نمبر 1۔ اس واقعہ کے ایک گھنٹے 20 منٹ کے اندر اس وقت انتظامیہ نے جائے وقوعہ کو دھو دیا جس نے واقعے کے فرانزک شواہد کو جمع کرنے پر منفی اثر ڈالا۔ ایسے کسی بھی واقعے کے کرائم سین کو دھونا کیس کی تفتیش میں رکاوٹ کے سوا کچھ نہیں تھا۔ اس لئے اس وقت کی انتظامیہ کا یہ عمل واضح طورپر قانون کے خلاف تھا‘ تاہم تفتیش کے اس پہلو کی جے آئی ٹی نے تفتیش کی اور ذمہ داری کا تعین کیا جس میں پتہ چلا کہ اس وقت کے سی سی پی او راولپنڈی نے اپنے ایک ایس پی کو کرائم سین کو دھونے کی ہدایت کی تھی۔ اس لئے دونوں پولیس افسران کو ملزم قرار دیکر چالان کیا گیا۔ اس وقت کی پنجاب حکومت کی جانب سے جائے وقوعہ کو دھونے کی ذمہ داری طے کرنے کیلئے بنائی گئی انکوائری کمیٹی نے بالآخر مقامی انتظامیہ کے متعلقہ افسران کو کسی بھی ذمہ داری سے بری کر دیا۔
سابق وزیراعظم کی سکیورٹی بلیو بک کے مطابق نہ تھی
نمبر 2۔ اس وقت کی حکومت/ انتظامیہ کی طرف سے فراہم کردہ سکیورٹی ناکافی تھی اور بلیو بک اور ایس او پی کے مطابق نہیں تھی۔ بینظیر کے قتل کی ایک اہم وجہ تھی سابق وزیراعظم محترمہ بینظیر شہید کو بلیو بک اور ایس او پی کے مطابق سکیورٹی فراہم نہ کی گئی تھی۔ حکومت نے انہیں اس پروٹوکول کے مطابق وہ سکیورٹی فراہم نہیں کی گئی جو بلیو بک میں سابق وزیراعظم کیلئے درج ہے۔
سی سی پی راولپنڈی کے حکم پر حفاظتی دستے کو دوران خطاب ہی دوسری جگہ تعینات کر دیا۔
نمبر3۔ شہید محترمہ بینظیربھٹو کی رہائش گاہ سے لیاقت باغ اور پیچھے تک ان کے موٹر کیڈ کی حفاظت اور محفوظ سفر کی ذمہ داری سکیورٹی اسکارٹ (حفاظتی دستے) کے ذمہ تھی مگر محترمہ شہید کے عوامی خطاب کے ختم ہونے سے قبل ہی حفاظتی دستے کو ہٹا کر دوسری جگہ منتقل کر دیا گیا۔ اس کی ذمہ داری کا تعین کیا گیا تھا۔ اس وقت کے سی سی پی او راولپنڈی ذمہ دار تھے جو سکیورٹی اسکاٹ کو وہاں ٹے ہٹا کر ڈیوٹی کیلئے دوسری جگہ پر لے گئے۔
ہنگامی منصوبہ پر عملدرآمد نہیں کیا گیا
نمبر 4۔ ہنگامی صورتحال کی صورت میں ہنگامی منصوبہ پر عمل نہیں کیا گیا اور محترمہ بینظیربھٹو کی تباہ شدہ گاڑی کو جائے وقوعہ سے مزید دور ہسپتال کی طرف موڑ دیا گیا اور ایمبولینس اور پیرا میڈیکل سٹاف کی سیکورٹی پلان میں تفصیل نہیں تھی۔
محترمہ شہید کے پوسٹ مارٹم کی اجازت نہیں دی گئی
نمبر 5۔ راولپنڈی پولیس کے اس وقت کے سی سی پی او نے ڈاکٹروں کو محترمہ بینظیر بھٹو کا پوسٹ مارٹم کرنے کی اجازت نہیں دی اور اس سلسلے میں غلط بیانات دیئے۔
سکارٹ لینڈ یارڈ پولیس کی تحقیقات کا دائرہ محدود تھا۔
