بے نظیر حق گوئی وبیباکی

Dec 27, 2019

بیرسٹر عامر حسن

میرے بھائیو، بہنوں!آج میں خاص طور پر اپنے ملک کے بلاولوں بختاروں اور آصفائوں سے مخاطب ہوں۔ آپ عوام الناس روز ازل سے میرے دل کے قریب رہے ہیں،وہ لمحہ جب کائنات کی تخلیق میں کچھ وقت تھا: جب آدم کو خاک کی پوشاک پہنائی جارہی تھی: اس وقت میرا رشتہ میرے خالق سے استوار ہوا: جب میں نے اُس کی واضح اور صاف آواز سنی: اور اس پر دل کی گہرائیوں سے لبیک کہا: پھر اس کے بعد اس مٹی سے میرا رشتہ استوار ہوا : میں جس میں پیدا کی گئی: اس زمین سے میری نسبت اس وقت شروع ہوئی : میرا ابدی گھر میرے دل کی دھڑکن سے زیادہ قریب ہے:
میرا میری دھرتی اور اس کے لوگوں سے لافانی تعلق میرے والد ذوالفقار علی بھٹو شہید کی اعلیٰ میراث کا سب سے پیش بہا تحفہ ہے۔ میں نے یہ تعلق اپنی زندگی کے آخری لمحہ تک بنھایا تاوقتکہ مجھے شر و فساد کی قوتوں نے لیاقت باغ راولپنڈی میں27دسمبر2007کی شام لہو میں نہلا دیا لیکن میری دھج اور شان کو میرے قاتل بھی فراموش نہ کرسکے کیونکہ جس دھج سے کوئی مقتل میں گیا وہ شان سلامت رہتی ہے میرا بیٹا بلاول 12سال کے بعد میری جائے شہادت پر تجدید عہدوفا کے لئے آرہا ہے۔ بلاول کو اس عشق لازوال کاسفر طے کرنے میں12سال لگے ہیں جس میں سچ صبر اور آپ اس کے ساتھ ہیں ۔ "طاقت کا سرچشمہ عوام ہیں"کا مشن بڑ اکٹھن اور پرخار ہے اسی راستے پر بھٹو صاحب میں اور ہزاروں جانثار اپنے لہو کے چراغ روشن کئے منتظر ہیں کہ "راج کرے گی خلق خدا"کی منزل تک آپ سب پہنچ سکیں۔ میں نے اپنی زندگی کے تیس سال آپ کے حقوق کی جدوجہد میں گزار دیئے آپ کی خدمت ہی میرا مقصد حیات رہا۔ میرے اخلاص کے گواہ آپ بھی ہیں اور میرا رب بھی میری نیت اور عمل کا شاہد ہے۔ بے شک شہدا کے علاوہ کوئی بھی دوبارہ جان دینے کی جرات و حوصلہ نہیں رکھتا کیونکہ شہید ہی جانتا ہے کہ شہادت کی قدروقیمت کیا ہے، ـصلہ ء شہید کیا ہے تب و تاب جاودانہ۔۔۔ پارلیمان میں منتخب ہونے کے بعد میر ے بلاول نے اپنی تقریر اور اپنے ویثرن کے ذریعے میرا سرفخر سے بلند کردیا مجھے اس میںشہید بابا کی جھلک نظر آئی اور اس کے جزبوں میںدھرتی سے اس کا اٹوٹ رشتہ مجھے بہت بھایا مجھے اچھا لگا کہ اس نے پارلیمان میں انسانی حقوق کمیٹی کی سربراہی کو چنا ہے جبکہ میں نے امور خارجہ کی کمیٹی کی سربراہی پسند کی تھی۔
