میرے جناح

کتاب سے محبت ہمیشہ رنگ لاتی ہے وقار اصغرپیروزکی کتاب محمدعلی جناح نظر سے گزری توخوبصورت تحریر نے متوجہ کرلیا۔
زندگی کے آخری دس برسوں کے دوران قائداعظم محمدعلی جناح کی سیاسی سرگرمیوںمیںکئی گنااضافہ ہوگیاتھا۔وہ بڑھاپے کی ان سرحدوںمیں بہت پہلے داخل ہوچکے تھے جہاں انہیں آرام کی سخت ضرورت تھی۔ ان کی اہلیہ رتی کی وفات 20فروری1929کے بعد ان کی زندگی کا ہمہ وقت خیال رکھنے والی بہن فاطمہ جناح 1893-1967کو ان کی گرتی ہوئی صحت سے سخت تشویش رہتی تھی۔ ان کی خواہش ہوتی کہ ان کا بھائی چند دن آرام وسکون سے گزارے اور اپنی صحت کی طرف دھیان دے۔ ان کے ڈاکٹر انہیں آرام کا مشورہ دیتے رہتے تھے۔ محترمہ فاطمہ جناح جب بھی ان کے طویل اوقات میں کام کرنے اور ہندوستان بھر کے مسلسل طوفانی دوروں پر اعتراض کرتیں تو وہ انہیں یہ کہہ کر لاجواب کردیتے۔
کیا تم نے سنا ہے کہ کسی جنرل نے چھٹی کی ہو جب اس کی فوج میدان جنگ میں اپنا بقاء کی جنگ لڑ رہی ہو۔وہ واقعی ہندوستان میں مسلمانوں کی بقاء کی جنگ لڑ رہے تھے۔ قراردادلاہور1940کی منظوری کے بعد ان کی مصروفیات بہت بڑھ گئیں تھیں۔ انہیں رائے عامہ کو علیحدہ وطن کے حق میں استوار اور منظم کرنا تھا اس زمانے میں محدود ذرائع ابلاغ تھے۔ قومی سطح پر کوئی مسلم اخبارموجود نہ تھا جو مسلمانوں کے مفادات کا تحفظ کرتا اور ان کے احساسات کی ترجمانی کرتا۔
رائے عامہ کو ہموارکرنے کیلئے سب سے موثر اور بہتر ذریعہ عوامی اجتماعات اور جلسے تھے۔ علیحدہ وطن، تقسیم ہندوستان کا مطالبہ ہندوئوں کیلئے انتہائی حیران کن تھا۔ خود مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد کو قطعاً اندازہ نہ تھا کہ پاکستان کیا ہے؟ اس کا حصول کیسے ہو؟ اور اس کے کیا خدوخال ہونگے، انہیں شہر شہر جاکر پاکستان کا مطلب اور مفہوم سمجھانا تھا۔ ان دنوں مسلم لیگ کے پاس کوئی سیاسی سیکرٹریٹ نہ تھا اورنہ ہی انہیں سیکرٹریوں کی سہولت حاصل تھی، پاکستان کے مقدمے کو بڑھانے کیلئے وہ تن تنہا سرگرم عمل تھے۔ وہ اخبارات کے تراشے خود تراشتے۔ مسلم لیگ کی صوبائی اور ضلعی شاخوں سے خود رپورٹیں وصول کرتے۔ مخالفوں کی تقریروں اور بیانات پر نظررکھتے۔زندگی کے مختلف طبقہ کے مسلمان انہیں نئے وطن کی تفصیل کے بارے میں خطوط لکھتے۔ ان سب کو وہ مفصل اور جامع جواب دینے کی کوشش کرتے۔ طویل اجتماعات میں سیاسی ورکروں اور سیاسی لیڈروں کو پاکستان کے بارے میں مکمل جواز اوریقین بخشتے۔ اپنی تقاریر خود تیارکرتے اور اپنی تھکاوٹ سفر کے دوران کچھ اونگھ کر اورکچھ سوکر دورکرتے۔
1940ء میں ان کا قد پانچ فٹ ساڑھے دس انچ معمول کا وزن112پونڈ تھا۔ جو پاسپورٹ انہیں1946ء میں کراچی سے جاری ہوا تھا اس میں ان کا قد پانچ فٹ ساڑھے گیارہ انچ درج ہے۔ اپنی ذمہ داریوں اور مصروفیات کی وجہ سے ایک ایک اونس کرکے اپنا وزن کھو رہے تھے وہ اپنی صحت اور اس قسم کے دیگر معاملات سے قطعی طور پر بے نیازی برت رہے تھے وہ نہیں چاہتے تھے کہ اس قسم کے نجی معاملات ان کے کام میں حائل ہوں۔
