بے نظیر بھٹو شہید: تاریخ ساز لیڈر

محترمہ بے نظیر بھٹو کی شہادت کو بارہ سال ہو گئے ہیںماہ و سال کے باوجود وہ آج بھی عوام کے دلوں میں زندہ ہیں۔ ان کی یاد کے گلاب اسی طرح مہک رہے ہیں۔ دنیا بھر میں سیمینار اور تقریبات میں بی بی شہید کی سیاسی جمہوری جہدوجہد کو خراجِ عقیدت پیش کیا جاتا ہے۔ گذشتہ ماہ آکسفورڈ یونیورسٹی میں ایسی ہی ایک تقریب ہوئی اورسابق برطانوی وزیراعظم مسز تھریسامے نے بے نظیر بھٹو کی بے مثال شخصیت کے بارے میں شاندار الفاظ میں خراج عقیدت پیش کیا۔ یہ پاکستان کی واحد سیاسی خاتون ہیں جنہیں آکسفورڈ یونیورسٹی میں یاد کیا جاتا ہے ۔ یورپی ممالک اور امریکہ کے مختلف ادارے بھی بی بی شہید کی شخصیت جمہوری اقدار اور انسانی حقوق کے لیے ان کی خدمات کا اعتراف کرتے ہیں۔ مجھے یاد ہے جون 1984ء میں ڈنمارک کے دورہ کے دوران دو ممتاز اخبارات نے اپنے مفصل جائزہ میں انہیں ’’مشرق کی شہزادی‘‘ اور ’’فولادی خاتون‘‘ کے القابات دیئے تھے اور شاندار الفاظ میں ان کی جدوجہد پرمضامین لکھے تھے۔
محترمہ بینظیر بھٹو شہید بلاشبہ پاکستان کا روشن چہرہ تھیں اور شہادت کے بعد بھی پاکستان اور دنیا میں ان کا نام روشن ہے۔بے نظیر بھٹو کی شہادت سے پاکستان ایک عالم مرتبے کی راہنما سے محروم ہو گیا۔ یوں سب سے بڑا نقصان پاکستان کا ہوا اور سب سے زیادہ فائدہ پاکستان کے دشمنوں کو ہوا۔ وہ وفاق پاکستان کی علامت اور عوام کی امنگوں کا مظہر تھیں۔ وہ اگر آج ہوتیں تو ملکی حالات مختلف ہوتے۔ دہشت گرد یوں نہ دندناتے پھرتے ان کی شہادت سے بحیثیت قوم ہمیں بہت نقصان ہوا ہے ۔ وہ واحد قومی راہنما تھیں جو پاکستان کا ایجنڈا آگے لے کر چل سکتی تھیں۔ وہ تمام دنیا میں جانی پہچانی شخصیت تھیں وہ دنیا بھر کے سیاسی و غیر سیاسی حلقوں میں کشمیری اور فلسطینی عوام کی کاز کے لیے نمایاں اور توانا آواز جسے خاموش کر دیا گیا۔
پاکستان کی سابق وزیراعظم ان قوتوں کی آنکھ میں کھٹکتی تھیں جو تہذیبوں کے تصادم کو فروغ دینا چاہتی ہیں کیونکہ وہ مفاہمت پر یقین رکھتی تھیں۔ وہ لوگوں کو قریب لانا چاہتی تھیں ۔ ان کی تحریریں ان کی شخصیت کے اس پہلو کی آئینہ دار ہیں وہ کہتی تھیں کہ زندگی چند دن کی ہے اس لیے فاصلوں کو مٹانا چاہیے اور ہر وقت مثبت اندازِ فکر اپنانا چاہیے۔ بی بی شہید کی مثبت سوچ کا ایک پہلو یہ بھی تھاکہ وہ دنیا سے غربت و افلاس کا خاتمہ اور اسے امن و ترقی کا گہوارہ بنانا چاہتی تھیں۔قائدعوام کے چھٹے یومِ شہادت پر برمنگھم میں جلسہ ہوا ۔ اپنے خطاب میں بی بی نے کہا ’’میں شہید بھٹو کی بیٹی! شہد بابا اور پاکستان کے عوام سے یہ عہد کرتی ہوں کہ برائی کے خلاف اور نیکی کی فتح کے لیے اپنی تمام صلاحتیں وقف کر دوں گی اور مادرِ وطن کو غاصب اور مارشل لاء سے نجات دلانے کے لیے کسی قربانی سے دریغ نہیں کروں گی۔‘‘
پاکستان پیپلزپارٹی کی سربراہ مارشل لاء کے خلاف سینہ سپر رہیں اور اپنے اس قول کو سچ ثابت کیا۔محترمہ بے نظیر بھٹو شہید عظیم محبت وطن تھیں۔ پاکستان کا استحکام اور قومی مفاد ان کی اولین ترجیح تھا۔ انہوں نے میزائل ٹیکنالوجی حاصل کی اور شہید ذوالفقار علی بھٹو کی پاکستان کو ایٹمی قوت کی صلاحیت کا خواب شرمندۂ تعبیر ہوا۔ اس کی بدولت آج پاکستان دفاعی طور پر مضبوط ملک ہے۔ ان کا یہ کارنامہ ان کی حب الوطنی اور پاکستان سے محبت کا جیتا جاگتا ثبوت ہے۔
