بے نظیر بھٹو شہید: عالمی شخصیت

Dec 27, 2020

بشیر ریاض

27دسمبر 2007ء کی خونی شام پاکستان کی ہردلعزیز وزیراعظم محترمہ بے نظیر بھٹو کو لیاقت باغ میں شہید کر دیا گیا۔ اس خونِ ناحق اور سفاکانہ قتل پر شدید ردِ عمل ہوا، پورا ملک سوگوار اورزندگی مفلوج ہو گئی تھی۔بی بی کی شہادت کا سانحہ دنیا میں ہرکس و ناکس کو اشکبار کر گیا اور پاکستان عالمی مرتبہ کی راہنما سے محروم ہو گیا۔ بے نظیر بھٹو شہید پاکستان کا روشن چہرہ اور روشن مستقبل تھیں انہیں عالمی سطح پر آئرن لیڈی، مشرق کی شہزادی، دخترِ اسلام اور مشرق کی بیٹی کے نام سے یاد کیا جاتا تھا۔ محترمہ بینظیر بھٹو شہید وفاقِ پاکستان کی علامت اور عوام کی امنگوں کا مظہر تھیں انہوں نے پاکستان کے طول وارض میں سیاسی فراست، ذہانت اور سوجھ بوجھ کے عظیم الشان نقش ثبت کیے اور وقت کے ساتھ انکی عزت و تکریم میں بیش بہا اضافہ ہوا ہے۔وہ واحد قومی راہنما تھیں جو پاکستان کا ایجنڈا لے کر آگے چل سکتی تھیں۔ بی بی شہید عالمی شخصیت تھیں اور نمایاں آواز تھیں ۔ بی بی شہید مفاہمت پر یقین رکھتی تھیں۔ لوگوں کو قریب لانا جانتی تھیں ان کی تحریریں ان کی شخصیت کے اس پہلو کی عکاس ہیں۔ وہ اکثر کہتی تھیں کہ ہر معاملہ میں فاصلوں کو کم کرنا اور مثبت اندازِ فکر اپنانا چاہیے انکی مثبت سوچ کا ایک پہلو یہ بھی تھا وہ غربت و افلاس کا خاتمہ کرکے عالم اسلام کو امن اور ترقی کا گہوارہ بنانا چاہتی تھیں۔بے نظیر بھٹو شہید انسانی حقوق کی بہت بڑی علمبردار تھیں ۔ مسئلہ کشمیر انکے دل کے بہت قریب تھاانہوں نے کشمیری عوام کے حقوق کے لیے ہمیشہ آواز بلند کی ۔ آل پارٹیز حریت کانفرنس کو انکی نمائندہ آواز قرار دیا اور عالمی سطح پر اسے روشناس کرایا۔اسی طرح فلسطین کے مسئلہ کو بھی اجاگر کیا۔ فلسطینی قیادت اور عوام کے دلوں میں انکی بے حد عزت تھی ۔ اس سلسلہ میں انکی والہانہ لگائو اور حمایت کا اندازہ اس امر سے لگایا جاسکتا ہے کہ بی بی شہید نے یہودی سٹور مارکس اینڈ سپنتر سے خریداری بند کر دی تھی۔
2003ء میں دہلی کا دورہ کیا ۔ بھارتی وزیراعظم واجپائی نے بی بی شہید سے اپنے پاکستان کے دورہ کے بارے میں مشورہ کیا۔ میں نے اپنے آرٹیکل میں اس کا ذکر کیا تو بی بی شہید نے کہا کہ نجی گفتگو کا ذکر حذف کر دو کیونکہ یہ سفارتی آداب کے منافی ہے۔محترمہ بے نظیر بھٹو شہید نے جلاوطنی کے دوران مختلف عالمی تنظیموں اور حکومتوں سے رابطے قائم رکھے اور مغربی ممالک میں سیاسی اور جمہوری سرگرمیوں کے ذریعے روابط مضبوط کیے۔ انہوں نے ہر جگہ جمہوری موقف پیش کیا۔ اس کا یہ اثرا ہوا کہ برطانیہ اور امریکہ سمیت یورپی ممالک میں یہ احساس اجاگر ہوا کہ پاکستان میں جنرل مشرف کو عوامی پذیرائی حاصل نہیں ۔یہ رائے عامہ ہموار ہوئی کہ پاکستان میں سیاسی قوتوں کو مضبوط کیا جائے، ان نازک حالات اور دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کے اہم کردار کیلئے ضروری ہے کہ یہ جنگ عوام کی حمایت کے بغیر نہیں جیتی جاسکتی۔ اس لیے محترمہ بے نظیر بھٹو کی پاکستان واپسی ضروری ہے کیونکہ انکی سیاسی پارٹی کی جڑیں پورے پاکستان میں ہیں اور وہ ایک ہردلعزیز اور دوراندیش راہنما ہیں۔یہ 2005ء کا ذکر ہے ۔ جنوبی ایشیا کی انچارج ایک اہم امریکی عہدیدار کسی کانفرنس کے سلسلے میں دبئی آئی تھیں۔ امریکی اسسٹنٹ سیکرٹری آف سٹیٹ نے بی بی سے ملنے کی خواہش ظاہر کی۔ محترمہ بینظیر بھٹو نے انہیں ڈنر پر مدعو کیا۔ بات چیت کے دوران اس امریکی اہم عہدیدار نے کہا کہ جنرل مشرف مزید دس سال تک برسراقتدار رہے گا۔ اس نے بی بی سے کہا اس وقت تک آپ کی عمر ساٹھ سال ہو گی۔ لہٰذا آپ سیاست کی بجائے انسانی حقوق کمیشن کی چیئرپرسن بن جائیں۔ بی بی نے یہ سن کر جواب دیا ۔
ہم نے اتنے سال جمہوری جدوجہد اقوامِ متحدہ کے کسی عہدے کیلئے نہیںکی ، میں پاکستان واپسی جائوں گی۔ یہی میری پہلی اور آخری ترجیح ہے ۔  بی بی کا یہ موقف سن کر دیگر معاملات پر بات کا رخ موڑ دیا۔  بی بی کے ذہن میں یہ خدشہ موجود تھا کہ پاکستان واپسی کی صورت میں انہیں کئی قسم کے خطرات درپیش ہو سکتے ہیں اور انہیں قتل بھی کیا جا سکتا ہے۔ یاد رہے کہ جنرل مشرف نے بی بی کو سیکورٹی فراہم کرنے سے انکار کر دیا تھا اور مصر رہا کہ وہ پاکستان پیپلزپارٹی کی چیئرمین کو واپس آنے نہیں دیگا۔ 2002ء میں انتخابات ہوئے تو نتائج کچھ اس طرح سے آئے تھے کہ پاکستان پیپلزپارٹی کے بغیر حکومت نہیں بن سکتی تھی اس صورتحال میں پارٹی کے کچھ ممبران پرویز مشرف سے مل گئے۔ بی بی کو اس سے بہت دھچکا لگا تھا۔ 2008ء کے انتخابات میں پھر اسی بات کا خدشہ تھا کہ اپنی راہنما کی عدم موجودگی میں پھر وہی تاریخ دہرائی جاتی اور جیت کی صورت میں جنرل مشرف انہیں اپنے ساتھ ملا لیتا اور یوں پارٹی کو ناقابل تلافی نقصان ہوتا۔ لہٰذا بی بی نے سیاسی فراست سے کام لیا اور پاکستان واپس آ کر انتخابات میں حصہ لینے کا فیصلہ کیا۔ یوں انہوں نے اپنی جان کو درپیش خطرات کو نظرانداز کرکے اپنے عظیم والد ذوالفقار علی بھٹو کی سیاسی وارث ہونے کا حق ادا کیا اور پاکستان کی خاطر اپنی جان دے دی۔

مزیدخبریں