ڈھونڈو گے ہمیں مُلکوں مُلکوں

Dec 27, 2019

خالد یزدانی
جہاں بارہ سال قبل ماںنے آخری خطاب کیا
بے نظیر بھٹو ولادت سے شہادت تک
آج وہاں بیٹا بلاول لیاقت باغ میں جلسہ سے خطاب کریں گے
ذوالفقار علی بھٹو شہید کی صاحبزادی بے نظیر بھٹو کو آج سے بارہ سال قبل ستائیس دسمبر 2007ء کو جب وہ لیاقت باغ میںایک جلسے سے خطاب کرنے کے بعد اپنی گاڑی میں بیٹھ کر اسلام آباد آ رہی تھیں کہ لیاقت باغ کے مرکزی دروازے پر پیپلز پارٹی کارکنوں کی نعرے بازی کے دوران وہ پارٹی کارکنوں کے ساتھ اظہار یکجہتی کے لیے گاڑی کی چھت سے سر باہر نکال کر ہاتھ ہلا رہی تھیں کہ اچانک ان پر فائرنگ کر دی گئی تھی ، اسی دوران بے نظیر کی گاڑی سے کچھ فاصلے پر ایک زوردار دھماکا بھی ہوا ، اس دھماکے میں بینظیر بھٹو کی گاڑی کو بھی شدید نقصان پہنچا لیکن گاڑی کا ڈرائیور اسی حالت میں گاڑی کو تیز رفتاری سے چلا کر راولپنڈی کے جنرل ہسپتال لے گیا ،جہاں وہ زخموں کی تاب نہ لاکر جاں بحق ہو گئیں۔ نظیر بھٹو شہید پاکستان کی پہلی خاتون وزیر اعظم تھیں،وہ 1988ء میں پاکستان کی وزیر اعظم بنیں لیکن صرف بیس ماہ کے بعد اس وقت کے صدر پاکستان غلام اسحاق خان نے اپنے خصوصی اختیارات استعمال کر تے ہوئے اسمبلی کو برخاست کر کے نئے انتخابات کا اعلان کر دیا تھا ۔
پاکستان پیپلز پارٹی کے بانی چئیر مین ذوالفقار علی بھٹو کی صاحبزادی بے نظیربھٹو 21 جون، 1953ء کو پیدا ہوئیں۔ ابتدائی تعلیم لیڈی جیننگز نرسری اسکول اور کونونٹ آف جیسز اینڈ میری کراچی سے حاصل کی، بعد ازاں دو سال راولپنڈی پریزنٹیشن کونونٹ میں بھی تعلیم حاصل کی، پھر مری کے جیسس اینڈ میری میں داخل ہوئیں ۔بے نظیر بھٹو نے پندرہ سال کی عمر میں او لیول کا امتحان پاس کیا،پریل 1969ء میں ہارورڈ یونیورسٹی کے Radcliffe College میں داخلہ لیا،اس کے بعد 1973ء میں پولیٹیکل سائنس میں گریجوایشن کے بعد آکسفورڈ یونیورسٹی میں داخلہ لیا جہاں سے فلسفہ، معاشیات اور سیاسیات میں ایم اے کیا۔بے نظیر بھٹو نے برطانیہ سے تعلیم مکمل کر نے کے بعد جون 1977ء میں پاکستان لوٹ آئیں ،اس وقت ان کے والد ذوالفقار علی بھٹو وزیر اعظم تھے ،اسی دوران ان کے پاکستان پہنچنے کے بعد حکومت کا تختہ الٹ دیاگیا ، جنرل ضیاء الحق نے ذو الفقار علی بھٹو کو جیل بھیجنے کے ساتھ ساتھ ملک میں مارشل لا نافذ کر دیا۔ اور ساتھ ہی بے نظیر بھٹو کو بھی گھر کے اندر نظر بند کر دیا گیا۔ اپریل 1979ء میں سپریم کورٹ آف پاکستان نے ذو الفقار علی بھٹو کو قتل کے ایک کیس میں پھانسی کی سزا سنا دی۔ 