دسمبر کو منحوس شام نے پاکستانی قوم کی اْمید کی کرنوں کو غروب ہوتے دیکھا، شہید بینظیر بھٹو کو اشارے کنائیے سے یہ باور کرانے کی کوشش کی گئی کہ ملک میں آپ کی جان کو خطرہ ہے آپ مت آئیے مگر محترمہ اس بات کو ماننے کیلئے تیار ہی نہیں تھیں کہ انہیں اپنے لوگوں میں جان کا کوئی خطرہ ہوسکتا ہے، محترمہ جب آخری مرتبہ لاہور تشریف لائیں تو انہیں ایک بزرگ صحافی نے کہا کہ ملک جس قدر بد امنی، بے چینی اور انتشارکا شکار ہے یہ وقت آپ کی وطن واپسی کیلئے مناسب نہیں تھا تو تمام تر احترام کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے شہید جمہوریت نے کہا کہ مناسب وقت کا کب تک انتظار کیا جائے گا اس ملک کے مجبور اور بے بس عوام کی تقدیر جمہوریت کی بحالی سے ہی بدلی جاسکتی ہے اور ان انتخابات میں حصہ لے کر ہی ان کے حقوق لوٹائے جاسکتے ہیں کب تک ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر بیٹھا جائے، کسی کو آخر کار اْمید کی مشعل جلانا ہے یہی سوچ کر میں جان کی پرواہ کئے بغیر میدان میں اتری ہوں آپ میرے لئے دْعا کریں۔
18 اکتوبر کراچی میں سانحہ کار ساز ہوا جو کہ خوف دلانے اور میدان چھوڑنے کا پیغام تھا مگر محترمہ بینظیر بھٹو نے 3 اپریل 1979ء کو شہید بابا کو دیا ہوا قول زندگی کی آخری سانس تک نبھایا کہ وہ پاکستانی عوام کو تنہا نہیں چھوڑیں گی۔ قائد عوام نے محترمہ سے ان کی سالگرہ پر خط لکھتے ہوئے فرمایا تھا کہ اللہ کی جنت ماں کے قدموں تلے ہوتی ہے اس کی خدمت کرو گی تو جنت ملے گی اور سیاست کی جنت عوام کے قدموں تلے ہوتی ہے ان کی خدمت کرو گی تو سیاست کی جنت ملے گی۔ محترمہ نے شہید بابا کی نصیت کو زندگی کے آخری لمحے تک پلے باندھ کر رکھا۔ محترمہ شہید کی زندگی کا مخص ایک ہی نصب العین تھا کہ ملک میں عوامی راج قائم ہو اور عوام کی زندگی کو وہ بنیادی حقوق حاصل ہوں جس کیلئے وہ آج ترس رہے ہیں۔ محترمہ شہید نے جب 24سال کی عمر میں سیاست کے خارزار میں قدم رکھا تو اْنہوں نے ایک معتدل سیاستدان اور متوازن شخصیت ہونے کا ثبوت دیتے ہوئے انتقام کا راستہ اختیار کرنے کی بجائے وسیع تر قومی مفاد اور اتحاد کو پیش نظر رکھتا اور کہا کہ شہید بھٹو کی فکر کا تقاضا ہے کہ جمہوریت بحال کرکے انتقام لیا جائے اس لئے قوم اپنے غم و غصے کا اظہار ووٹ کے ذریعے کریں۔ اس وقت پیپلز پارٹی شہید محترمہ کے مشن کی تکمیل کیلئے تمام تر سوگواری سمیت مصروف عمل ہے۔
اس سوگواری کی فضاء کو مکدرکرنے کیلئے دشمن عناصر اس وقت جس سازش میں مصروف ہیں درحقیقت وہ لسانی و علاقائی منافرت پھیلانے کے علاوہ اور کوئی نہیں نکل سکتا۔ پاکستان پیپلز پارٹی جو ملک کے چاروں صوبوں کو متحد رکھنے کیلئے اہم کردار ادا کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے وہ قائد عوام اور شہید جمہوریت کے مشن کی تکمیل تک خون کے آخری قطرے تک برسرِپیکار رہے گی، اس وقت صورتحال یہ ہے کہ بعض وقاق دشمن عناصر بڑے صوبے کی عددی برتری کو سامنے رکھتے ہوئے اقتدار پر نظریں جمائے ہوئے ہیں انہیں ا س بات سے کوئی غرض نہیں ہے کہ پاکستان کے دیگر صوبوں کے عوام کیا سوچتے ہیں اور وفاق پاکستان کو کس باتوں سے مشروط کرتے ہیں۔