نمبر 6۔ اس وقت کی وفاقی حکومت نے برطانیہ کی اسکاٹ لینڈ یارڈ پولیس کی ایک ٹیم کو مدعو کیا تھا جس کی تحقیقات کا دائرہ بہت محدود تھا۔ انہیں صرف موت کی وجہ معلوم کرنے کا کام سونپا گیا تھا۔ اگرچہ ٹیم نے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ محترمہ کو کوئی گولی نہیں لگی جس کی وجہ سے ان کی موت واقع ہوئی‘ لیکن یہ نتیجہ قطعی طورپر نہیں تھا۔
عدالت میں ملزمان کے اعترافات اور آزاد فرانزک شواہد
نمبر 7۔ درج ذیل ملزمان کے اعترافات کو عدالت میں ان کے مجرمانہ فعل کو ثابت کرنے کیلئے آزاد فرانزنک شواہد کے ساتھ ثابت کیا گیا جس میں دہشت گرد/ خودکش حملہ آور کے ذریعے استعمال کئے گئے جو گرز کا ڈی این اے بھی شامل ہے کو ملزمان سے ایک کے گھر سے برآمد ہوا تھا۔
بی بی قتل سازش کے ملزمان
قتل کیس کا ایک ملزم اعتزاز شاہ تھا جو بیت اللہ محسود کی آواز پہچانتا تھا اور اس کو تمام سازش کا علم تھا جبکہ اس سازش کا دوسرا ملزم شیر زمان بھی اس سازش میں شریک تھا اور اس کو کو بھی سازش کا علم تھا۔ حسنین گل بینظیر قتل کیس کا تیسرا ملزم تھا۔ یہ مدرسہ حقانیہ سازش کرنے والوں‘ یعنی قاری اسماعیل‘ عباد الرحمن اور نصراللہ سے رابطے میں تھا۔ اس نے ہینڈلر نصر اللہ اور خودکش حملہ آور کا پیر ودھائی بس سٹینڈ پر جا کر خود استقبال کیا اور انہیں شریک ملزم رفاقت حسین کے گھر ٹھہرایا۔ اس نے نومبر 2007ء میں ریکی بھی کروائی اور خودکش جیکٹ اپنے گھر پر رکھی۔ محمد رفاقت بی بی شہید کیس کا ایک اور ملزم تھا۔ اس نے حسنین گل کے ساتھ مل کر خودکش بمبار اور اس کے ہینڈل کو بس سٹینڈ سے اٹھایا اور رات بھر اپنے گھر میں رکھا۔ وہ نصراللہ کو بھی لیاقت باغ لیکر گیا تھا۔رشید احمد ترابی کو بھی اس منصوبے کا علم تھا اور اس سازش میں ملوث تھا۔ اس نے عبداللہ صدام‘ قاری اسماعیل‘ نصراللہ اور خودکش بمبار بلال کی بھی شناخت کی۔
پاکستان پیپلزپارٹی کی اقوام متحدہ سے انکوائری کمشن کی درخواست
اس ہائی پروفائل قتل پر پاکستان پیپلزپارٹی کی قیادت کا مؤقف تھا کہ محترمہ بینظیربھٹو کا قتل ایک وسیع تر سازشی منصوبہ کے ساتھ کیا گیا تھا جو بین الاقوامی جہت کا حامل تھا۔ اس لئے پی پی پی کی حکومت نے اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل سے دخواست کی کہ اس کیس کی تحقیقات کیلئے ایک انکوائری کمشن تشکیل دیا جائے تاکہ اس سازش کو بے نقاب کیا جا سکے۔ انکوائری کمشن نے مئی 2010ء میں اپنی رپورٹ پیش کی جس میں اس نے بنیادی طورپر اس وقت کی وفاقی حکومت کو محترمہ بینظیر بھٹو شہید کو مناسب اور مناسب سکیورٹی فراہم نہ کرنے کا ذمہ دار ٹھہرایا۔ اس نے کرائم سین کو دھونے کے حوالے سے اس وقت کی پنجاب حکومت کی طرف سے مقرر کی گئی کمیٹی کے نتائج کو بھی ناقابل اعتبار قرار دیا۔ انکوائری کمشن کے نتائج کی بنیاد پر وفاقی حکومت نے کیس کو مزید تفتیش کیلئے ایف آئی اے کو منتقل کرنے کا فیصلہ کیا اور ایک اعلیٰ اختیاراتی جے آئی ٹی تشکیل دی جس کا ذکر پہلے کیا گیا ہے۔
