بے نظیر اساں مرنا ناہیں 

’’دبئی سے کراچی روانگی کیلئے میں تیار تھی میرے شوہر آصف کو دبئی میں ہماری بیٹیوں بختارور اور آصفہ کے ساتھ رہنا تھا۔ میں نے اور آصف نے بہت سوچ بچار کے بعد ایک مشکل فیصلہ کیا تھا کیونکہ میری وطن واپسی کے اثرات سے ہم آگاہ تھے۔ لہٰذا ہمارا فیصلہ تھا کہ کچھ بھی ہو جائے ہماری بیٹیوں اور بیٹے بلاول کے سر پر کسی ایک کا سایہ سلامت رہنا چاہیے۔ یہ ایک مشکل اور غیر معمولی فیصلہ تھا اور ہم دونوں اس کے عادی رہے۔ ایک عرصہ پہلے میں اپنی ترجیح واضح کر چکی تھی جو کہ پاکستان کے عوام تھے اور میرے بچے نہ صرف اس ترجیح سے واقف تھے بلکہ میرے حامی تھے۔ میرا کہنا ہے کہ ’’یہ پاکستان کیلئے جمہوریت کی طرف واپسی کیلئے سفر کا آغاز اور میری اُمید تھی کہ میری وطن واپسی تبدیلی کا پیش خیمہ ہو گی۔میرا یقین ہے کہ معجزات ہوتے ہیں۔‘‘ محترمہ بے نظیر بھٹو کی 30سالہ سیاسی جدوجہد جمہوریت رواداری ، آزادی اظہار اور سماجی و معاشی مساوات سے عبارت ہے۔ بی بی کی زندگی میں ہلچل، رنج و الم اور فتوحات سب ہی کا اظہار ہوتا ہے۔ والد اور دو بھائیوں کی شہادت، والدہ، شوہر اور خود اپنی قید و بند، جلاوطنی، جھوٹے مقدمات، انتہائی غیظ اور بدترین الزمات بھی بے نظیر بھٹو کو اپنے مقاصد کے حصول کی جدوجہد سے نہ روک سکے۔ پاکستان کی تاریخ میں آ مریت اور انتہا پسندی کو جس دلیری اور جرات کے ساتھ بی بی نے للکارا ہے اس کی مثال نہیں ملتی۔  جنرل ضیاء کے دور میں جب آئین کو چند صفحوں کو کتاب سمجھ کر پھاڑ کر پھینک دیا گیا۔ جمہوریت کو اسلام کے منافی قرار دیا گیا۔ ایک مخصوص قسم کی مذہبی سوچ کو پروان چڑھایا گیا۔ آزادی اظہار پر قدغن لگائی گئی۔ سماج کو اجارہ داریوں کے ذریعے برباد کر دیا گیا اور معاشی مساوات کے برخلاف ارتکاز دولت کے ذریعے امیر امیر تر اور غریب غریب تر ہونے لگا تو بھٹو کی بے نظیر بیٹی نے اپنے والد کے مشن کا بیٹرا اُٹھایا۔ یہ وہ دور تھا جب بڑے بڑے نام نہاد سیاسی رہنما مارشل لا کی حکومت کو تسلیم کر چکے تھے۔ تو ایسے میں بی بی نے آمریت، انتہا پسندی، سماجی و معاشی عدم مساوات کے خلاف بغاوت کرتے ہوئے اعلان کیا کہ ’’ میں باغی ہوں‘‘۔ طاقت کے زعم میں مبتلا آمر سمجھتے تھے کہ بندوق کے آگے اس نہتی لڑکی کا کھڑا ہونا ناممکن تھا لیکن بی بی کے عزم و حوصلہ نے ان طالع آزمائوں پر لرزہ طاری کر دیا۔ جنرل ضیاء کے دور میں رجعت پسندی نے انتہا پسندی سے دہشت گردی تک کا سفر انتہائی تیزی سے طے کیا۔ افغان جنگ میں امر یکہ ا ور مغرب کے مفادات کے تحت ضیاء حکومت کا پاکستان کو اس میں ملوث کرنا پاکستان کیلئے زہر قاتل ثابت ہوا اور یہاں سے دہشت گردی کا ایسا بھیانک آغاز ہوا جس نے عفریت بن کر ریاست کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ جنرل ضیاء کے دور سے لے کر جنرل مشرف کے دور تک ریاست اور اُسکے تمام ادارے یا تو دہشت گردوں کے ہمدرد تھے یا اُن کے خلاف لب کشائی کی جرات نہ رکھتے تھے۔ لہٰذا ان ریاستی اداروں کے زیر اثر تمام سیاسی جماعتیں بھی کسی نہ کسی طرح دہشت گردوں کی معاون و مدد گار تھیں۔ محترمہ بے نظیر بھٹو وہ واحد سیاسی رہنما تھیں جنہوں نے سب سے پہلے دہشت گردی کو پوری طاقت کے ساتھ للکارا۔ اسی لئے محترمہ بے نظیر بھٹو کی پہلی حکومت کے خاتمہ کے لئے پیش کی گئی عدم اعتماد کی تحریک میں سرمائے کا بے دریغ استعمال کیا گیا۔ آمرانہ قوتوں کے ساتھ ساتھ دہشت گرد اور انتہا پسند محترمہ بے نظیر بھٹو سے خائف تھے وہ جانتے تھے کہ بے نظیر بھٹو ہی وہ واحد رہنما تھیں جو ان کے گٹھ جوڑ کو بے نقاب کر کے اُنھیں شکست دینے کی صلاحیت رکھتی تھیں۔ تاریک ماضی کے یہ نقیب مستقبل کی اس اُمید اور روشنی سے ڈرتے تھے وہ لرزاں تھے کہ بے نظیر بھٹو کی قیادت میں پاکستان کے عوام آمریت کے مقابلہ میں جمہوریت جہل کے مقابلہ میں علم مذہبی جنونیت کے مقابلہ میں رواداری اور انتہا پسندی کے مقابلہ میں اعتدال پسندی کا انتخاب کریں گے لہٰذا ان قوتوں نے بی بی کو ملک واپس آنے سے منع کیا اورکبھی بیت اللہ محسود نے کہا کہ بے نظیر کا استقبال بندوقوں اور بمبوں سے کیا جائے گا اور کبھی جنرل مشرف نے کہا کہ میں بے نظیر بھٹو کو سکیورٹی فراہم نہیں کر سکتا۔ مگر کوئی بھی دھمکی بی بی کو خوفزدہ نہ کر سکی۔ کراچی میں خوفناک بم دھماکے اور شہادتیں بے نظیر بھٹو کو آمریت اور انتہا پسندی کے خلاف آواز بلند کرنے سے نہ روک سکے۔ محترمہ بے نظیر بھٹو کی آخری للکار آج بھی گونج رہی ہے،’’میرا ملک خطرے میں ہے ، اسے کون بچائے گا ۔ میں بچائوں گی، آپ بچائیں گے۔سوات پہ پاکستان کا پرچم کون لہرائے گا ، میں لہرائوں گی ، آپ لہرائیں گے۔‘‘اور پھر 27دسمبر 2007؁ء کی شام کے مہیب سایوں میں اس دلیر اور جرات مند آواز کو ختم کرنے کی سازش ہوئی لیکن آپ کسی شخص کو قید کر سکتے ہیں مگر سوچ کو نہیں آپ فرد کو جلا وطن کر سکتے ہیں مگر سوچ کو دیس نکالا نہیں دے سکتے آپ کسی انسان کو قتل کر سکتے ہیں مگر اُس کے نظریہ کو قتل نہیں کر سکتے۔ 
بے نظیر بھٹو کی سوچ اور نظریہ آج بھی للکار رہا ہے کہ ’’ اساں مرنا ناہیں گورپیا کوئی ہور‘‘

ای پیپر دی نیشن