اس شعرکے خالق شاعرسے بعد از بصد معذرت کہ اس کے ترتیب ومعانی میں اپنے مطلب کی تبدیلی لا رہا ہوں اصل شعر
ہر وقت کا ہنسنا تجھے برباد نہ کر دے
تنہائی میں کسی وقت رو بھی لیا کر
مجھے کچھ یوں کہنا ہے
ہروقت کا رونا تجھے بیمار نہ کر دے
اس ملک کے حالات پہ ہنس بھی لیا کر
اب قہقہوں کے ساتھ کریں گے علاج غم
ہم مدتوں اُداس رہے کچھ نہیں بنا
لطیفے کثیفے سنیے! کثیفہ کی وضاحت گذشتہ کالم میں کر چکا ہوں کہ لطیفہ ہنسنے ہنسانے کا مفہوم کھو کر کثیفہ یعنی بوریت میں تبدیل ہو چکا ۔ تو سننے ! یہ لطیفہ ہے یا کثیفہ اس کا فیصلہ خود کیجئے گا۔کسی باغ کے ایک درخت پر ایک طوطا طوطی محو گفتگو تھے خزاں کے دن تھے طوطا صاحب نے ارشاد فرمایا۔ باغ ویران ہو چکا اُلو بول رہے ہیں شائد انکی نحوست ہے ساتھ والے درخت پر بیٹھے اُلو نے یہ بات سن لی جب طوطا اور طوطی جانے لگے تو اُلو صاحب نے طوطی کا بازو تھامتے ہوئے حکم سنایا آپ نہیں جا سکتی طوطا سخت غصے میں بولا اُلو صاحب یہ کیا حماقت ہے اُلو نے جواب دیا طوطی میری بیوی ہے اچھا خاصا جھگڑا ہو گیا اُلو اپنی دلیلیں دے رہا تھا اور طوطا اپنی دلیلیں کہ یہ دیکھئے رنگ ڈنگ شکل صورت نسل قد کاٹھ نام ذات کسی طرح بھی اسکی آپ سے مناسبت نہیں جس کی لاٹھی اسکی بھینس جنگل کا قانون تھا آخر طے پایا کہ فیصلہ پنچائت یا قاضی شہر کے پاس لے جاتے ہیں مقدمہ بابا زحمتے کی عدالت لے جایا گیا اور اُلو مقدمہ جیت گیا فیصلہ کے مطابق طوطی اُلو کی بیوی ٹھہری اب طوطا سر جھکا ئے بڑبڑاتا ہوایہ کہتے ہوئے
سوچا تھا حاکم سے جا کر کریں گے فریاد
وہ بھی کمبخت تیرا چاہنے والا نکلا
جا رہا تھا کہ اُلو نے طوطے کی کمر تھپاتے کیا طوطے میاں اپنی بیوی لیتے جائو انتہائی رنجیدگی اور بے چارگی میں جواب دیا اب مذاق تو نہ کرو ۔اُلو نے جواب دیا بیوی تمہاری ہے بس تمہیں یہ سمجھانا اور بتانا تھا کہ ویرانی و نحوست اُلو کے بولنے یا اُلوئوں سے نہیں بلکہ ظلم و نا انصافی پر مبنی فیصلوں سے پھیلتی ہے۔
رہزن ہے میرارہبر ہے منصف ہے میرا قاتل
کہہ دوں تو بغاوت سہہ لوں تو قیامت
قاتل کی یہ دلیل منصف نے جان لی
مقتول خود گرا تھا خنجر کی نوک پر