جے آئی ٹی رپورٹ
قتل کی سازش مدرسہ حقانیہ کے کمرہ نمبر 96 میں تیار کی گئی
جے آئی ٹی کی جانب سے کئی گئی گئی تفتیش کے نتیجے میںیہ حقائق سامنے آئے کہ سازش مدرسہ حقانیہ اکوڑہ خٹک کے کمرہ نمبر 96 مدرسے کے ایک سابق طالبعلم نے رچائی تھی۔ مدرسہ حقانیہ کا ایک سابق طالبعلم عبادالرحمن اس وقت کے ٹی ٹی پی کے سربراہ بیت اللہ محسودسے خودکش بمبار کو مدرسے میں لایا تھا اور رات بھر کمرہ نمبر 96 میں رہا۔
جے آئی ٹی نے تمام اصل ریکارڈ حاصل
جے آئی ٹی نے ان طلباء کے مدرسہ سے تصاویر‘ پتے‘ ولدیتیں اور داخلے کا اصل ریکارڈ بھی اکٹھا کیا جنہوں نے یہ سازش کی اور پھر اس سازش کو انجام دیا۔
سازش کے ملزمان نصراللہ اور عبادالرحمن کی ہلاکت
ملزم نصراللہ جو 26 دسمبر 2007ء کو راولپنڈی میں خودکش حملہ آوروں کو لیکر آیا تھا جس نے واردات کی ریکی کی تھی ،اور مدرسہ کے منصوبہ ساز اور سابق طلباء عبادالرحمن کو بعد میں قانون نافذ کرنے والے اداروں کی جانب سے الگ الگ کارروائیوں میں ہلاک کر دیا گیا تھا۔ یہ ملزمان اور ان کے ساتھی 2007ء میں مدرسہ میں مقیم تھے اور ہاسٹل میں رہائش پذیر تھے۔ ان کی ملاقات اور آپریشن پوائنٹ کمرہ نمبر 96 تھا۔
ملزمان حسنین گل اور رفاقت حسین بی بی شہید کے قتل کے درپے
ملزم حسنین گل اور رفاقت حسین‘ قریشی رشتہ دار تھے جو لال مسجد آپریشن کے بعد عسکریت پسند بن گئے ۔آپریشن کی حمایت کرنے پر یہ محترمہ بینظیربھٹو شہید کے خلاف بھی ہوگئے اور القاعدہ اور ٹی ٹی پی کے ساتھ اتحاد کر لیا۔ وہ شہید بینظیر بھٹو کے اقتدار میں آنے کو پاکستان میں طالبان کیلئے خطرہ سمجھتے تھے۔
بینظیر قتل سازش کا ایک اور ملزم عزیز اللہ (مولوی صاحب) جسے بیت اللہ محسود نے فون کیا۔ (انٹر سپیٹڈ کال سے معلوم ہوا) کہ یہ بھی اسی مدرسے کا طالبعلم تھا۔
تفتیش کے دوران جن درج ذیل مفرور ملزمان کا سراغ لگایا گیا‘ ان میں سے زیادہ تر الگ الگ اور مختلف کارروائیوں میں مارے بھی گئے۔
خودکش بمبار سعید اور بلال کو کس نے تیار کیا؟
1۔ بیت اللہ محسود نے خودکش بمبار سعید‘ بلال کو فنڈز فراہم کئے۔رفاقت حسین کوخودکش جیکٹ اور خودکش بمبار کس نے فراہم کئے؟
2۔ عبادالرحمن‘ عثمان‘ چٹان اور حسنین گل نے رفاقت حسین کو خودکش بمبار اور خودکش جیکٹ فراہم کی تھی ۔جب تفتیش کار اس کا پیچھا کر رہے تھے قبائلی علاقے میں فرار ہو گیا ۔جو بعد میں13-5-2010 کو ایک ڈرون حملے میں پراسرار طریقے سے مارا گیا۔
3۔اسی طرح عبداللہ اور صدام بھی واقعہ کی منصوبہ بندی میں ملوث تھے جنہوں نے بیت اللہ محسود سے خودکش حملہ آور منگوا کر عبدالرحمن کے حوالے کیا تھا جو 31-05-2008 کو مہمند ایجنسی میں ایک دھماکے میں ہلاک ہوئے۔