نومبر1940ء میں وہ مرکزی قانون ساز اسمبلی کے اجلاس میں شرکت کیلئے بمبئی سے دہلی روانہ ہوئے۔ محترمہ فاطمہ جناح ان کے ساتھ شریک سفر تھیں۔ وہ ٹرین میں بستر پر لیٹے ہوئے تھے کہ اچانک زور سے چلائے۔ محترمہ فاطمہ جناح لپک کر ان کے پاس پہنچیں اور ان سے اس طرح بلبلا اٹھنے کی وجہ دریافت کی۔ درد کی شدت نے ان کی قوت گویائی سلب کردی ہوئی تھی، چنانچہ کچھ کہنے کی بجائے وہ انگلی سے ریڑھ کی ہڈی کے نیچے دائیں جناب صرف اشارہ کرکے رہ گئے۔ چلتی ٹرین میں طبی امداد کا ملناممکن نہیں تھا۔ چنانچہ انہوں نے درد کم کرنے کے خیال سے ان کے جسم کے متاثرہ حصے کو آہستہ آہستہ ملنا اور دبانا شروع کردیا۔ ایسے کرنے سے وہ مزیدتکلیف محسوس کررہے تھے۔ مایوس ہوکر انہوں نے یہ کوشش ترک کردی،بالآخر ٹرین ایک سٹیشن پر رکی۔ انہوں نے گارڈ سے درخواست کرکے گرم پانی کی ایک بوتل منگوائی اور اس سے درد والی جگہ پر ٹکورکیا۔ جس سے ان کا درد کسی حد تک کم ہوا۔ دہلی میں ڈاکٹر نے ان کے تفصیلی معائنے کے بعد بتایا کہ ان کے پھیپھڑوں کی جھلی پر ورم آگیاہے اور انہیں کم ازکم دو ہفتے لازمی آرام کرنا چاہیے۔ ڈاکٹر کے جانے کے بعد انہوں نے فاطمہ جناح سے کہا۔
کس قدر بدقسمتی کی بات ہے یہ اجلاس بہت اہم ہے۔ میری وہاںموجودگی نہایت ضروری ہے اور ایک میں ہوں کہ بسترمیں جبری آرام کی تعیش کا پابندکردیاگیاہوں۔
وہ بمشکل دو روز تک بستر میں رہے۔ مگراس کے بعد دوبارہ کام میںمصروف ہوگئے۔ وہ ایک انتھک اور ایک بے چین شخص تھے جو اپنی قوم کی تاریخ کے پریشان دور میں پیدا ہوئے تھے۔ وہ کام کے رسیا تھے۔ فارغ رہنا انہیں پسند نہیں تھا کام کے دوران ان پر بیمار ہونے کا شائبہ نہ ہوتا تھا مسلسل کام ان کی بیماری اورکمزوری کا اصلی سبب تھا جب بھی انہیں آرام کا مشورہ دیاجاتا تو وہ کہتے۔
مجھے بہت کام کرنا ہے، میں وقت ضائع نہیں کرسکتا۔
طویل اجتماعات اور جلسوں کے بعد اکثر وہ گھر پہنچ کر سیدھے بسترمیں لیٹ جاتے تھے ان میں لباس تبدیل کرنے کی ہمت نہ ہوتی تھی۔چندماہ بعد اپریل1941ء میںوہ بمبئی سے مدارس مسلم لیگ کے28ویں سالانہ اجلاس (منعقدہ12تا15 اپریل) میں شرکت کیلئے جارہے تھے۔ ٹرین بھی مدارس سے چند گھنٹوں کی مسافت پر تھی کہ وہ سیٹ سے غسل خانہ جانے کیلئے اٹھے مگر چند قدم چل کر نڈھال ہوکر وہ ٹرین کے چوبی فرش پر بیٹھ گئے۔ محترمہ فاطمہ جناح فوراً ان کے پاس پہنچیں اور ان سے ان کی بے ہمتی کی وجہ پوچھی تو وہ کہنے لگے۔میں بے حد کمزوری اور تھکاوٹ محسوس کررہاہوں۔مدراس میں ڈاکٹرنے معائنہ کے بعد انہیں بتایا کہ ان کو معمولی نروس بریک ڈائون ہوا ہے اس نے انہیں ایک ہفتہ کیلئے مکمل آرام کا مشورہ دیا۔
اپنی کمزوری کے باعث وہ مدارس کے افتتاحی اجلاس سے خطاب نہ کرسکے لیکن اگلے دن وہ خطاب کیلئے بضد تھے۔ محترمہ فاطمہ جناح نے ان کی ضد کے سامنے ہتھیار پھینکتے ہوئے درخواست کی کہ وہ مختصرخطاب فرمائیںگے اس کا انہوں نے وعدہ کرلیا مگرجب وہ خطاب کیلئے کھڑے ہوئے تو انہیں اپنی بیماری اور وعدہ دونوں ہی بھول گئے اور وہ دوگھنٹے سے زیادہ بولتے رہے۔

ای پیپر دی نیشن

''درمیانے سیاسی راستے کی تلاش''

سابق ڈپٹی سپیکرقومی اسمبلی پاکستان جن حالات سے گزر رہا ہے وہ کسی دشمن کے زور کی وجہ سے برپا نہیں ہو ئے ہیں بلکہ یہ تمام حالات ...