کہا جارہا ہے استعفے نہیں آئینگے، 159صوبائی، 95فیصد قومی ارکان کے آگئے: مریم نواز

لاہور+سکھر (نیوز رپورٹر+نوائے وقت رپورٹ) مریم نواز نے کہا کہ شہبازشریف اگر اپنے بھائی سے وفادار نہ ہوتے تو وہ وزیر اعظم ہوتے اور پورے پاکستان کو غیرمحسوس کردار نظر آ رہے ہیں جو اب پیچھے ہٹ رہے ہیں۔ مجھے خوشی ہے کہ  بی بی شہید کی برسی کے موقع پر ان کے پاس جا رہی ہوں، ان کی جمہوریت کے لیے جدوجہد تھی اور انہوں نے اس ملک کے لیے بہادری سے جان دی، تو یہ میرے لیے فخر کا مقام ہے کہ مجھے ان کی برسی میں شامل ہونے کا موقع مل رہا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ میرا خیال ہے کہ میاں صاحب اور بی بی شہید نے اس ملک کو جو میثاق جمہوریت دیا تھا اس کے بعد پاکستان کی تاریخ تبدیل ہو گئی، یہ پاکستان کی تاریخ میں ایک انتہائی اہم سنگ میل تھا، میں، بلاول اور تمام سیاسی جماعتیں اس کو لے کر آگے بڑھیں گے اور مضبوط بنائیں گے۔ انہوں نے کہا کہ یہ پاکستان میں بہت ضروری ہے کیونکہ پاکستان میں تقسیم بہت زیادہ بڑھ گئی ہے اور پاکستان کو اتحاد اور یکجہتی کی ضرورت ہے، ہم سب جماعتیں مختلف ہیں اور پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ میں شریک تمام جماعتوں کے الگ، الگ منشور اور نظریات ہیں لیکن کچھ چیزیں پاکستان کی خاطر ایسی ہیں جس پر ہم سب اکٹھے ہیں۔ پیر پگاڑا کے نمائندے کی جیل میں شہباز شریف سے ملاقات کے حوالے سے سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ صرف یہ دورہ نہیں بلکہ اس سے پہلے بھی ہمیں وزرا کی جانب سے بھی کئی پیغامات موصول ہوتے رہے ہیں، جب ان کو جواب نہیں دیا گیا تو اور لوگوں کو بھیجا جا رہا ہے۔ میں یہ سمجھتی ہوں کہ میاں صاحب نے بہت اٹل فیصلہ کیا ہے اور مولانا فضل الرحمٰن سمیت پی ڈی ایم میں شامل تمام جماعتیں بھی اس معاملے پر بالکل کلیئر ہیں کہ اس جعلی حکومت سے کوئی مذاکرات نہیں ہوں گے، مذاکرات کی کوشش کر کے یہ پی ڈی ایم سے این آر او مانگ رہے ہیں جو ان کو نہیں ملے گا۔ انہوں نے کہا کہ جب آپ جیل میں ہوتے ہیں تو آپ کو نہیں پتہ ہوتا کہ کون ملاقات کے لیے آنے والا ہے اور اچانک آپ کو بتایا جاتا ہے، آپ اس وقت انکار کرنے کی پوزیشن میں اس لیے نہیں ہوتے کیونکہ یہ نہیں پتہ ہوتا کہ جو آ رہا ہے کیا کہنے آ رہا ہے، یہ بات آنکھیں کھول دینے کے لیے کافی ہے کہ جہاں خاندان کو ملنے کی اجازت نہیں دی جاتی وہاں اس طرح کی شخصیات بغیر کسی رکاوٹ کے مل بھی لیتی ہیں اور ان کے لیے راستے بھی کھل جاتے ہیں۔ یہ حکومت ہی دھاندلی کی پیداوار ہے، اس کی کارکردگی اتنی بری ہے کہ اگلا الیکشن ووٹ سے تو نہیں لے سکتے، 2018 کا نہیں لے سکے تو اتنی بری کارکردگی کے بعد 2023 کا کیسے لیں گے، یہ چاہے جتنی بھی کوششیں کر لیں، ناکام ہوں گے اور اس حکومت کو گھر جانا پڑے گا۔ مجھے تو اس حکومت پر رحم آتا ہے جو پی ڈی ایم پر نظریں گاڑ کر بیٹھے ہیں، یہ شکست خوردہ آدمی کی ذہنیت کی نشانہ ہے کہ کوئی پی ڈی ایم لیڈر جلسے میں نہیں پہنچا تو امید لگا کر بیٹھ گئے کہ شاید دراڑ پڑ گئی ہو، یہ ایسے شخص کی ذہنیت ہے جس کو پتہ ہے کہ میں جا رہا ہوں۔ شہباز شریف اپنے بھائی اور پارٹی کے وفادار ہیں، انہوں نے ساری ایسی پیشکشوں کو ٹھکرایا جس کا ثبوت یہ ہے کہ آج وہ اپنے بیٹے سمیت جیل بھگت رہے ہیں۔کوئی استعفے دینے سے دستبردار نہیں ہو رہا، مرتضیٰ جاوید عباسی اور سجاد اعوان سے تو کوئی گمان کر بھی نہیں سکتا کہ وہ دستبردار ہوں گے، وہ سب سے پہلے لوگ تھے جنہوں نے استعفے جمع کرائے، وہ خود حیران ہیں کہ ان کے استعفے سپیکر تک کیسے پہنچے۔ 160 میں سے 159 صوبائی ارکان اسمبلی کے استعفے مجھے موصول ہو گئے ہیں اور ایک استعفیٰ اس لیے نہیں آیا کہ وہ خاتون وینٹی لیٹر پر ہیں، اسی طرح قومی اسمبلی کے بھی 95فیصد استعفے مجھے موصول ہو گئے ہیں۔ اگر کوئی اس چیز سے امید لگا کر بیٹھا ہے کہ لوگ پیچھے ہٹ رہے ہیں تو وہ خود کو بہت بے وقوف بنا رہا ہے کیونکہ اب لوگ تحریک انصاف نہیں بلکہ مسلم لیگ(ن) اور پی ڈی ایم کی طرف دیکھ رہے ہیں، ہمارے سارے ارکان اور پی ٹی آئی کے ارکان کو بھی پتہ ہے کہ تحریک انصاف کا مستقبل نہیں ہے۔ مریم نواز نے کہا کہ اگر کوئی اس خام خیالی میں ہے کہ جماعت کے لوگوں کو توڑ لے گا تو وہ غلط ہے، ابھی انہوں نے جمعیت علما اسلام(ف) کے لوگوں کو توڑنے کی کوشش کی تو وہ بیک فائر ہوا۔انہوں نے کہا کہ صرف مجھے نہیں بلکہ پورے پاکستان کو غیرمحسوس کردار نظر آ رہے ہیں اور پورے پاکستان کو یہ بھی نظر آ رہا ہے کہ غیرمحسوس کردار اب پیچھے ہٹ رہے ہیں۔ضمنی الیکشن میں حصہ لینے کے بارے میں سوال کے جواب میں مسلم لیگ(ن) کی نائب صدر نے کہا کہ اس بارے میں گفتگو ہو رہی ہے، پارٹی میں دو قسم کی رائے ہے، اکثریتی رائے پارٹی میں یہ ہے کہ الیکشنز میں حصہ نہیں لینا چاہیے اور اگر یہ حکومت جا رہی ہے تو ہم اپنی ایک دو سیٹ قربان کر سکتے ہیں لیکن اس حوالے سے حتمی فیصلہ پی ڈی ایم کرے گی۔ اگر پی ڈی ایم مولانا فضل الرحمٰن کی سربراہی میں یہ فیصلہ کرتی ہے کہ ہم انتخابات نہیں لڑیں گے، تو ہم نہیں لڑیں گے لیکن اگر قیادت بیٹھ کر یہ فیصلہ کرتی ہے کہ الیکشنز میں جانا چاہیے تو یقیناً اس پر عمل کیا جائے گا۔ملتان میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے مریم نواز نے کہا کہ 'جتنی مرضی اپنے لوگ بھیجیں، ملاقاتیں کروا لیں، جیل میں بھیجیں، فون کروا لیں آپ کو این آر او نہیں ملے گا، آپ کو گھر جانا پڑے گا۔ ضمنی انتخابات اپوزیشن کے بغیر کرائیں گے؟ وہ تو دھاندلی کر کے بھی آسکتے ہیں جیسے 2018 میں آئے، جس انتخابات میں صرف ایک جماعت شرکت کرے گی اور 80 فیصد عوام شرکت نہیں کرتے ان کی کوئی حیثیت نہیں ہوتی۔