ملک کی مختلف لسانی، نسلی اور علاقائی اکائیاں ملک کر ہی وفاق کی تشکیل کرتی ہیں۔ موجودہ صورتحال میں ایسے میں وفاق پرست قوتوں پر قومی وجود کی بقاء کی بھاری ذمہ داری ایک بار پھر آن پڑی ہے ایسے چیلنجوں کا مقابلہ کرنا پاکستان پیپلز پارٹی کی تاریخ ہے اور اس کے جیالے کارکن اور اعلیٰ قیادت نے قربانیاں دینے صعوبتیں برداشت سے کبھی دریغ نہیں کیا۔ بھٹو خاندان نے اپنے جیالوں کے ساتھ مل کر قلندرانہ شان کے ساتھ جانوں کے نذرانے پیش کئے جس کی مثال نہیں ملتی، شہید بی بی ہماری روایت کے زریں اْصولوں کو زندہ رکھنے کیلئے قربان ہوگئیں۔ ارض وطن کی رکھوالی کیلئے واپس آگئیں اور کہا کہ اقتدار خدا کی دین اور عوام کی امانت ہے اس کے لئے جمہور اور جمہوریت کو بحال کرو اور انہیں جینے کے پنپنے کا موقع دو پر امن اور شفاف انتخابات کو ممکن بنانے کیلئے اقدامات اْٹھاؤ جس کے لئے تساہل برتا گیا اور انہیں وہ سیکیورٹی تک مہیا نہ کی گئی جو کہ اس عالمی رہنما کے لئے ریاست کی ذمہ داری بنتی تھی، اس معاملے کی نزاکت اور حساسیت کا اندازہ پہلے کیوں نہیں لگایا گیا شاید یہ سب عاقبت نااندیشی اس لئے تھی کہ قوم کو ایسے رہنما سے محروم کر دیا جائے جو قوم کو متحد رکھ سکتا تھا، ایسا سوچنے والے شاید یہ بھول جاتے ہیں کہ پی پی پی صرف ایک سیاسی جماعت یا لوگوں کا ہجوم ہی نہیں ہے، یہ ایک روایت اور تحریک ہے جو ملک کی بقائ کو نقصان پہنچانے والوں کے سامنے فراہم ہوگی اور شہید بی بی کے مشن اور افکار کی تکمیل کرتے ہوئے اپنے غم و غصہ کا اظہار ووٹ کی پرچی کے ذریعے کرے گی اور ہر وہ سازش ناکامی سے دوچار ہوگی جو اس ملک کے عوام کے خلاف ہو رہی ہے اور ہر وہ حربہ پورس کا ہاتھی ثابت ہوگا جس سے ملک کو کمزور کرنے اور ایک ناکام ریاست ثابت کرنے کی کوشش کی جائے گی۔ میرے دیس کے لوگ باشعور ہیں اور انہیں اس بات کا بخوبی اندازہ ہے کہ ان کی ضروریات اور ترجیحات کا تحفظ کون کر سکتا ہے۔
میرے بیتے دنوں کی وہ یادیں جواب میری زندگی کا قیمتی اثاثہ ہیں پہلے سے زیادہ متحرک اور فعال ہونے کی تحریک دیتی ہیں۔ مجھے یاد ہے جب بی بی نے مجھے کہا کہ اب پنجاب میں اچھا کام کر رہے ہو میرے لئے اپنی خدمات کا بہترین صلہ تھا کہ میری قائد مجھے آج کے ابلاغی دور میں اپنی سوچ فکر اور زبان ہونے کا درجہ دے رہی تھیں۔ میں آخری وقت تک شہید قائد کے میڈیا ترجمان کی خدمات سرانجام دیں۔ پنجاب میں پارٹی کی میڈیا مہم کے لئے اْنہوں نے مجھے کہا کہ وہ 6جنوری کو لاہور آئیں گی تو میرے لئے نئے گھر میں آنے کیلئے بھی تھوڑی دیر کے لئے وقت نکالیں گی۔ میں نے اس کی تیاریاں شروع کر دیں اور کچھ کالم نویس دوستوں کو ان کے ساتھ ملاقات کا پروگرام ذہن میں تیار کیا مگر انسان سوچتا کچھ ہے اور خدا کو کچھ اور ہی منظور ہوتا ہے۔ 27دسمبرکو منحوس شام نے ہم سے اْمید کی کرن چھین لی ہم ایک ہولناک مستقبل کی طرف دھکیل دئیے گئے۔
میرے بچے 2007ء کو ان کے دبئی کے قیام کے دوران میرے ساتھ گئے اور شہید قائد سے ملاقات کی محترمہ نے میرے بچوں سے کہا کہ زندگی میں بڑا کام کرنا ہو تو اس کے لئے سب سے بڑا حوصلہ چاہیے۔ پاکستانی قوم اس امتحان میں ضرور پوری اْترے گی اور جناب چیئرمین بلاول بھٹو کی رہنما ئی میں محترمہ کے مشن کی تکمیل کرے گی۔ اور جمہوریت کی مضبوطی کیلئے اپنا کردار ادا کرتی رہے گی۔ اور کارکن پارٹی کا سرمایہ ہے۔ کارکن اور لیڈر کے درمیان حائل رکاوٹوں کو بھی دْور کرنا ہے۔
27دسمبرکو ملک دشمنوں نے ایک انقلابی آواز اور سوچ کو دبانے کی کوشش کی وہی انقلابی آواز اور سوچ آج پورے پاکستان کی عوام کی آواز بن چکی ہے۔ 27دسمبر ایک تجدید عہد کا دن ہے جب تک ملک کے اندر غربت، جہالت بے روزگاری ہے بینظیر بھٹو شہید کے دئیے ہوئے فلسفے اور منشور پر جدوجہد جاری رہے گی۔