27 دسمبر2007ء کا دن کبھی نہیں بھول سکتامیں اپنے دفتر بیٹھا تھا سامنے ٹی وی چل رہا تھاکہ یہ ایک عام سا ہی دن تھا جس میں معمول کی پشہ وارانہ زمہ داریاں ادا کرنے میں جتے رہتے ہیں مگر اس روز بار بار ٹی وی کی سکرین پر نظر جارہی تھی جس کی وجہ یہ تھی کہ کئی روز سے میں خبریں پڑھ رہا تھااور ایسی زذاتی معلومات بھی مجھے ملیں تھیں جن میں کہا گیا تھا کہ محترمہ بے نظیر بھٹو کی زندگی کو خطرہ ہے اور ان کو دہشت گردی کا نشانہ بنایا جاسکتا ہے اس سے پہلے کراچی میں جب وہ دبئی سے واپس آئیں تھیں اور ان کی برس ہا برس کی جلاوطنی کا خاتمہ ہوا تھا تو ان کے استقبالی جلوس پر دہشت گروں نے خود کش حملہ کیا تھا جس میں بھاری تعداد میں معصوم پارٹی کارکن لقمہ اجل بن گئے تھے سب کو یاد ہوگا کہ ملک میں انتخابات ہونے والے تھے اور دیگر سیاسی جماعتوں کی طرح پاکستان پیپلز پارٹی کی قائد بھی انتخابی مہم پر نکلی ہوئی تھیں ان کے جلسے خاصے کامیاب گئے تھے اور بطورصحافی میرا یہ تجزیہ تھا کہ پیپلزپارٹی باآسانی الیکشن میں کامیاب ہوجائے گی، ٹی وی سکرین کی طرف بار بار دھیان اس لیے جارہا تھا کہ راولپنڈی کے مشہور لیاقت باغ میں محترمہ بے نظیر بھٹو کا جلسہ چل رہا تھا اور وہ عوام کے ایک بڑے اجتماع سے خطاب کررہی تھیں، یہ خطاب کچھ دیر تک جاری رہا اور وہ پھر سٹیج کی سیڑیاں اتر واپس جانے لگیں میں نے اپنی آنکھوں سے خود یہ ٹکیر پڑھا کہ کہ پی پی پی کی چیئرپرسن جلسہ گاہ سے روانہ ہوگئی ہیں اس پر میں نے اطمینان کا سانس لیا کہ انتخابی مہم کا آخری جلسہ بھی خیریت سے منعقد ہوگیا ہے اس دوران دفتر میں ایک دوست ملنے کے لیے آگئے اور انہوں نے چائے پینے کی خواہش ظاہر کی تو میں ہمراہ کینٹین پر چلا گیااور باتیں کرنے لگے جن کا موضو ع سیاست ہی تھی اور خاص طور پر انتخابات کے ممکنہ نتائج پر بات ہونے لگی تو میرے دوست جو کسی دوسری سیاسی جماعت کے کی جیت کے بارے میں پر امید تھے ہمارے درمیان یہ تبادلہ خیال کرتے دو چار منٹ ہی گزرے ہوں گے کہ مجھے ایک فون کال آئی جس میں کہاکہ فورن دفتر سیٹ پر آجائیں راولپنڈی میں ایک بڑا واقعہ ہوگیا ہے،میں واپس اپنی نشت پر آیا تو میں نے دیکھا کہ ٹی وی سکرین پر بریکنگ نیوز تھی کہ بے نظر پر خود کش حملہ ہوا ہے اور فائرنگ کی آوازیں بھی سنی گئی ہیں اس کے بعد کے واقعات تو ساری قوم کے سامنے ہیں جس میں پہلے اطلاعات کے مطابق محترمہ جلسہ گاہ سے چلی گئی ہیں پھر کہا گیا کہ وہ زخمی ہوئی ہیں پھر روح فرساخبر آئی کہ وہ شہیدہو گئی ہیں کہ پاکستان