سماج کے ہزاروں سالوں کے نظریاتی ارتقاء کے دوران انسان نے عوام کی حکومت‘ عوام پر اورعوام کے لیے ‘‘ کے نظریہ جمہوریت کی جس طرح آبیاری کی اور سرمایہ دارانہ عہد میں جیسے اسے عروج حاصل ہوا۔ مگر افسوس کے مقابلے میں آدرش اور حقیقت ایک نہ ہو سکے ۔ طبقاتی سماج کے وجود کے نتیجے میں اہل جمہوریت اپنی تما م تر خوبصورت نعروں کے باوجود طبقاتی جمہوریت ہی رہی ہے ان کا احوال موجودہ عصر کی سیاسی رویوں اور سیاسی جماعتوں کی اپنی درون خانہ رسہ کشیوں ‘محلاتی قانون بانوں سے بخوبی لگایا جاسکتا ہے۔پاکستان میں درپیش حالیہ مالیاتی‘ غذائی پیداواری بحران کا عمیق مطالعہ کا نتائج کی اصل تصویر طاق ثریا پر مرتسم ومنتج کرتا ہے جب وسائل پیداوار پر اہل اختار کی طرف سے یہ نعرہ نہ لگایا گیا جو کہ مرکز کو مضبوط کرو‘ارباب اقتدار کے ہاتھ مضبوط کرو‘ قومی مذہبی اور قبائلی وذات برادری پر مبنی تعصبات دور کرو۔ ایک خدا‘ ایک رسولؐ‘ ایک قرآن کے نام لیوا ہونے کی حیثیت سے ایک جان ہو جاؤ‘ پاکستان کا سارا فریضہ انہی نعروں اور خیالات کا فروغ کنندہ ہے لیکن اس کی حقیقی روح سے ماری ہے اقتصادی اعدادوشمار کے ہیر پھیریں جانتے کی ضرورت نہیں آنکھوں کا خمار بتاتا ہے کہ رات کا ماجرا کیا ہے۔ ہمارے جمہوری اداروں کی آغوش میں ریاستی چھت کے نیچے استحصابی پالیسیوں کے ذریعے نئی پیداوارقوتوں کی بیخ کنی کی گئی قرض در قرض بقول غالب
قرض کی یتے ھے مکے لیکن سمجھتے تھے کہ ہاں
رنگ لائے گی ہماری فاقہ مستی اک دن
جاگیردارانہ استبدار ریاست وسیاست کو دیمک کی طرح چاٹ گیا۔ باقی مضبوط ریاستی ادارے اپنی لنگوٹ بچانے لگے ہم نے ایک نامکمل جمہوریت سے مکمل جمہوریت کی طرف سفر جاری رکھا بقول مرحوم کالم نگار تحریک پاکستان ابھی جاری ہے قیام پاکستان کے وقت یہاں سرمایہ دارانہ طبقہ نہ ہونے کے برابر تھا ۔ متحدہ ہندوستان میں 14569 کارخانے اور فیکٹریاں ایسی تھیں جہاں 20 سے زیادہ مزدور کام کرتے ہوں مزدوروں کی کل تعداد 3142000 تھی۔ پاکستان کے حصے میں 1406 فیکٹریاں آئیں ان میں 266000 مزدور کام کرتے تھے۔ ہمارا تجارتی سرمایہ دار طبقہ کمزور تھا حکومتی سطح پر جاگیرداروں اور نوکر شاہی کے رحم وکرم پر تھا۔ ہندوستان بھی کانگریس سمیت دوسری جماعتوں کی جدوجہد کے نتیجے میں جمہوری ادارے پیدا ہوئے جنہوں نے وہاں جمہوریت کو مضبوط کیا مگر ہمارے ہاں قبائلی اور جاگیردارانہ نظام میں ایسے کسی ادارے کی کوئی جگہ آج تک نہ بن سکی۔
پھر یورپی‘ امریکی سامراجیت نے وہ دن دکھایا ہے کہ ہم عوامی خوشحالی میں بنگلہ دیش سے بھی پیچھے نکل گئے سرمایہ دارانہ جمہوریت میں بھی عوام کے بنیادی حقوق کے نعرے بلند ہوتے ہیں مگر پھر ڈھاک کے وہی تین پات انقلاب فرانس کا ایک بڑا مشہور نعرہ ( آزادی ‘ مساوات‘ بھائی چارہ) آج بھی بائیں بازو کی قوتوں کو متحرک کرتا ہے سچ یہ ہے کہ حقیقی معنوں میں یہ بھی محدود ہو کر رہ جاتا ہے۔