4۔ فیض محمد اور کسکت اس سازش میں ملوث تھا اور رفاقت اور حسنین گل کو خودکش جیکٹ فراہم کرنے میں ملوث تھا اور وہ بیت اللہ محسود کے بہت قریب تھا۔
بینظیر قتل کیس کا اشتہاری اکرام اللہ
5۔ اکرام اللہ۔ دوسرا خودکش حملہ آور لیاقت باغ راولپنڈی کے دوسرے گیٹ پر تعینات تھا اگر قافلہ راجہ بازار کے راستے مخالف سمت میں جاتا‘ اس نے شہید محترمہ کی گاڑی کو نشانہ بنانا تھا۔ وہ اب بھی اشتہاری مجرم ہے۔
سازش کے سہولت کاروں کی ہلاکت
7۔ نادر‘ قاری اسماعیل بازش کا مرکزی کردارتھا۔ 15-01-2008 کو مہمند ایجنسی میں مارا گیا۔ یہ دیکھا گیا کہ مرکزی ملزم جو اس سازشی منصوبے کا حصہ تھے یا سہولت کار تھے‘ بعد از کارروائی خاتمے کے منصوبے کے تحت یکے بعد دیگرے مارے گئے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ طالبان نے حکومت پاکستان کے ذریعے قطر اور مری میں افغان حکومت سے ملاقاتوں کے دوران ملزمان حسنین گل اور رفاقت حسین کی رہائی اور ملک بدری کا مطالبہ کیا تھا۔ لہٰذا یہ امر واضح طورپر طالبان/ القاعدہ کے ساتھ ان کی قریبی وابستگی کو ظاہر کرتا ہے۔
مذکورہ ملزمان کے علاوہ مسٹر سعود عزیز‘ اس وقت کے سی سی پی او اور ایس پی خرم شہزاد کو بھی ملزم کے طورپر دیکھا گیا تھا ۔جس میں ان پر سکیورٹی اسکارٹ کے انچارچ کو دوسری جگہ رپورٹ کرنے‘پوسٹ مارٹم میں رکاوٹ ڈالنے اور کرائم سین کو دھونے کی ہدایت کا الزام تھا تاہم دونوں نے بعد میں ضمانت کروالی تھی اور مقدمے کا سامنا کر رہے ہیں۔ اس وقت کے صدر جنرل (ر) پرویزمشرف کو بھی مناسب سکیورٹی فراہم کرنے میں ناکامی پر مقدمے میں ملزم قرار دیا گیا تھا۔ مسٹر مارک سیگل نے اپنے بیان میں کہا کہ محترمہ بینظیربھٹو کو ایک بار پاکستان سے جنرل پرویزمشرف کی دھمکی آمیز کال موصول ہوئی تھی۔ جب وہ اپنے دفتر میں تھیں۔ انہوں نے ان کے سامنے انکشاف کیا کہ جنرل پرویزمشرف نے انہیں خبردار کیا تھا کہ ’’ان کی سلامتی ان کے ساتھ تعاون پر منحصر ہے۔‘‘ جنرل پرویزمشرف نے واقعے کے اگلے ہی دن اس وقت کے ڈی جی / این سی ایم سی کے ذریعے ایک پریس کانفرنس کا اہتمام بھی کیا تاکہ تفتیش پر اثرانداز ہو سکے اور تفتیش کی وجہ ہٹائی جا سکے۔ تفتیش میں ضابطہ فوجداری کی سیکشن 173 کے تحت جنرل پرویزمشرف کا نام شامل کیا گیا۔ بیرون ملک سے واپسی پر ان سے پوچھ گچھ کی گئی اور ان کا بیان عدالت میں جمع کرایا گیا اور اب وہ اس کیس میں ضمانت پر ہے۔ وہ اس مقدمے کی سماعت کا بھی سامنا کر رہا ہے۔ جے آئی ٹی کی مزید تفتیش کے دوران ان تمام مشتبہ افراد سے جن کا ذکر محترمہ بینظیربھٹو نے اپنے خط میں کیا تھا‘ مکمل چھان بین کی گئی‘ لیکن ان کے قتل میں ملوث وہونے کا کوئی ثبوت نہیں ملا۔
