27 دسمبر پاکستان کی تاریخ کا سیاہ ترین دن ہے جب میری عظیم لیڈر کو بے دردی سے سڑک پرماردیا گیا جب شہید بے نظیر بھٹو پر لکھنا ہوتا ہے تو دل خون کے آنسو روتا ہے، شاید اس لئے کہ وہ بھی عورت تھی۔ بے نظیر عورت تھی ، میری سہیلی تھی، ہماری بہت سی باتیں مشترک تھیں۔ میں نے کبھی نہیں سوچا تھا کہ بے نظیر جو میرے آگے آگے چل رہی تھیں وہ لمحہ بھر میں دنیا چھوڑ جائیں گی ہنستی مسکراتی باتیں کرتے کرتے خوش خوش دنیا سے اس طرح گئی کہ سب دیکھتے رہ گئے۔ وہ ایک عظیم لیڈر کی عظیم بیٹی تھی۔ اعلیٰ تعلیم یافتہ ، خوش لباس، خوش گفتار، ذہین، باوفا بیوی ایک شفقت بھری ماں تھیں۔ میرا بے نظیر بھٹو کا ساتھ تقریباً بچپن سے تھا وہ چھوٹی سی پیاری سی اپنی والدہ بیگم نصرت بھٹو کے ساتھ آتی تھیں وہ خوبصورت لڑکی تھی، اس وجہ سے اس کو پنکی کہاجاتا تھا۔ شہید بے نظیر بھٹو کو لاہور کے تاریخی مقامات بہت پسند تھے وہ سادہ خوراک کھاتی تھیں۔ شہید بے نظیر بھٹو پر نوجوانی میں ہی غم کے پہاڑ توڑے گئے وہ زیرتعلیم تھی، جب شہید ذوالفقار علی بھٹو نے ایوب حکومت کے ظلم کیخلاف آواز بلند کی اور بے نظیر بھٹوآکسفورڈ یونیورسٹی میں زیرتعلیم تھیں اور وہاں مسلمان طلبہ کی صدر تھیں۔ بچپن سے ہی بے نظیر بھٹو میں قائدانہ صلاحتیں موجود تھیں۔ شاید اس لئے کہ انکے دادا سرشاہ نواز بھٹو بھی ریاست جونا گڑھ کے وزیراعظم تھے۔ والد شہید ذوالفقار علی بھٹو ایوب حکومت میں وزیرخارجہ رہے۔ بعدازاں اپنی جماعت پیپلزپارٹی کی تشکیل نو کی اور خود پاکستان کے وزیراعظم بنے۔ شہید بے نظیر بھٹو نے دادا کا اقتدار تو نہیں دیکھا مگر والد شہید ذوالفقار علی بھٹو کے اقتدار کو قریب سے دیکھا اور سیاسی تربیت بھی حاصل کی۔ بی بی شہید میں لاتعداد خوبیاں تھیں مگر ایک خوبی ناقابل فراموش ہے۔ وہ ایک فرمانبردار بیٹی تھی ، گھر سے باہر والد شہید ذوالفقار علی بھٹو کا کبھی کہنا نہیں ٹالا اور گھر میں والدہ نصرت بھٹو کی کبھی نافرمانی نہیں کی۔ بے نظیر بھٹو انٹرنیشنل آفیئر میں بھی اعلیٰ تعلیم یافتہ تھیں وہ فارن سروس میں جانا چاہتی تھی مگر والد شہید بھٹو ان کو پاکستان کی وزیراعظم دیکھنا چاہتے تھے اس لئے انکی تعلیم مکمل ہوتے ہی سیاسی تربیت کا آغاز ہوگیا وہ اپنے والد کے ساتھ شملہ معاہدے میں بھی پیش پیش رہیں اور وہاں سے واپسی پر پاکستان میں ہونیوالے تمام بیرونی دنیا کے معاہدے پر غور و فکر شروع کردیا وہ اپنے والد شہید بھٹو کے ساتھ ساتھ تمام سیاسی اور حکومتی امور میں ساتھ دیتی تھیں۔ بھٹو صاحب انکواپنے ساتھ ساتھ رکھتے تھے، بالآخر سخت ترین آمریت کا مقابلہ اس تنہا لڑکی نے کیا اور ایسا کیا کہ دنیا حیران رہ گئی، والدہ شہید جمہوریت بیگم نصرت بھٹو نے بھی آمریت کا مقابلہ کرکے ایک باوفا بیوی ہونے کا ثبوت دیا اور وہ وقت بھی دیکھا جب ایک وزیراعظم کی بہو اور وزیراعظم کی بیوی کا سر لاہور کے قذافی سٹیڈیم میں پھاڑا گیا اسکے بعد شہید بے نظیر بھٹو نے عہد کیا کہ وہ ظلم کے آگے سر نہیں جھکائیں گی اور عوامی طاقت سے مقابلہ کرینگی، عوام نے شہید بی بی کا ہاتھ آخری دم لیاقت باغ کے جلسے تک نہیں چھوڑا، شہید بے نظیر بھٹو کو اللہ نے عوامی طاقت سے دو مرتبہ وزیراعظم بنایا اور اپنی دو وزارت میں بی بی شہید نے سب سے اچھا کام یہ کیا کہ بے روزگاروں کو نوکریاں دیں اور خواتین کیلئے نمایاں کام کیے۔ ویمن تھانے بنائے، ویمن بینک بنایا اور دیگر اہم امور جن میں دفاع سرفہرست تھا اس کو بھی محفوظ اور مضبوط بنایا تاکہ دشمن ہماری سرحدوں کو نقصان نہ پہچائے، شہید بی بی نے اپنے والد کے مشن کی تکمیل کرتے ہوئے کسانوں کو بھی سہولیات دیں اور درمیانے طبقے کے افراد کیلئے بہت سے پراجیکٹ شروع کیے۔ مگر شاید پاکستان میں محب وطن افراد کیلئے کوئی گنجائش نہیں ہے۔ بینظیر کی پہلی دورحکومت دو سالہ جبکہ دوسرا دور حکومت 18 ماہ رہا۔ہر بار ان سے اقتدار چھینا گیا تاکہ وہ پاکستان کو کوئی مضبوط سسٹم نہ دے سکیں مگر شہید بے نظیر بھٹو نے صبروہمت کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑا اور وہ اپنے والد کی طرح محب وطن کے جذبہ سے بھرپور انداز سے آگے بڑھتی رہیں مگر پاکستان کے اندرونی اور بیرونی دشمنوں نے مل کر بھٹو خاندان کو دیکھ لیا تھا کہ یہ پاکستان سے محبت کرتے ہیں اور ناقابل فروخت ہیں اس لئے آخری سیاسی جانشین بے نظیر بھٹو شہید کو راستے سے ہٹایا گیا اور اپنی سیاسی مہم کے آخری جلسے کے خطاب کے بعد ظالم مافیا نے میری لیڈر کو شہید کیا ایک ہی گولی میں آرپار کردیا۔ بی بی کی شہادت ایک دلخراش واقعہ ہے جب تک زندہ رہیں گے یہ غم ناقابل فراموش ہے۔27 دسمبر 2007 شاید یہ 7کا ہندسہ بی بی شہید کو راس نہ آیا اور دنیا سے اس طرح رخصت ہوئیں جیسے کوئی خوش ہو کر آسمانوں کی طرف جاتا ہے۔ 27 دسمبر نہ صرف پیپلزپارٹی کیلئے بلکہ پاکستان اور پوری دنیا کیلئے ایک سیاہ دن ہے جب اسلامی دنیا کی پہلی خاتون وزیراعظم کو بے دردی سے مار دیا گیا۔
بی بی کی شہادت عظیم سانحہ ہے
Dec 27, 2020