میرے پاکستانیو! میں نے اس زندگی کا انتخاب نہیں کیا بلکہ اس زندگی نے میرا انتخاب کیا ہے۔ یہ زندگی جدوجہد ذمہ داریوں اور فرائض کی ادائیگی سے عبارت ہے۔ میری پیدائش پاکستان میں ہوئی میری زندگی میں ہلچل رنج و علم اور فتوحات سبھی کچھ منکس ہوتا ہے۔ شائد میں عیش و عشرت اور آرام و سکون سے اپنی زندگی بسر کررہی ہوتی اگر میرے والد کو غیر جمہوری طور پر پاکستان کے پہلے منتخب وزیر اعظم کے مسند سے بزور طاقت ہٹا نہ دیا جاتا۔ اگر اُنھیں عدالتی قتل کے ذریعہ شہید نہ کیا جاتا تو شائد میں اپنی مرضی کے پیشہ ورانہ زندگی گزارتی۔ دراصل آمر ضیاء نے فریب دھوکہ اور مکاری کا خطرناک کھیل کھیلا۔ اپنے ظالمانہ اور منافقانہ اقتدار کو طول دینے کے لئے اس نے ترقی پسند اور عوام دوست قوتوں کو دبایا اور دہشت گردی کے عفریت کا بیج بویا۔ ایسے وقت پر مجھ پر لازم تھا کہ میں عوام کے ساتھ مل کر آمرانہ اور جابرانہ قوتوں کے خلاف مزاحمت کروں۔
نہ تو پاکستان کوئی معمولی ملک ہے اور نہ ہی میری زندگی بے مقصد رہی۔ میرے والد اور دو بھائیوں کو شہید کردیا گیا۔ میری ماں میرے شوہر اور مجھے پابند سلاسل کیا گیا۔ مجھے اپنی زندگی کا ایک طویل حصہ جبری جلاوطنی میں گزارنا پڑا۔ ان تمام دکھوں اور آزمائشوں کے باوجود میں خوش قسمت رہی کہ میںنے فرسودہ روایات کا قلع قمع کیا اور عالم اسلام کی پہلی منتخت اور کم عمر ترین خاتون وزیر اعظم ہونے کا اعزاز حاصل کیا۔ میرے وزیر اعظم بننے سے مسلم معاشروں میں خواتین کے لئے ترقی کے راستے ہموار ہوئے۔ یقینا میری زندگی اور طرزسیاست نے ناامید لوگوں کے لئے اُمید کی کرنیں پیدا کیں۔ جب کوئی میری زندگی کے متعلق آگاہی حاصل کرتا ہے تو اُسے یقین ہوتا ہے کہ مجھے اپنی ثقافت تمدن تہذیب اور مذہبی ورثہ ہر ہمیشہ فخر رہا ہے۔ میں نے ہمیشہ اسلام کے آفاقی پیغام سے دنیا کو روشناس کروایا۔ اسلام جو برداشت صلح جوئی اور امن کا دین ہے۔ انتہا پسندی اور دہشت گردی نے ہمیشہ ہمارے روشن چہرے کو مسخ کرنے کی کوشش کی ہے۔ مگر میں نے ہمیشہ ان قوتوں کے خلاف برخلاف علم بغاوت بلند کرکے ان قوتوں کو خوفزدہ کیا ہے۔ خاتون وزیر اعظم کے طور پر میں نے اس ملک میںجدت، مواصلات کے ذرائع تعلیم اور ٹیکنالوجی کو پروان چڑھایا ہے میرا ایمان رہا ہے کہ جمہوری پاکستان ایک ارب سے زائد مسلمانوں کے لئے اُمید کی کرن ہے جو ماضی کے رجعت پسند سوچ اور مستقبل کی ترقی پسند سوچ کے درمیان متذبذب رہے ہیں۔بلاول کے کندھوں پر یہ بھاری ذمہ داری ہے کہ وہ سچ اور صبر کے اس سفر کو جاری رکھے اس کے سفر میں، میری جماعت جو کہ شہیدوں کی جماعت ہے جو خدمت کی جذبہ سے سرشار سیاسی کارکنوں کی تربیت گاہ اور عوام الناس کی اُمیدوں کا مرکز ہے، اس کی طاقت ہے ۔ بلاول بھٹو اسی اعلیٰ میراث کا امین ہے۔ میںجانتی ہوں کہ کچھ سیاسی یتیم اُسے وراثت کی سیاست کا طعنہ دیتے ہیں یہی طعنہ وہ مجھے بھی دیتے تھے لیکن میری30سالہ سیاسی جدوجہد نے مجھے اپنے شہید بابا کی اعلیٰ میراث کا اہل وارث ثابت کیاکہ اب میرے مخالفین بھی مجھے خراج عقیدت پیش کرتے ہیں اور میری مشن کی تکمیل کا عہد عوام کے سامنے کرتے ہیں ۔ اعلیٰ وارثت قابل فخر ہے اور مجھے یقین ہے کہ بلاول اس مشن کو آگے بڑھائے گا۔ سندھ میں پارٹی کی شاندار فتح اس کی محنت کا ثمر ہے مجھے اُمید ہے کہ وہ عوام کی خدمت کے نئے معیار قائم کرے گا۔
