بینظیر بھٹو کی 13ویں برسی اور  قومی مفاہمت کی ضرورت

Dec 27, 2020

اداریہ

آج کے دن 27 دسمبر 2007ء کی شام پیپلزپارٹی کی چیئرپرسن محترمہ بینظیربھٹو لیاقت باغ راولپنڈی میں ایک بہت بڑے جلسے سے خطاب کرکے رہائش گاہ روانہ ہو رہی تھیں کہ دہشت گردی کی واردات میں شہید ہو گئیں۔ یہ اتنا بڑا سانحہ تھاکہ پوری قوم سوگ میں ڈوب گئی۔ انکی شہادت صرف پیپلز پارٹی کا نہیں‘ پورے ملک اور قومی سیاست کا نقصان تھا۔
اس میں کوئی دورائے نہیں کہ محترمہ بے نظیر بھٹو جرأت مند‘ بے خوف اور نڈر سیاسی رہنما تھیں۔ ملک و قوم اور جمہوریت کی خاطر بڑی سے بڑی قربانی دینے کو تیار رہتی تھیں۔ وہ جلاوطنی میں تھیں تو صدرمشرف کی طرف سے انہیں برابر پیغام مل رہے تھے کہ عام انتخابات سے پہلے وطن لوٹنے کی کوشش کی تو نتائج کی وہ خود ذمہ دار ہونگی لیکن محترمہ ایسی دھمکیوں کو کب خاطر میں لانے والی تھیں۔ 18 اکتوبر 2007ء کو وہ دبئی سے کراچی پہنچ گئیں۔ ان پر پہلا قاتلانہ حملہ 18 اکتوبر کو ان کے جلوس پر خود کش حملے کی صورت میں ہوا جس میں پیپلز پارٹی کے 149 کارکن جاں بحق اور 402 زخمی ہوئے۔ کوئی اور ہوتا تو اتنے بڑے سانحہ کے بعد حوصلہ ہار بیٹھتا‘ لیکن محترمہ کا عزم ذرا بھی متزلزل نہ ہوا۔ وہ پہلے سے زیادہ جوش و خروش سے میدان عمل میں سرگرم ہوگئیں۔ 27 دسمبر کی خون آشام شام کو دختر مشرق اور وفاق کی علامت محترمہ بینظیربھٹو کو شہیدکر دیا گیا۔ یوں بینظیربھٹو نے اپنے والد مرحوم کی طرح پاکستان کوخوشحال‘پرامن‘ مستحکم اور ناقابل تسخیر مملکت بنانے کا جو خواب دیکھا تھا‘ وہ ادھورا رہ گیا۔ محترمہ بے نظیر بھٹو کا تعلق ایک وڈیرے خاندان سے تھا۔ ساری تعلیم بیرون ملک سے حاصل کی۔ اسکے باوجود وہ حد درجہ غریب پرور اور مشرقی اور اسلامی روایات کی سختی سے پابند تھیں۔ انکی شہادت کے حوالے سے افسوسناک پہلو یہ ہے کہ 5 سال پیپلزپارٹی کی حکومت بھی رہی لیکن مجرموں کا سراغ لگا اور نہ انہیں کیفرکردار تک پہنچایا جا سکا۔ انتظامی سطح پر یہ بہت بڑی خامی ہے کہ پاکستان کے وزرائے اعظم کے ایسے اندھے قتل کے پس پردہ محرکات سے قوم کو آج تک آگاہ نہیں کیا گیا۔تاہم ’’بھٹو کا ورثہ‘‘ ایسی جاندار قوت ہے کہ وہ جسمانی طورپر منظرعام سے ہٹا دیئے جاتے رہے ‘لیکن پھر بھی انہیں غریب عوام کی خدمت کے مشن سے نہیں ہٹایا جا سکا۔ ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی ہوئی تو بینظیر بھٹو نے علم اٹھا لیا۔ انہیں راستے سے ہٹایا گیا تو انکی جدوجہد کو آصف علی زرداری اور بلاول بھٹو زرداری نے آگے بڑھایا۔ آج قومی سیاست میں بلاول بھٹو ہی بھٹو لیگیسی کے حقیقی امین اور پیپلزپارٹی کے تن مردہ میں نئی جان ڈالتے نظر آتے ہیں جنہوں نے آج 27 دسمبر کو اپنی والدہ شہید بے نظیر بھٹو کی 15 ویں برسی پر انکے سیاسی اور پیپلزپارٹی کے نظریاتی مخالفین کو بھی نوڈیرو میں ایک پلیٹ فارم پر لا کر بے نظیر بھٹو کی قومی مفاہمت کی پالیسی کو تقویت پہنچائی ہے جس کی آج ملک کو درپیش چیلنجوں کے تناظر میں ضرورت بھی ہے۔ 

مزیدخبریں