1981ء میں مارشل لاکے خاتمے اور جمہوریت کی بحالی کے لیے ایم آر ڈی کے نام سے اتحاد بنایا گیا۔ جس میں آمریت کے خلاف 14 اگست، 1983ء سے بھر پور جدوجہد شروع کی، 1984ء میں بے نظیر کو جیل سے رہائی ملی، جس کے بعد انھوں نے دو سال تک برطانیہ میں جلاوطنی کی زندگی گزاری۔ اسی دوران پیپلزپارٹی کے رہنماؤں نے انھیں پارٹی کا سربراہ بنا دیا، ملک سے مارشل لا اٹھوائے جانے کے بعد جب اپریل 1986ء میں وہ وطن واپس لوٹیں تو لاہور ائیرپورٹ پر ان کا تاریخی فقید المثال استقبال کیا گیا تھا ،لگتا تھا عوام کا سمندر ہے ، اگلے سال 1987ء میں حاکم علی زرداری کے صاحبزادے آصف علی زرداری سے شادی ہو گئی ،جبکہ پیپلز پارٹی کی چئیرپرسن کی حیثیت سے سیاست میں فعال کردار ادا کرتی نظر آئیں ۔ 17 اگست، 1988ء میں ضیاء الحق طیارے کے حادثے میں جاں بحق ہو گئے تو ملک میں تیزی سے سیاسی سر گر میوں کا آغاز ہوا۔ اس وقت کے سینٹ چئیرمین غلام اسحاق قائم مقام صدربن گئے ۔جنہوں نے نوے دن کے اندر انتخابات کروانے کا اعلان کیا۔ 16 نومبر، 1988ء میں ملک میں عام انتخابات ہوئے، جس میں قومی اسمبلی میں سب سے زیادہ نشستیں پیپلز پارٹی نے حاصل کیں، بے نظیر بھٹو نے دو دسمبر1988ء میں 35 سال کی عمر میں ملک اور اسلامی دنیا کی پہلی خاتون وزیرِاعظم کے طور پر حلف اٹھایا۔ اگست، 1990ء میں بیس ماہ کے بعد صدر اسحاق خان نے بے نظیر کی حکومت کو بے پناہ بدعنوانی اور کرپشن کی وجہ سے برطرف کر دیا۔ 2 اکتوبر، 1990ء کو ملک میں نئے انتخابات ہوئے جس میں مسلم لیگ(ن) اور بے نظیر حکومت کی مخالف جماعتوں نے اسلامی جمہوری اتحاد کے نام بنائے الائنس نے انتخابات میں اکثریت حاصل کی۔جس کے نتیجے میں مسلم لیگ ن کے سربراہ نواز شریف ملک کے وزیر اعظم اور، بے نظیر بھٹو قائدِ حزبِ اختلاف بن گئیں۔ 1993ء میں اس وقت کے صدر غلام اسحاق خان نے نواز شریف کی حکومت کوبرطرف کر کے اکتوبر، 1993ء میں عام انتخابات کا انعقاد کر وایا جس میں پیپلز پارٹی اور اس کے حلیف جماعتیں معمولی اکثریت سے کامیاب ہوئیں اور بے نظیر دوسری بار وزیرِاعظم پاکستان بن گئیںجبکہ پیپلز پارٹی کے اپنے ہی بنائے صدر فاروق احمد خان لغاری نے 1996ء میںبے نظیر حکومت پر بد عنوانی، کرپشن اوردیگر الزامات کے باعث ختم کر دیا۔مگر عوام میں ان کی پارٹی کے جیالے اور ان کی مقبولیت میں کمی نہ آسکی ۔
