عثمان بزدار اور پنجاب کے بلدیاتی الیکشن

Dec 27, 2021

وزیر اعلی پنجاب جناب عثمان بزدار اور ان کی ٹیم اس حوالے سے مبارک باد کی مستحق ہے کہ انہوں نے اختیارات کو نچلی سطح تک منتقل کرنے کے لیے نہ صرف کوششیں کی ہیں بلکہ ان کوششوں کو عملی جامہ پہنانے کے لیے قانون سازی بھی کر رہے ہیں ۔ہم جانتے ہیں کہ پاکستان کی سیاسی تاریخ میں بہت سے نامور سیاست دان بلدیاتی انتخابات میں کامیابی حاصل کرنے کے بعد تحصیل ،ضلع اور پھر صوبائی و قومی اسمبلی تک پہنچتے رہے ہیں۔تجزیہ نگاروں کے مطاق بلدیاتی انتخابات حقیقت میں پہلی سیڑھی،درس گاہ اورملکی و قومی معاملات کو سمجھنے کے لیے پہلا پلیٹ فارم ہے ۔جناب عمران خان ہمیشہ سے اختیارات کو نچلی سطح تک منتقل کرنے کی بات کرتے رہے ہیں ۔ حکمران جماعت کے منشور میں مقامی حکومتوں کے ذریعے اختیارات نچلی سطح تک منتقل کرنا بھی شامل تھا۔اور اب وزیراعلی پنجاب جناب عثمان بزدار نے اپنے قائدکے ویژن کے مطابق صوبے میں موثر بلدیاتی نظام متعارف کرا کے عوام سے کیا ایک اور وعدہ پورا کر نے کی کوشش کی ہے ۔نئے بلدیاتی نظام میں آئین کے آرٹیکل140-Aکی اصل روح کے مطابق اختیارات کی نچلی سطح پر منتقلی کو یقینی بنانے کو کوشش کی گئی ہے ۔جیسے کہ اس نظام کے تحت ڈویلپمنٹ اتھارٹیز،ویسٹ مینجمنٹ کمپنیاں،پی ایچ ایز ، واساز اورپارکنگ کمپنیاں میٹروپولیٹن میئرز کے ماتحت ہوں گی جبکہ ضلعی سطح پر ہیلتھ، ایجوکیشن،سوشل ویلفیئر،پاپولیشن ویلفیئر اور سپورٹس اتھارٹیز ضلعی میئر کے ماتحت ہوں گی۔یعنی بلدیاتی اداروں کو مکمل سیاسی، انتظامی اور مالی اختیارات دئیے جائیں گے۔نئے نظام میں 11میٹروپولیٹن کارپوریشنز،35ضلعی کونسلز،شہری علاقوں میں 2385 نیبرہڈ کونسلز جبکہ دیہی علاقوں میں 3464ویلج کونسل قائم ہوں گی۔صوبے کی تاریخ میں پہلی مرتبہ ہر گاؤں میں ویلج پنجایت کونسلز تشکیل دی جائے گی جو مقامی طور پر چوکیدارہ نظام،سٹریٹ لائٹس،سینی ٹیشن اور چھوٹے موٹے جھگڑوں کے حل کی ذمہ دار ہوگی۔کیمونٹی کونسلز اور پنچائت کونسلز  کے پانچ ارکان کو دو سال کے لیے نامزد کیا جایا کرے گا۔ نئے نظام کے تحت ہر ضلع میں ڈسٹرکٹ اسمبلی قائم ہو گی۔ضلعی نمائندے اور ویلج کونسل کے نمائندے مقامی علاقوں کی ترجیحات کے مطابق ترقیاتی فنڈز کا استعمال کریں گے اور براہ راست ترقیاتی کاموں کی نگرانی کریں گے۔حکومت پنجاب کے جاری بلدیاتی آرڈیننس کے مطابق سیاسی جماعت یا آزاد افراد پینل کی شکل میں ہی الیکشن لڑ سکیں گے ایسے ہی میئر، ڈپٹی میئر اور کونسلرز کا بھی مشترکہ پینل ہوگا۔