حضرت علیؓ نے کیا خوبصورت فرمایا ’’ کفر کی حکومت رہ سکتی ہے ظلم کی نہیں‘‘ چرچل نے جنگ لڑنے سے پہلے جنگی سامان اور فوج کی تعداد کا جائزہ نہیں لیا بلکہ یہ دریافت کیا کہ ہماری عدلیہ پر انصاف اور لوگوں کا اعتماد کتنا ہے جب معلوم ہوا کہ اسی نوے فیصد اعتماد ہے تو جنگ لڑنے کا فیصلہ کیا کہ ہم جیت سکتے ہیں۔ عدل و انصاف پر مبنی ہمارا شاندار ماضی ہمیں آج دعوت ِ فکر دیتا ہے کہ ہمارے آقاﷺ نے صرف یہ ارشادمبارکہ ’’میری بیٹی فاطمہؓ بھی چوری کرتی تو اُسے بھی یہی سزا دیتا ‘‘بلکہ بیش بہا فیصلے آپﷺ کے قول مبارکہ کے شاہد ہیں حضرت عمر فاروقؓ حضرت علی ؓ کا زرہ کا کیس او ر دیگرفیصلے محمود غزنوی اور دیگر مشاہیر کے سنہری فیصلوں سے تاریخ بھری پڑی ہے۔
آج بھی ان بحرانی اور قحط الرجال کے دور میں اگر بابا زحمتے جیسے کردار موجود ہیںتوقاضی فائز عیسیٰ جیسے قابل قدروقابلِ ستائش کردار بھی تو موجود ہیں ایک اعلیٰ پولیس آفیسر نے میرے سوال کہ پولیس کرپشن میں بدنام کیوں ہے؟ پر جواب دیا کہ ہمارے پاس دو فریقین آتے ہیں جس کے حق میںہو وہ تو ہماری تعریف جابجا نہیں کرتا جسے جھوٹا قرار دیں وہ خوب پراپیگنڈہ کرتا ہے جبکہ واپڈا ٹیکس وغیرہ کا معاملہ ایک فریق کے ساتھ ہوتا ہے۔
اسی صورت حال کا ہماری عدلیہ کو سامنا ہے حالانکہ بہت سے مشکل اچھے فیصلے عدلیہ نے انتہائی مشکل حالات میں کیے ہیں۔ ہم اداروں کو حرفِ تنقید بناتے کبھی اپنے کرداروں کا بھی جائزہ لیتے ہیں؟ مقدمہ دائر کرنے سے لیکر غلط ریکارڈ غلط شواہد کس قدر پیش کرتے ہیں کبھی سوچا اور ایک مزدور کام چوری کر کے ایک تاجر ٹیچر ایک صحافی ایک آفیسر اپنے فرائض میں کوتاہی اور ملاوٹ کرنے والا کم تولنے والا کہاں کا انصاف کر رہا ہوتا ہے ۔یہ سب اپنے اپنے منصب سے روگردانی کر کے ظلم نہیں کر رہے ہوتے۔ ہماری اسی کمائی اور اسی تعلیم و تربیت اور اسی معاشرہ سے جج جرنیل اور جرنلسٹ جنم لیتے ہیں۔
ہمارا معاشرہ ماڈرن ہو گیا ۔اب جج پرانے ججز کی فوری طورپر توہین عدالت نہیں گرانتے تحمل و برداشت کا مظاہرہ کرتے ہیں پرانے ججز نہ اخبار پڑھتے نہ حالت کو پیش نظر رکھ کر فیصلے کرتے اور قانون اندھا ہونے کا تاثر دیتے۔ اب ماشاء اللہ معروضی حالات پیش نظر رکھ کر فیصلے کیے جاتے ہیں ۔اب قانون اندھا نہیں رہا اُس کے کان اور آنکھیں ہیں اور ہم ہیں کہ سرخ بتی کراس کرتے ہوئے ٹریفک کے نظام کوکو س رہے ہوتے ہیں ۔
۔لفافہ صحافیوں کو داد دیکر ظالموں بد عہدوں کرپٹ عناصر کو ووٹ دیکر عادل حکمران کی تلاش میں ہیں یعنی زہر پی کر جینے کے تمنائی ہیں کہیں ہم بھی ظالم تو نہیں اور اس ظالمانہ نظام کے کرداروں میں سے ایک کردار تو نہیںہیں اپنا گریبان ضرور جھانکیے گا۔آپ کو اپنے آپ پر ہنسی ضرور آئے گی ۔
٭…٭…٭