مجھے اس میں کوئی شک نہیں کہ بلاول عوام کے خوابوں کو تعبیر دے گا۔ جس دلیری اور تواتر سے وہ جبر ظلم اور انتہا پسندی کے خلاف آواز اُٹھا رہا ہے وہ قابل ستائش ہے۔ مذہبی ٹھیکیداروں کے وہ سیاست پر قابض ہونے پر وہ رکاوٹ ہے۔ اظہار رائے پر قدغن پر اس کا موقت جاندار اور واضح ہے۔ مفلوک الحال لوگوں اور کچلے ہوئے طبقات کے لئے اس کی حمایت اور تشدد کے خلاف اُس کا موقف کسی سے ڈھکا چھپا نہیں ہے۔ یہی عناصر اُسے بھٹو شہید کے نظریہ اور جماعت کا وارث بناتے ہیں۔ ملکی حالات اور انتہائی دگر گوں اور پریشان کن ہیں۔ ریاست دلدل میں پھنسی جارہی ہے اور گزرنے والا ہر لمحہ اسے مزید مشکلات سے دوچار کررہا ہے اپنی مرضی کی کٹھ پتلیوں کے ذریعہ حکومت بنانے کی ضد ملک اور عوام کے لیے زہر قاتل ہیں ۔ سیاسی سرگرمیوں کو کنٹرول کرنے کی سازشیں ، انسانی حقوق کے لئے کام کرنے والے اداروں پر سختیاں، صحافیوں پر حکم چلانے کی خواہش اور طلبا یونیوں پر پابندی ٹریڈ یونیوں کی حوصلہ شکنی انتہائی مایوس کن ہے۔ سب سے زیادہ خطرناک بات لوگوں میں سیاست اور جمہوریت کے بارے ناامیدی پیدا کرنے کی منظم اور مکروہ سازش ہے اسی لئے سیاست اور اہل سیاست کو ہر لمحہ مطون کیا جاتا ہے۔ تاکہ لوگ جمہوریت سے بیزار ہوجائیں۔
لوگوں کے بنیادی انسانی حقوق، جمہوری حقوق اور معاشی حقوق سلب کرلئے گئے ہیں۔ لوگوں کا معیار زندگی پست ترین سطح پر پہنچ رہا ہے غربت و افلاس میں اضافہ اور لوگوں کے روزگار کے مواقع ختم کرنے سے عوام الناس کے لئے جسم اور روح کا رشتہ قائم رکھنا نا ممکن ہے۔ لوگ مایوس ہوکر سیاسی اور مذہبی انتہاپسندی کی طر ف گامزن ہورہے ہیں ۔ سیاسی یتیموں نے عوام کو مہنگائی کے سونامی میں ڈبو دیا ہے۔ معاشرتی ناہمواری سیاسی مایوسی عالمی تنہائی اور خالی خرانہ حکمرانوں کی قلعی کھول رہا ہے۔ ضرورت اِ س امر کی ہے کہ ریاستی اور قومی سطح پر نیا لائحہ عمل تشکیل دیا جائے۔ ملک کو ترقی پسند مدبر رہنما کی اشد ضرورت ہے جو عوام کی مرضی سے اقتدار حاصل کرے ناکہ سلیکٹرز کے مرہون منت - نااہلوںکو مسترد کرنے اور اہل لوگوں کو چننے سے یہ مایوسی ختم ہوسکتی ہے۔ مجھے اُمید ہے کہ ہماری جدوجہد کا وارث اور اس کی جماعت عوامی حقوق پر کوئی سمجھوتہ نہیں کرے گا اور آخری فتح غریب عوام کی ہوگی۔
٭…٭…٭

یہ میری دعا بھی ہے اور اُمید بھی
سنو میری للکار اور ہوا کی سرگوشی بھی
میرے بچو! ہوائوں کا رخ بدلے گا
یقین رکھو ہم ہی فتح مندہوں گے
اور سچ ہی غالب آ کر رہے گا
جئے پاکستان : جئے عوام :جئے بھٹو
آپکی: بے نظیر بھٹو
٭…٭…٭

مزیدخبریں