اسرائیل مخالف نوبل انعام یافتہ پادری ڈیزمنڈ ٹوٹو انتقال کرگئے


اسلام آباد، جوہانسبرگ ( خبرنگار خصوصی+بی بی سی) نوبل انعام یافتہ، جنوبی افریقہ کے آرچ بشپ ڈیزمنڈ ٹوٹو جنہوں نے اپنے ملک کو نسلی امتیاز والے قوانین کے دور آپارتھائڈ سے نکالنے میں اہم کردار ادا کیا تھا، 90 سال کی عمر میں وفات پاگئے ہیں۔ وزیراعظم عمران خان نے جنوبی افریقہ کے سابق رہنما نیلسن منڈیلا کے قریبی ساتھی آرچ بشپ ڈیسمنڈ ٹوٹو کے انتقال پر گہری تعزیت کا اظہار کیا ہے۔ اتوار کو اپنے ایک ٹویٹ میں وزیراعظم عمران خان کا کہنا تھا کہ نیلسن منڈیلا کے قریبی اور قابل اعتماد ساتھی ڈیسمنڈ ٹوٹو جو کہ نوبل انعام یافتہ تھے، وہ نسل پرستی کے خلاف جدوجہد اور انسانی حقوق کے لئے آزادی کے علمبردار تھے۔ عمران خان نے کہا کہ قومی مفاہمت میں ان کا اہم کردار آنے والی نسلوں کے لیے مشعل راہ ہے۔ نسل پرستی کے خلاف لڑنے والے نیلسن منڈیلا کے ہم عصر، ڈیسمنڈ ٹوٹو جنوبی افریقہ میں آپارتھائڈ کے خلاف چلنے والی تحریک کے اہم ترین رہنمائوں میں سے ایک تھے۔ ڈیسمنڈ ٹوٹو جنوبی افریقہ کے آرچ بشپ تھے جن کی باغی شخصیت اور ہر وقت مسکراتے چہرے کی وجہ سے دنیا بھر میں ان کے دوست اور مداح تھے۔ انہیں نیلسن منڈیلا نے جنوبی افریقہ کے مصالحتی کمیشن کا سربراہ مقرر کیا تھا۔ ڈیسمنڈ ٹوٹو 1931 میں اس وقت ٹرانسوال نامی ایک چھوٹے سے قصبے میں پیدا ہوئے جہاں مرکزی ذریعہ معاش سونے کی کان کنی تھی۔ سکولوں میں نسلی امتیاز کی بنیاد کو متعارف کرایا۔ انہوں نے چرچ میں نوکری ملک کے بہت سے سفید فام پادریوں، خاص طور پر نسل پرستی کے ایک اور مضبوط مخالف، بشپ ٹریور ہڈلسٹن سے سخت متاثر ہو کر شروع کی۔ ان کی کوششوں کے لیے انہیں 1984 میں امن کے نوبل انعام سے نوازا گیا جس کو بین الاقوامی برادری کی جانب سے جنوبی افریقہ کے سفید فام حکمرانوں پر تنقید کے طور پر دیکھا گیا۔ جنوبی افریقہ میں چرچ کے سربراہ کے طور پر، انہوں نے نسل پرستی کے خلاف آواز اٹھانے کی مہم جاری رکھی۔ مارچ 1988 میں، انہوں نے اعلان کیا کہ ‘ہم حکومت کے بوٹوں کو صاف کرنے کے لیے ڈور میٹ بننے سے انکار کرتے ہیں۔‘ وہ اگست 1989 میں جب پولیس نے کیپ ٹاؤن کے قریب ایک ٹاؤن شپ میں چرچ سے نکل رہے لوگوں کے خلاف کارروائی کی تھی، تو وہ آنسو گیس کے بادل میں پھنس گئے تھے۔ اگلے مہینے انہیں ایک ممنوعہ ریلی سے نکلنے سے انکار کرنے پر گرفتار کر لیا گیا تھا۔ بحیثیت آرچ بشپ، جنوبی افریقہ کے خلاف پابندیوں کے لیے ان کے مطالبات پوری دنیا میں گونجے، خاص طور پر کیونکہ وہ ساتھ میں تشدد کی مکمل مذمت کرتے تھے۔ 1985 میں، ٹوٹو اور ایک اور بشپ نے بہادری اور ڈرامائی انداز میں ایک مشتبہ پولیس مخبر کو بچایا جب اس پر حملہ کیا جا رہا تھا اور اسے جنوبی افریقہ کے مرکزی شہر جوہانسبرگ کے مشرق میں واقع ایک ٹاؤن شپ میں مشتعل ہجوم نذرِ آتش کرنے والا تھا۔ اس موقع پر پادریوں نے ہجوم کو پیچھے دھکیلا اور اس زخمی شخص کو بچانے کے لیے کھینچ لیا۔ ڈیسمنڈ ٹوٹو نے بعد میں اس شخص کے حملہ آوروں پر تنقید کی اور انہیں یاد دلایا کہ ‘صادق اور منصفانہ جدوجہد کے لیے منصفانہ طریقے استعمال کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔‘ ٹوٹو نے پادریوں کی سیاسی جماعتوں میں شمولیت پر پابندی کا اعلان کیا۔ وہ اپنی رائے کا اظہار کرنے سے کبھی نہیں ڈرتے تھے۔ اپریل 1989 میں، جب وہ برطانیہ میں برمنگھم گئے، تو انہوں نے برطانیہ میں ‘دو قومیں‘ ہونے کا دعویٰ کیا اور کہا کہ ملک کی جیلوں میں بہت زیادہ سیاہ فام لوگ ہیں۔ بعد میں انہوں نے ایک کرسمس یاترا کے دوران، سیاہ فام جنوبی افریقیوں کا مغربی کنارے اور غزہ کے عربوں سے موازنہ کیا جس پر اسرائیلیوں کو شدید غصہ آیا۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ یہ نہیں سمجھ سکتے کہ جن لوگوں نے بطور یہودی مشکلات برداشت کی تھیں، وہ فلسطینیوں کو اس طرح کی تکلیفیں کیسے پہنچا سکتے ہیں۔ ڈیسمنڈ ٹوٹو نیلسن منڈیلا کے بہت بڑے مداح تھے۔ ٹوٹو اکثر ان لوگوں کی کہانیاں سن کر رو پڑتے تھے جو نسل پرستی کا شکار رہے تھے۔ ایک مرتبہ انہوں نے چرچ پر الزام لگایا کہ عالمی غربت کے خلاف جنگ پر توجہ دینے کے بجائے وہ ہم جنس پرستی کے موضوع کو ترجیح دیتا ہے۔

ای پیپر دی نیشن