ہر جماعت کا اپنا موقف ہوتا ہے، پی ڈی ایم کا اجلاس ہوتا ہے تو سب اپنے موقف کو سامنے رکھتے ہیں، ان پر بحث ہوتی ہے پھر فیصلے ہوتے ہیں۔علاوہ ازیں خود مریم نواز نے وضاحت جاری کر دی ہے اور کہا ہے کہ ان کی بہن اسماء نواز کے نام سے متعدد جعلی اکاؤنٹس موجود ہیں۔ انہوں نے ایک جعلی اکاؤنٹ کا اسکرین شاٹ بھی شیئر کیا اور لوگوں کو خبردار کیا کہ وہ جعلی اکاؤنٹ سے دور رہیں ایسے کی بھی اکاؤنٹ کی شکایت ٹوئٹر کو کریں۔مریم نواز شریف کا لاہور سے سکھر جاتے ہوئے ملتان موٹر وے شیر شاہ انٹر چینج پر کارکنان کی جانب سے پھولوں کی پتیاں نچھاور کر کے استقبال کیا۔ کارکنوں نے مریم نواز سے نواز شریف کی سالگرہ کا کیک کٹوایا۔ مریم نواز نے گاڑی میں بیٹھے بیٹھے ہی کیک کاٹ کر کارکنان کے نعروں کا جواب دیا۔مریم نواز نے سکھر میں ورکرز کنونشن سے خطاب میں کہا ہے کہ کارکنوں کے جذبے کو سلام پیش کرتی ہوں عوام کا ایسا جذبہ پہلے نہیں دیکھا مشکل حالات کے باوجود عوام نے مسلم لیگ ن کا ساتھ دیا مسلم لیگ ن کے کارکنوں نے ظلم کے سامنے جھکنے سے انکار کر دیا۔  نوازشریف کے نظریے کو آگے بڑھانے پر کارکنوں کو سلام پیش پیش کرتی ہوں۔ جب بھی ملک نے ترقی کی وہ نوازشریف کا دور تھا۔ جب بھی جمہوریت کیلئے قربانیاں دینے کی بات ہو گی۔ نوازشریف کا نام آئے گا۔ مسلم لیگ ن کے دور میں غریب کا چولہا جلتا تھا۔ پہلی بار ہے کہ مسلم لیگ کے کارکنوں نے ظلم کے آگے جھکنے سے انکار کر دیا۔ غربت، مہنگائی اور بیروزگاری کے ڈیرے ہیں نوازشریف دوبارہ اقتدار میں آیئے تو ترقی کا سفر وہاں سے شروع ہو گا جہاں سے نوازشریف کے جانے کے بعد ٹوٹا تھا۔ نوازشریف نے اپنی تین حکومتیں قربان کر دیں سونامی پہلے بدنامی میں تبدیل ہوا اور اب گمنامی میں تبدیل ہو گا ملک میں جعلی تبدیلی کا سفر شروع ہوا تھا سیاسی مخالفین کو چور کہنے والا کہتا ہے۔ ہماری نہیں تھی جب پتہ تھا کہ نالائق ہو، تیار نہیں تو کیوں 22 کروڑ عوام کی قمست کے ساتھ کھلواڑ کیا؟ دوستوں کی جیبیں بھرنے کی تمہاری پوری تیاری تھی کون کہتا تھا کہ جب  ملک میں مہنگائی ہوتی ہے تو حکمران چور ہیں اپنے دفاع سے غلط فہمی دور کر لو کہ تم منتخب ہو اپوززیشن کو ضرورت نہیں کہ فوج سے کہے کہ تختہ الٹ دو اپوزیشن کے پاس عوام کی طاقت ہے کسی کو نکالنے کیلئے کسی سے کچھ کہنے کی ضرورت نہیں ہے۔ عوام کے ساتھ جو جھوٹ بولے وہ تمہارے ہی سامنے آ رہے ہیں۔ ہمیں کسی کو کچھ کہنے کی ضرورت نہیں کہ اس کو نکالو تم خود ہی کافی ہو خود کو نکالنے کیلئے۔ہمارے دو ارکان قومی اسمبلی کے استعفے کسی نے شرارت کرکے سپیکرکے پاس بھیج دیئے ہیں۔ میں سپیکر سے کہتی  ہوں کہ ان دونوں شیروں کوبلا کر پوچھ لو اور ان کے استعفے منظورکر لو۔ 

ای پیپر دی نیشن