پاکستان پیپلزپارٹی شروع سے ہی کشمیریوں کے حقِ خودارادیت کی حامی رہی ہے اور اس کی بنیادہی مسئلہ کشمیر پر رکھی گئی تھی ۔ وزیراعظم محترمہ بے نظیر بھٹو نے مراکش میں منعقدہ او آئی سی کی کانفرنس میں مسئلہ کشمیر کو اجاگر کیا اور آل پارٹیز حریت کانفرنس کو اس تنظیم کا رکن بنایا۔ مسئلہ کشمیر پر بی بی شہید کا واضح اور اصولی موقف تھا کہ اہل کشمیر کو اپنے مستقبل کافیصلہ کرنے کا اختیار ہونا چاہیے۔ اس سلسلے میں انہوں نے پی پی پی کے بانی قائدعوام کے کشمیر کے موقف پر آنچ نہیں آنے دی اور دنیا کے ہر پلیٹ فارم پر کشمیریوں کے حق خودارادیت کی حمایت اور ان پر روا ظلم و ستم کے خلاف آواز بلند کی۔مسئلہ کشمیر کے حل کے جمود اور تعطل توڑنے کے لیے بی بی شہید نے یہ تجویز پیش کی کہ اقوام متحدہ کی قراردادوں کو برقرار رکھتے ہوئے مقبوضہ کشمیر اور آزاد کشمیر کے عوام کے لیے سافٹ بارڈر کی تجویز روبہ عمل لائی جائے۔ اور دونوں اطراف کے لوگوں کو آپس میں ملنے جلنے کی اجازت ہو، تاکہ سالہاسال کی دوری کے بعد ان میں قربت پیدا ہو اور اس کے بعد وہ باہم مشورہ سے اپنے مستقبل کا فیصلہ کریں جسے تمام فریق قبول کریں۔پاکستان پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری مظلوم کشمیریوں کے حق میں آواز بلند کر رہے ہیں اوراپنے نانا ذوالفقار علی بھٹو اور والدہ بے نظیر بھٹو شہید کی کشمیر پالیسی پر عمل پیرا ہیں اور کشمیریوں کی آواز ہیں۔ مودی سرکار نے مقبوضہ کشمیر کے عوام پر ظلم و ستم کا جو بازار گرم کر رکھا ہے اپنی تقاریر میں بلاول بھٹو زرداری نے پرزور مذمت اور مطالبہ کیا ہے کہ مہینوں سے نافذ کرفیو ختم کیا جائے۔ پاکستان پیپلزپارٹی بی بی شہید کی سب سے بڑی سیاسی وراثت ہے ظلم و تشدد کے خلاف آواز اٹھانا اس کا نصب العین ہے۔ بی بی شہید نے سیاسی عداوتوں کو ختم کرنے اور غریب عوام کی فلاح و بہبود کے اعلیٰ مقاصد کی خاطر مفاہمت کی پالیسی اختیار کی۔
بی بی شہید او ران کی یادیں بہت خوبصورت ہیں ان کا آخری خطاب بہت خوبصورت تھا۔ وہ دنیا کو خوبصورت بنانا چاہتی تھیں اور پاکستان کے عوام اور پارٹی کارکنوں کی زندگی کو خوبصورت بنانا چاہتی تھیں۔ ان کی ساری زندگی اسی جدوجہد میں گزری۔ انسانیت کی سربلندی اور جمہوری و سیاسی حقوق کی جدوجہد آخری دم تک جاری رہی ۔ بی بی شہید انسانیت سے محبت کرنے والی خاتون تھیں۔ پارٹی کارکنوں کی امیدوں کا محور تھیں ان کی شہادت ملک و قوم کا عظیم نقصان ہی نہیں بلکہ انسانیت و جمہور کا قتل تھا۔ ان کی سیاسی و شخصی عظمت کا انمٹ نقش عوام کے دلوں پر ثبت ہے۔ ہر سال 27دسمبر کو گڑھی خدابخش میں ان کا یومِ شہادت منایا جاتا ہے۔ اس سال لیاقت باغ پنڈی میں جائے شہادت پر سالانہ تقریب ہو رہی ہے۔ 2007ء میں بی بی نے وطن واپسی کا فیصلہ کیا۔ میرے دل میں عجیب بے چینی تھی میں نے الوداعی ملاقات میں ان سے کہا ’’اگر مجھ سے کوئی گستاخی ہوئی ہو تو مجھے معاف کر دیجئے گا ۔ جواب میں انہوں نے کہا کہ آپ مجھے معاف کر دیجئے گا اگر میں نے کبھی آپ کا دل دکھایا ہو۔آپ مجھ سے زیادہ عرصہ جئیں گے اور میرا مشن جاری رکھیں گے۔‘‘
27دسمبر2007 کا المناک سانحہ ہوا تو مجھے بی بی شہید کے ان الفاظ کا مفہوم سمجھ آیا۔ میں تو یہ سمجھتا تھا کہ وہ مجھ سے زیادہ عرصہ زندہ رہیں گی لیکن کیا پتہ تھا کہ وہ پہلے ہی اپنی زندگی قوم کے نام کر چکی تھیں۔
پرتگال میں ایک عالمی کانفرنس میں شامل مشرق وسطیٰ کے ممتاز مندوب نے بی بی کو ان الفاظ میں خراجِ تحسین پیش کیا:’’آپ آسمان کے لاتعداد ستاروں میں واحد چمکتا ہوا ستارہ ہیں ۔‘‘
٭…٭…٭

ای پیپر دی نیشن