27 دسمبر کی منحوس شام 

27 دسمبر کی منحوس شام نے پاکستانی قوم کی امید کی کرنوں کو غروب ہوتے دیکھا، شہید بینظیر بھٹو کو اشارے کنائیے سے یہ باور کرانے کی کوشش کی گئی کہ ملک میں آپکی جان کو خطرہ ہے آپ مت آیئے مگر محترمہ اس بات کو ماننے کیلئے تیار ہی نہیں تھیں کہ انہیں اپنے لوگوں میں جان کا کوئی خطرہ ہوسکتا ہے، محترمہ جب آخری مرتبہ لاہور تشریف لائیں تو انہیں ایک بزرگ صحافی نے کہا کہ ملک جس قدر بد امنی، بے چینی اور انتشارکا شکار ہے یہ وقت آپکی وطن واپسی کیلئے مناسب نہیں تھا تو تمام تر احترام کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے شہید جمہوریت نے کہا کہ مناسب وقت کا کب تک انتظار کیا جائیگا ۔اس ملک کے مجبور اور بے بس عوام کی تقدیر جمہوریت کی بحالی سے ہی بدلی جاسکتی ہے اور ان انتخابات میں حصہ لے کر ہی انکے حقوق لوٹائے جاسکتے ہیں کب تک ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر بیٹھا جائے، کسی کو آخرکار امید کی مشعل جلانا ہے یہی سوچ کر میں جان کی پرواہ کئے بغیر میدان میں اتری ہوں آپ میرے لئے دعا کریں۔ 18 اکتوبر کراچی میں سانحہ کار ساز ہوا جو کہ خوف دلانے اور میدان چھوڑنے کا پیغام تھا مگر محترمہ بینظیر بھٹو نے 3 اپریل 1979ء کو شہید بابا کو دیا ہوا قول زندگی کی آخری سانس تک نبھایا کہ وہ پاکستانی عوام کو تنہا نہیں چھوڑیں گی۔ قائد عوام نے محترمہ سے انکی سالگرہ پر خط لکھتے ہوئے فرمایا تھا کہ اللہ کی جنت ماں کے قدموں تلے ہوتی ہے اسکی خدمت کرو گی تو جنت ملے گی اور سیاست کی جنت عوام کے قدموں تلے ہوتی ہے انکی خدمت کرو گی تو سیاست کی جنت ملے گی۔ چیلنجوں کا مقابلہ کرنا پاکستان پیپلز پارٹی کی تاریخ ہے اور اسکے جیالے کارکن اور اعلیٰ قیادت نے قربانیاں دینے صعوبتیں برداشت کرنے سے کبھی دریغ نہیں کیا۔ بھٹو خاندان نے اپنے جیالوں کے ساتھ مل کر قلندرانہ شان کے ساتھ جانوں کے نذرانے پیش کئے ۔شہید بی بی ہماری روایت کے زریں اصولوں کو زندہ رکھنے کیلئے قربان ہوگئیں۔ ارض وطن کی رکھوالی کیلئے واپس آگئیں اور کہا کہ اقتدار خدا کی دین اور عوام کی امانت ہے اس کیلئے جمہور اور جمہوریت کو بحال کرو اور انہیں جینے کے پنپنے کا موقع دو پر امن اور شفاف انتخابات کو ممکن بنانے کیلئے اقدامات اٹھائو جس کیلئے تساہل برتا گیا اور انہیں وہ سکیورٹی تک مہیا نہ کی گئی جو کہ اس عالمی رہنما کیلئے ریاست کی ذمہ داری بنتی تھی، اس معاملے کی نزاکت اور حساسیت کا اندازہ پہلے کیوں نہیں لگایا گیا شاید یہ سب عاقبت نااندیشی اس لئے تھی کہ قوم کو ایسے رہنما سے محروم کر دیا جائے جو قوم کو متحد رکھ سکتا تھا، ایسا سوچنے والے شاید یہ بھول جاتے ہیں کہ پی پی پی صرف ایک سیاسی جماعت یا لوگوں کا ہجوم ہی نہیں ہے، یہ ایک روایت اور تحریک ہے جو ملک کی بقاء کو نقصان پہنچانے والوں کے سامنے کھڑی ہوگی اور شہید بی بی کے مشن اور افکار کی تکمیل کرتے ہوئے اپنے غم و غصہ کا اظہار ووٹ کی پرچی کے ذریعے کریگی اور ہر وہ سازش ناکامی سے دوچار ہوگی جو اس ملک کے عوام کیخلاف ہو رہی ہے اور ہر وہ حربہ پورس کا ہاتھی ثابت ہوگا جس سے ملک کو کمزور کرنے اور ایک ناکام ریاست ثابت کرنے کی کوشش کی جائیگی۔میرے بیتے دنوں کی وہ یادیں جواب میری زندگی کا قیمتی اثاثہ ہیں پہلے سے زیادہ متحرک اور فعال ہونے کی تحریک دیتی ہیں۔ مجھے یاد ہے جب بی بی نے مجھے کہا کہ اب پنجاب میں اچھا کام کر رہے ہو میرے لئے اپنی خدمات کا بہترین صلہ تھا کہ میری قائد مجھے آج کے ابلاغی دور میں اپنی سوچ فکر اور زبان ہونے کا درجہ دے رہی تھیں۔ میں آخری وقت تک شہید قائد کے میڈیا ترجمان کی خدمات سرانجام دیں۔ پنجاب میں پارٹی کی میڈیا مہم کیلئے انہوں نے مجھے کہا کہ وہ 6جنوری کو لاہور آئیں گی تو میرے نئے گھر میں آنے کیلئے بھی تھوڑی دیر کیلئے وقت نکالیں گی۔ میں نے اسکی تیاریاں شروع کر دیں اور کچھ کالم نویس دوستوں کو انکے ساتھ ملاقات کا پروگرام ذہن میں تیار کیا مگر انسان سوچتا کچھ ہے اور خدا کو کچھ اور ہی منظور ہوتا ہے۔ 27دسمبرکو منحوس شام نے ہم سے امید کی کرن چھین لی ہم ایک ہولناک مستقبل کی طرف دھکیل دئیے گئے۔میرے بچے 2007ء کو ان کے دبئی کے قیام کے دوران میرے ساتھ گئے اور شہید قائد سے ملاقات کی محترمہ نے میرے بچوں سے کہا کہ زندگی میں بڑا کام کرنا ہو تو اس کیلئے سب سے بڑا حوصلہ چاہیے۔ پاکستانی قوم اس امتحان میں ضرور پوری اترے گی اور چیئرمین بلاول بھٹو کی رہنما ئی میں محترمہ کے مشن کی تکمیل کریگی۔ اور جمہوریت کی مضبوطی کیلئے اپنا کردار ادا کرتی رہے گی۔ اور کارکن پارٹی کا سرمایہ ہیں۔ کارکن اور لیڈر کے درمیان حائل رکاوٹوں کو بھی دور کرنا ہے۔27دسمبرکو ملک دشمنوں نے ایک انقلابی آواز اور سوچ کو دبانے کی کوشش کی وہی انقلابی آواز اور سوچ آج بلاول بھٹو زرداری کی شکل میںپورے پاکستان کے عوام کی آواز بن چکی ہے۔ 27دسمبر ایک تجدید عہد کا دن ہے جب تک ملک کے اندر غربت، جہالت بے روزگاری ہے بینظیر بھٹو شہید کے دئیے ہوئے فلسفے اور منشور پر جدوجہد جاری رہے گی۔

چودھری منور انجم 

ای پیپر دی نیشن