بے نظیر نے اپنے بھائی مرتضٰی کے قتل اور اپنی حکومت کے ختم ہونے کے کچھ عرصہ بعد ہی جلا وطنی اختیار کرتے ہوئے متحدہ عرب امارات میں بھی قیام پذیر رہیں ، اسی دوران محترمہ بے نظیر، نواز شریف اور دیگر پارٹیوں کے سربراہان نے وطن عزیز میں جنرل پرویز مشرف کی حکومت کے خلاف بھرپور مزاحمت کا اعلان کیا گیا ۔ ان کی جلاوطنی کے دوران ایک اہم پیش رفت اس وقت ہوئی۔ جب 14 مئی 2006ء میں لندن میں نواز شریف اور بے نظیر نے میثاقِ جمہوریت پر دستخط کئے ، جمہوریت کو بحال کرنے اور ایک دوسرے کے خلاف استعمال نہ ہونے کا فیصلہ کیا تھا ۔ 28 جولائی 2007ء کو ابوظہبی میں جنرل پر ریز مشرف اور بے نظیر بھٹو کے درمیان ایک اہم ملاقات ہوئی جس کے بعد پیپلز پارٹی کی چئیرپرسن تقریباً ساڑھے آٹھ سال کی جلاوطنی ختم کر کے 18 اکتوبر کو وطن واپس آئیں تو ان کا کراچی ائیرپورٹ پر فقید المثال استقبال کیا گیاان کا کارواں ابھی شاہراہِ فیصل پر پہنچا تھا کہ اچانک زور دار دھماکے ہوگئے تھے جس کے نتیجے میں کئی افراد ہلاک ہوگئے اورسینکڑوں زخمی بھی ہو گئے تھے ، قیامت صغریٰ کے اس منظر کے دوران بے نظیر بھٹو کو بحفاظت بلاول ہاؤس پہنچا دیا گیا۔ پیپلز پارٹی کی چئیرپرسن جب اپنے بچوںبلاول، بختاور اور آصفہ سے ملنے دوبارہ دوبئی گئیں تو ملک کے اندر جنرل پر ویز مشرف نے تین نومبر کو ایمرجنسی نافذ کر دی، یہ خبر سنتے ہی بے نظیر بھٹو دبئی سے واپس وطن لوٹ آئیں، ایمرجنسی کے خاتمے، ٹی وی چینلز سے پابندی ہٹانے اور سپریم کورٹ کے ججز کی بحالی کا مطالبہ کرتے ہوئے حکومت کے خلاف تحریک چلانے کا اعلان کر دیا تھا ۔ اس وقت تک ملک میں نگران حکومت بن چکی تھی اور مختلف پارٹیاں انتخابات میں حصہ لینے کے معاملے غور کر تی نظر آ رہی تھیں۔ اس صورت میں پیپلز پارٹی نے میدان خالی نہ چھوڑنے کی حکمت عملی کے تحت تمام حلقوں میں امیدوار کھڑے کیے۔ اور کاغذاتِ نامزدگی جمع کرائے۔ یہی وہ عرصہ تھا جب 27 دسمبر 2007ء کو بے نظیر بھٹو لیاقت باغ میں عوامی جلسے سے خطاب کے بعد آتے ہوئے شہید کر دیا گیا تھا ۔ اس دھماکے میں بینظیر بھٹو جس گاڑی میں سوار تھیں، اس کو بھی شدید نقصان پہنچا لیکن گاڑی کا ڈرائیور اسی حالت میں گاڑی کو بھگا کر راولپنڈی جنرل ہسپتال لے گیا جہاں وہ زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے جاں بحق ہو گئیں۔ ان کی شہادت کے بعد ان کی وصیت کے مطابق پاکستان پیپلز پارٹی کی قیادت ان کے صاحبزادے بلاول کے سپرد کر دی گئی۔آج بلاول بھٹو زرداری اسی لیاقت باغ میں اپنی والدہ کی برسی پر جلسہ کرنے والے ہیں ،جہاں پاکستان کے پہلے وزیر اعظم لیاقت علی خان کو شہید کیا گیا تھا اور پھر محترمہ بے نظیر بھٹو کو ،آج بھی ان رہنماوں کو پاکستانی عوام یاد رکھے ہوئے ہیں ۔شاعر نے شائد ایس شخصیات ہی ہستیوں بارے کہا تھا
ڈھونڈو گے ہمیں ملکوں ملکوں
ملنے کے نہیں نایاب ہیں ہم ۔

مزیدخبریں