ان کی زندگی پر کی جانے والی کوششوں کا سلسلہ اس حقیقت کی نشاندہی کرتا ہے کہ پاکستان کی سیاست کے افق پر ان کے ابھرنے کے بعد سے ہی ان پر قاتلانہ حملوں کی کوشش ہوتی رہی۔ 1993ء اور1995ء میں پنجگور بلوچستان کے رہائشی فضل حمدی‘ ابو طلحہ کو اس وقت کی فرنٹیئر پولیس (اب پختونخوا) نے دہشت گردوں سے روابط کے الزام میں گرفتار کیا تھا۔ اس نے انکشاف کیا کہ یوسف رمزی‘ کیپٹن عبدالحکیم‘ ماجد اور دیگر نے محترمہ بینظیربھٹو کے قتل کا منصوبہ بنایا تھا۔ اس کے بعد‘ سپاہ صحابہ سے کٹر وابستگی رکھنے والے عبدالشکور جو یوسف رمزی کا قریبی ساتھی تھا جسے پشاور پولیس نے ٹرین میں گولہ بارود کراچی لے جانے کے الزام میں گرفتار کیا تھا‘ اس نے تصدیق کی کہ وہ یوسف رمزی‘ کیپٹن عبدال‘ حکیم ماجد منیر‘ ابراہیم کے ساتھ قاتلانہ حملوں کی منصوبہ بندی میں شامل تھا۔ عبدالشکور کے مطابق اسامہ بن لادن نے اس مقصدکیلئے پاکستان میں مذہبی جماعتوں کو بہت زیادہ مالی امداد فراہم کی تھی۔ ایک ملزم منیر ابراہیم‘ اسامہ بن لادن اور ابو عبداللہ کی طرف سے تنخوار دار تھا۔عبدالشکور نے ایک بار پھر محترمہ بینظیربھٹوکو انتخابی مہم کے دوران نشتر پارک کراچی میں گولی مار کر قتل کرنے کا منصوبہ بنایا جس کیلئے اسلحہ خالد الشیخ نے فراہم کیا۔ جو (9/11 واقعہ کا ماسٹر مائنڈ) عبدالشکور کے ذریعے یہ اسلحہ فراہم کیا گیا تھا۔ انہوں نے اس مقصد کیلئے سکھر سے ایک ریٹائرڈ فوجی کو کرائے پر لیا۔ اس مقصد کیلئے انہوں نے سپاہ صحابہ کے امین بلوچ کی مدد لی گئی مگر کرائے کا قاتل وقت پر سکھر سے نہیں پہنچا۔ دہشت گرد 18 اکتوبر 2007ء کے جلوس میں گھسنے میں کامیاب ہوئے تو12 دسمبر 2007ء کو پبی میں بھی ایک اور قتل کی کوشش کی گئی ۔پارٹی کے کارکنوں کے اجتماع کے بعد ایک دہشت گرد محترمہ بینظیر بھٹو کی گاڑی کو چھونے میں کامیاب ہو گیا۔
کال ریکارڈ ڈیٹا کے تجزیے کے ذریعے دہشت گرد گروہوں کی نقل و حرکت پر نظر رکھنے سے اس دن نوشہرہ میں عبادالرحمن‘ نعمان‘ عثمان کی موجودگی کااشارہ ملتا ہے جوکہ ایک سخت گیر عسکریت پسند تھے۔26دسمبر 2007ء کو پشاور میںاسی دہشت گرد گروہ نے محترمہ بینظیربھٹو کا پیچھا جاری رکھا اور 26 دسمبر 2007ء کو ارباب نیاز سٹیڈیم پشاور میں جلسہ عام کے بعد ان پر قاتلانہ حملے کی سازش اور منصوبہ بندی کی۔ عبداللہ‘ سعید (لمبی گردن والے)‘ بلال اور اکرام اللہ خودکش بمبار تھے جنہوں نے بی بی کو نشانہ بنانا تھا۔ دارالعلوم حقانیہ کے طالبعلم نصراللہ اور دو دیگر افراد یہاں بھی ان کے ہینڈلر تھے۔
مقدمے کا ٹرائل
