیانی غیر مسلم اقلیت تسلیم کرلئے گئے اور آئین پاکستان کا حصہ بنا دیا گیا، ذوالفقار علی بھٹو اپنے پیارے محبوب نبی کریم ؐ سے اتنی محبت رکھتے تھے اس سے بڑا ثبوت اور کیا ہو سکتا ہے، اوریقیناشہید کے لئے جنت میں بھی آقا صلی اللہ علیہ وسلم کا سایہ ہو گا اور روز قیامت بھی نبیِ دو جہاں صلیٰ اللہ و علیہ وسلم کی شفاعت نصیب ہو گی۔
بے نظیر بھٹو کی تکالیف لاتعداد ہیںاور ان کی محنت بے انتہا اور یہ سب وطن کی محب میں ممکن ہو سکا، بے نظیر شہید اپنی جلاوطنی کے بعد ایک بار پھر واپس وطن لوٹیں اس بار بھی ان کا سامنا ڈکٹیٹر سے تھا اور مشرف جسے عدالت نے آئین پاکستان توڑنے پر سزا وار قرار دیا ہے اور موت کی سزا سنائی ہے اسی مشرف کے دور میں ملک دشمنوں نے انہیں وطن واپس آنے پر 18اکتوبر 2007کی درمیانی شب کراچی میں استقبالیہ جلوس پرحملے کے زریعہ روکنے کا میسج دیا جو پاکستان کی سیاسی تاریخ کا سب سے بڑا سانحہ بن گیا جس میں 145کے قریب بے گناہ انسان جاں سے ہاتھ دھو بیٹھے، ماضی میں کسی سیاسی جماعت کے جلوس میں اتنا بڑا قتل عام نہیں ہوا۔ محترمہ بے نظیر بھٹو دھماکے کے وقت ٹرک میں موجود تھیں، انہیں پیپلزپارٹی کے ورکروں اور سیکیورٹی ایجنسیوں کے اہلکاروں نے بحفاظت نکال کر بلاول ہاؤس پہنچایا، ٹرک پر سوار اور پیپلزپارٹی کے کئی رہنما زخمی ہوئے۔اس سانحے کے بعد بہت سے سوالات نے جنم لیا، محترمہ بے نظیر بھٹو پر قاتلانہ حملے کے بعد یہ حقیقت تو کھل گئی کہ ہمیشہ کی طرح اب بھی بہت سی قوتیں پیپلزپارٹی اور محترمہ سے خائف ہیں جن کا مشن پیپلزپارٹی کو سیاسی منظر سے ہٹانا ہے۔ جیسا کہ اب بلاول بھٹو زرداری کو گزشتہ روز نیب عدالت کی جانب سے طلبی کا نوٹس بھی اسی طرح کی ہتھکنڈوں کی ایک کڑی ہے جس کا ایک مقصد یہ بھی کہ اس طرح کے حالات پیدا ہوں کہ سال 2018ء میں ہونے والے انتخابات کے نتیجے میں سلیکٹڈ حکومت کو بلاول کی جانب سے نشانہ بنانا ختم کیا جا سکے لیکن شائید آج بھی عقل کے اندھے یہ نہیں جانتے کہ یہ اسی بے نظیر کا بیٹا ہے اور اس کی رگوں میں اس زرداری کا خون ہے جس نے گیارہ سال جیل میں اپنے نا کردہ گناہوں کی سزا میں تو رہنا قبول کیا لیکن کسی مطلق العنان حکمران کے سامنے جھکا نہیں اور آج بھی شدید بیماری کے باوجود چار ماہ سے زائد نیب گردی کا شکار رہا ہے لیکن جھکا نہیں۔
میں گزشتہ چند ماہ میں پیپلز پارٹی کی قیادت کے ساتھ جنوبی پنجاب، گلگت اور سندھ کے دورے کر چکا ہوں اور قسم کھا کر کہ سکتا ہوں کہ جتنا پیار آج پاکستان کی عوام بے نظیر کے بیٹے کے لئے رکھتی ہے اتنا پیار قسمت والوں کو ملتا ہے۔ اور شہید بھٹو کا نواسہ اور بے نظیر بھٹو کا بیٹا پاکستان کی تقدیر بدلنے کے لئے بے تاب ہے اور وہ اپنی ماں اور نانا کے نقش قدم پر چل کر اپنی پارٹی کو ملک کی خدمت کے لئے تیار رکھے ہوئے ہے اور بلاول جانتا ہے کہ پاکستان کی ترقی کے لئے اسے کوئی طاقت نہیں روک سکتی۔