کی تاریخ کا بدترین سانحہ تھا یہ کہانی جو چند سطروں میں بیان کی گئی ہے یہ کوئی سادہ سی داستان نہیں ہے یہ ایک تاریخ کا ذکر ہے جو ایک المیہ سے شروع ہوئی اور سنگین المیہ پر ختم ہوئی اور اس کے اثرات آج تک محسوس کیے جاسکتے ہیں محترمہ بے نظیر بھٹو شہدایسے وقت میں عملی سیاست میں آئیں تھیں جب ان کے والد اور ملک کے پہلے منتخب وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی کی سزا دی جاچکی تھی محترمہ اور ان کی والدہ محترمہ نصرت بھٹو مسلسل مارشل لاء حکومت کی مسلسل نظر بندی کا سامنا کررہی تھیں ان کے دونوں بھائی جلاوطن ہوچکے تھے اور پارٹی کے کارکنوں کو پھانسیوں کوڑوں اور جیلوں کاسامنا کرنا پڑ رہا تھا، محترمہ بے نظیر بھٹو شہدنے ان نامساعدسیاسی حالات اور جبر کا صبر اور بہادری کے ساتھ مقابلہ کیا وہ ملک میں مزاحمت اور جرآت کا ستارہ بن کر ابھریں،حکومت کے پاس اس کے سوا کوئی چارہ نہ تھا کہ وہ انہیں بیرون ملک بھیج دیں اور سکھ کا سانس لیں یہ محترمہ بے نظیر بھٹو شہدکا بہت بڑا کارنامہ ہے کہ انہوں نے بیرون ملک ہوتے ہوئے بھی اپنے عظیم باپ کی قائم کردہ پارٹی کو بکھرنے نہیں دیا بلکہ اس وقت کی سیاست میں جو افراد پارٹی لیڈر کے طور پر بڑے معتبرسمجھے جاتے تھے وہ جب پارٹی سے الگ ہوئے یا اپنی پارٹیاں بنائیں تو حقیقی معنوں میں وہ تانگہ پارٹیاں تھیں اور وہ وقت کی گرد میں اسی گم ہوئے کہ آج ان کاکوئی نام لیوا نہیں، محترمہ بے نظیر بھٹو شہدسیاسی سوجھ بوجھ، استقامنت اور وقت کاادراک رکھنے کی صلاحیت کی بدولت وہ اپنی نوجوانی میں ہی بین الاقوامی حیثیت کی مالک بنیں، 1986ء میں جب وہ اپنی جلاوطنی ختم کرکے واپس آئیں تھیں تو لاہور اورملک کے دوسرے شہروں میں جو ان کا والہانہ استقبال ہوا تھا وہ سیاسی میراث کے ساتھ ساتھ ان کی ذہانت اور سیاسی نبض شناسی کاثبوت تھا وہ دو بار ملک کی ویزر اعظم رہیں وہ کسی اسلامی ملک کی پہلی خاتون وزیر اعظم بنیں اور دختر مشرق کہلائیں، عالمی معاملات کو درست تناظر میں سمجھنے اور ملک کے حساس ایشوز کی فہم صلاحیت نے ان کو ممتاز مقام دیا،ان کے وزارت عظمیٰ کے ادوار میں بہت سارے ایسے واقعات کا حوالہ دیاجاسکتا ہے اور ان پر نکتہ چینی بھی ہوسکتی ہے مگر ایک چیز بلاخوف تردید کہی جاسکتی ہے کہ وہ حقیقی معنوں میں وفاق کے لیے ایک زنجیر تھیں اور ملک کے کونے کونے میں مقبول تھیں اور پیپلز پارٹی ایک بار پھر کروٹ لے رہی ہے اور سیاسی حلقے اس بحث میں مصروف ہیں کہ آئندہ الیکشن میں پیپلز پارٹی غیر متوقع نتائج دے گئی۔