جنرل پرویز مشرف کی غیر موجودگی میں ٹرائل تقریباً 75 فیصد مکمل ہو چکا تھا‘ لیکن ان کی واپسی پر دوبارہ ٹرائل شروع کردیا گیا۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ جب مقدمہ چل رہا تھا‘ سپیشل پراسیکیوٹر چودھری ذوالفقار ایڈووکیٹ ہائیکورٹ 3 مئی 2013ء کو اس وقت قتل کر دیئے گئے جب وہ استغاثہ کیلئے عدالت جا رہے تھے۔ قاتلوں میں سے ایک عبداللہ خالد ولد کرنل (ر) خالد عباسی کو گرفتار کر لیا گیا‘ لیکن بعد میں اسے ضمانت پر رہا کر دیا گیا۔ کرنل (ر) خالدعباسی کو دہشت گردوں سے روابط کی بنا پر فوج سے نکال دیا گیا تھا۔ عبداللہ خالد اسلامک یونیورسٹی اسلام آباد میں ایل ایل بی کا طالبعلم تھا۔ دوسرے قاتل کی لاش برخائو میں القاعدہ کے ایک ساتھی کے گھر سے برآمد ہوئی۔
مقدمہ کی موجودہ صورتحال
کیس کی موجودہ صورتحال یہ ہے کہ سات ملزمان ہلاک اور آٹھ گرفتار ہوئے جن میں سے تین ضمانت پر ہیں۔ مقدمہ کی سماعت تقریباً مکمل ہو چکی ہے۔پی پی پی کی قیادت کی مسلسل کوششوں کے باوجود ملزمان کے وکلاء کی تاخیری حربوں کی وجہ سے کارروائی رکی رہی۔چودھری افتخار محمد بطور چیف جسٹس آف پاکستان ہر چیز کا از خود نوٹس لیتے رہے‘ لیکن ہماری اپیلوں کے باوجود انہوں نے شہیدبینظیربھٹو قتل کیس پر کوئی توجہ نہیں دی۔ تفتیش سے منسلک شواہد اس بات کی نشاندہی کریں گے کہ پی پی پی کے دور میں ایف آئی اے کی جے آئی ٹی نے ملزمان سے وسیع تفتیش کی تھی اور ٹیلی فون / ای ایم آئیز اور ٹاور کے مقامات کی تفصیلی فرانزک کی مدد سے ملزمان کو گرفتار کیا گیا تھا۔دستاویزی اور فرانزک شواہد کے ذریعے اس سازش میں ملوث پورے نیٹ ورک کا پردہ فاش کیا گیا جس میں ایک معروف عسکریت پسند الیاس کشمیری کے انکشافات بھی شامل تھے جو ڈرون حملے میں اپنے ایک قریبی ساتھی میجر (ر) ہارون کے ساتھ مارا گیا۔ اس بات کو بھی سراہا جا سکتا ہے کہ تمام ملزمین جو زندہ ہیں‘ پیچیدہ نوعیت کے مقدمے کا سامنا کر رہے ہیں جہاں استغاثہ ثبوتوں کے ساتھ آگے بڑھ رہا ہے تاکہ ہر ملزم کے خلاف معقول شک و شبہ سے بالاتر ہوکر ملوث ہونے کو ثابت کیا جا سکے۔
ملزمان کے موبائل فون نمبرز کے کال ڈیٹا ریکارڈ کا ڈیجیٹل فرانزک ماہرین اور فیڈرل انویسٹی گیشن ایجنسی کے سپیشل انویسٹی گیشن گروپ کے تجزیہ کار سائنسی خطوط پر کرتے رہے اگر کال ڈیٹا ریکارڈ بروقت حاصل کر لیا جاتا تو یہ بہت زیادہ تفتیشی اہمیت کا حامل ہوتا۔ پھر بھی متعدد ملزمان اور مشتبہ افراد کے کال ڈیٹا ریکارڈ کا سپیشل انویسٹی گیشن گروپ کے ماہرین نے تجزیہ کر کے سائنسی بنیادوں پر نتائج اخذ کئے۔ جس سے دیکھا جا سکتا ہے کہ ملزم جائے وقوعہ پر موجود تھے جب محترمہ بینظیربھٹو پر خودکش دھماکہ ہوا۔ اس طرح ان کے سازش میں ملوث ہونے کی تصدیق ہو جاتی ہے۔