اگر پیپلز پارٹی کی لیڈر شپ کی بات کی جائے یا پیپلز پارٹی کے ورکر ا جذبہ دیکھا جائے تو پیپلزپارٹی ڈرنے والی نہیں وہ جمہوریت کے لئے اپنی جدوجہد جاری رکھے گی اور کارکن سر کفن پر باندھ کر ہر دم تیار اور مستعد موجود رہے گا، بے نظیر بھٹو کوجان کو خطرات سے آگاہ ہونے کے باوجود انہوں نے عوام رابطہ مہم کی قیادت کرتے ہوئے 27دسمبر کو راولپنڈی کے لیاقت باغ میں جلسہ سے خطاب کیا اور آج بلاول بھٹو زرداری اسی میدان میں اپنی ماں کی روایت کو قائم کرتے ہوئے آرہا ہے جہاں سے واپسی پر کارکنوں کے نعروں کا جواب دیتے ہوئے ایک اندھی گولی کا نشانہ بے نظیر بھٹوبن گئیں تھیں، اور اس وقت محترمہ کی شہادت کی خبر ملک میں آگ کی طرح پھیلتے ہی ملکی سیاست کے دردودیوار ہل کر رہ گئے تھے جس سے ملک میں خانہ جنگی اور عام الیکشن ملتوی ہونے کے امکانات معدوم ہو گئے تھے، مگر اس وقت مردِ حر آصف علی زرداری آگے بڑھے اور پاکستان کھپے کا نعرہ لگا کرمعاملات کو خراب ہونے سے بچا لیا تھا، یہی زرداری آج بھی پاکستا کی حفاظت کے لئے مردانہ وار کھڑا ہے، صرف یہی نہیں بلکہ پیپلزپارٹی اور اس کی قیادت نے وطن کی سرحدوں کو مضبوط کرنے کے لئے آپریشن ضرب عضب،دہشت گردوں اوران کے سہولت کاروں پر آہنی ہاتھ ڈالنے کیلئے آئینی ترامیم کیں، یہ پیپلز پارٹی کا کارنامہ نہیں بلکہ پیپلز پارٹی کی ملک سے محبت کا ثبوت ہے کہ ذوالفقار علی بھٹو اور بے نظیر بھٹو نے پاکستان کی ترقی، سرحدوں کی حفاظت اور وطن کی آن بان شان کے لئے اپنے خون کا نذرانہ پیش کیا۔
راقم پچھلے ایک عرصہ سے فرانس میں مقیم اور پیپلزپارٹی اوورسیزکے سابق کوآرڈینٹرکے طور پر بھی کام کرنے کا موقع ملا، ضلع وہاڑی کی تحصیل بوریوالہ میں والد اور پورا خاندان پیپلزپارٹی کے پرانے کارکنوں میں سے ہیں، اپنے بچپن سے لیکر آج تک تحصیل میں موجود پارٹی وررکرز کا جذبہ کبھی ماندپڑتے نہیں دیکھا، ذوالفقار علی بھٹو اور محترمہ بینظیر بھٹو کی شہادتوں نے ہماری محبتوں میں اضافہ ہی کیا ہے، پیپلز پارٹی پاکستان کی آج بھی مقبول جماعت اور غریب کی نمائندہ پارٹی ہے،آج بھی بھٹو خاندان کے لئے عوام کے دلوں میں بہت جگہ ہے اور بلاول بھٹو زرداری یہ ثابت کر کے دکھائے گا کہ پاکستان میں آئین کے محافظ، پاکستان کی ترقی کے ضامن اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا اصل سپاہی ہونے کے ناطے جو قومی ذمہ داری ہے اسے پورا کرنے کا اہل بھی ہے اور جو محبتیں بلاول سمیٹ رہا ہے وہ پاکستانی قوم سے یہ پیار ورثہ میں پانے کے بعد آج ہر دم تیا ہے او آج کا بلاول کل کا وزیر اعظم پاکستان ہے اور یہی وہ تاریخ ہے جو اپنے آپ کوایک بار پھر دہرا رہی ہے۔ پاکستا کی سرحدوں کے امین پاک فوج کے جوان ہوں یا پاکستان کے آئین کا محافظ بلاول بھٹو، سب اپنی ذمہ داری پوری بھی کر رہے ہیں اور آئندہ بھی کسی بھی مشکل حالات کا مقابلہ کرنے کو تیار ہیں۔