کہا جاتا ہے کہ امیدواروں کو اتنی محنت صوبائی اور قومی اسمبلیوں کی سیٹیں جیتنے کے لیے نہیں کرنی پڑتی جتنی محنت بلدیاتی الیکشن جیتنے کے لیے درکار ہوا کرتی ہے ۔اس بارے بہت سے لوگوں کا تجزیہ مختلف ہوتا ہے ۔لیکن ایک بات طے ہے کہ پنجاب میں ووٹر کو معلوم ہے کہ یہ بلدیاتی الیکشن ووٹ اس بندے کو دینا ہے جو جیت کے بعد بھی اس کے رابطے میں ہی رہے گا ۔اس سے نہ صرف ملنا آسان رہے گا بلکہ محلے کی گلیاں اور دوسرے چھوٹے موٹے کاموں کے لیے اسے مجبور بھی کیا جاسکے گا ۔دوسری طرف صوبائی یا قومی اسمبلی کی سیٹ جیتنے والے سب سے پہلے اپنا گھر لاہور یا اسلام آباد منتقل کرتے ہیںاور پھر ہفتے بعد یا پندرہ دنوں بعد اپنے حلقے میں کچھ وقت کے لیے فوٹو سیشن کے لیے آیا کرتے ہیں ،ان کے ڈیروں پہ ان کے کارندے ہر فریادی کو تسلی دے کے ٹرخانے کی کوشش کرتے رہتے ہیں ۔بلدیاتی انتخابات کی تاریخ پر اگر غور کیا جائے تو ایک بات کھل کے سامنے آتی ہے کہ پنجاب کا ووٹر اپنا ووٹ حالات و واقعات کو دیکھتے ہوئے کاسٹ کرنے کی کوشش کرتا رہا ہے ۔بلدیاتی انتخابات میں حصہ لینے والوں کے نعرے بھی گلیاں ،نالیاں پکی کرانے اور اسی طرح ہوتے ہیں ۔اس لیے ووٹر کوشش کرتا ہے کہ اسے ہی منتخب کروائے جو جیت کے بعد حکومت سے فنڈ منظور کرواکے علاقے کے کام کروانے کی صلاحیت رکھتا ہو۔خیبر پختونخوا میں ہونے والے پنجاب میں بلدیاتی انتخابات کی تیاریاں شروع ہو چکی ہیں ۔امیدوار وں نے گلی محلوں میں اپنے دفتر آباد کرنے شروع کردئیے ہیں ۔خیبر پختونخوا کے بلدیاتی انتخابات میں شکست  کی وجہ کو تسلیم کرنا پی ٹی آئی کو پنجاب میں بہتر نتائج حاصل کرنے میں مدد دے سکتا ہے ۔ وزیر اعظم عمران خان کا بیان کہ اگر ٹکٹوں کی تقسیم میں اقربا پروری نہ کی جاتی تو ناکامی کا سامنا نہ کرنا پڑتا۔ پی ٹی آئی کو الیکشن جیتنے کے لیے جہاں بہتر لوگوں کو ٹکٹ دینے ہوں گے وہیں عام لوگوں کی مشکلات کا احساس کرتے ہوئے مہنگائی پر قابو پانے کے لیے ہنگامی بنیادوں پر اقدامات پر کچھ کر دکھانا ہوگا ۔سردار عثمان بزدار کو عام لوگوں کے مسائل کا ادارک کرنے کے لیے خود میدان میں نکلنا ہوگا اور آٹا، چینی دالیں ،گھی وغیرہ جو عام آدمی کی ضرورت ہیں ان کی قیمتیں کم کروانے کی ہر ممکن کوشش کرنا ہوگی ۔

مزیدخبریں