27دسمبر پھر آ گیا مگر بے نظیر بھٹو شہید کے قاتلوں کا سراغ نہ مل سکا۔ نہ صرف 27دسمبر پھر سے آ گیا بلکہ بے نظیر بھٹو شہید کی پارٹی ان کے قتل کے بعد ایک بار پھر اقتدار میں آ چکی ہے۔ شہید محترمہ کو مسلم لیگ ن کی طرف سے شدید اذیت میں مبتلا کیا گیا تھا۔ ان کی کردار کشی کا کوئی موقع لیگی قیادت کی طرف سے ضائع نہیں کیا جاتا تھا۔ بی بی شہید بڑے دل کی مالکہ تھیں انہوں نے بہترین قومی مفاد میں انہوں نے لیگیوں کے ظلم، جبر، ستم اور کردار کشی کے ہتھکنڈے اور ہربے فراموش کر دیئے۔ مسلم لیگ ن کیساتھ میثاقِ جمہوریت کیا اور 2008ء کے انتخابات ایک طرح ایک دوسرے کے مدمقابل ہونے کے باوجود ایک طرح سے اشتراک سے لڑے۔میاں نوازشریف اور بے نظیر بھائی بہن بن گئے۔ اور یوں بے نظیر بھٹو کے ساتھ زندگی نے وفا نہ کی کہ 27دسمبر2007ء کو انتخابات سے قبل شہید کر دی گئیں۔ نوازشریف اور زرداری اس دوران بہت قریب آ گئے تھے۔ بے نظیر بھٹو کے خون کو ووٹ ملا۔ پی پی پی جیت گئی تو زرداری صاحب نے نوازشریف کی مسلم لیگ کو بھی وفاقی کابینہ میں شامل کر لیا۔ پنجاب میں پی پی شہبازشریف کی کابینہ میں شامل ہو کر اقتدار کو انجوائے کرتی رہی مگر نظریاتی تفاوت مروت میں نہ بدل سکا اور جلد راستے جدا ہو گئے۔ میں لطیف کھوسہ کی گفتگو سن رہا تھا انہوں نے کہا مسلم لیگ کے ساتھ اتحاد بڑی غلطی ہے۔ ہمارا ورکر اس طرف جانا ہی نہیں چاہتا،بھٹو کے قاتلوں کے ساتھ نہیں بیٹھا جا سکتا۔ یہ گفتگو وہ آج کے پی ڈی ایم کا حصہ بننے کے تناظر میں کر رہے تھے۔ پی ڈی ایم کے پلیٹ فارم سے بلاول بھٹو وزیر خارجہ ہیں۔ نوازشریف لندن سے بیٹھ کر پارٹی اور حکومت چلا رہے ہیں۔ انہوں نے بے نظیر بھٹو کو ہمشیرہ بنا لیا تھا۔ بی بی کی شہادت کے بعد انکے شوہر نامدار آصف زرداری دوسری بار اور محترمہ کے منہ بولے بھائی کی پارٹی بھی دوسری بار اقتدار میں آئی مگر دونوں نے ہر دور میں بی بی شہید کے کیس کو نظرانداز اور قاتلوں تک پہنچنے سے احتراز کیا ۔ بلاول آج یومِ شہادت پر بڑی بڑی باتیں کرینگے بشرطیکہ وہ پاکستان میں ہوئے مگر اپنی والدہ کے قاتلوں تک پہنچے کی بات نہیں ہو گی۔ رحمن ملک یہ کہتے کہتے وفات پا گئے کہ سارے قاتل پکڑے گئے ہیں ۔ یہ ٹی ٹی پی کے شدت پسند تھے مگر ماسٹر مائنڈ کون تھا؟ آصف زرداری صاحب جنرل پرویز مشرف کا نام لیتے ہیں اور مشرف زرداری صاحب کو موردِ الزام ٹھہراتے ہیں۔ کیا محترمہ کا خون رزقِ خاک ہو جائیگا۔ آج تک جو کچھ سامنے آیا اس سے تو یہی لگتا ہے۔ محترمہ کے قتل کے حوالے سے میرے سینے میں بھی بڑے راز ہیں میں نے کئی بار پاکستان کی اعلیٰ عدلیہ کو آفر کی کہ مجھے اس کیس میں بحیثیت گواہ طلب کیا جائے۔
شہید محترمہ کے قاتلوں کو بے نقاب کرنے کے میرے عزم کا آغاز 20فروری 2008ء کو ہی ہو گیا تھا جب الیکشن کے دو دن بعد نومنتخب اراکینِ قومی اسمبلی و اراکین فیڈریل کونسل اور سینٹرل ایگزیکٹو کمیٹی کا مشترکہ اجلاس زرداری ہائوس اسلام آباد میں منعقد ہوا۔ اور میرے یہ الفاظ ریکارڈ کے طور پر ’’منٹس‘‘ کا حصہ ہیں۔ اس اجلاس میں اپنی افتتاحی تقریر کے دوران میں نے اپنے دوست آصف علی زرداری کو ناراض کرتے ہوئے یہ الفاظ کہہ دیئے تھے کہ ہمیںیہ غیر دائمی اقتدار قبول کرنے کی بجائے محترمہ بے نظیر بھٹو شہید کے قاتلوں کو بے نقاب کرکے کیفرکردار تک پہنچانا چاہیے اور یہ کہ زبانِ خلق پکار رہی ہے کہ شہید محترمہ کے خون کے چھینٹے زرداری ہائوس کی دیواروں پر محسوس کیے جا سکتے ہیں۔ میرا یہ کہنا تھا کہ سامعین اور منتظمین کو جیسے سانپ سونگھ گیاتھا اور میرے اس جملے کی ادائیگی کے بعد زرداری صاحب شدید جھنجھلاہٹ میں کرسیٔ صدارت چھوڑ کر عقبی کمرہ میں چلے گئے تھے۔
قارئین! جس روز شہید محترمہ کی شہادت کا دن اور وقت تھا میں انہی کے ایک کیس کے سلسلے میں سوئٹزرلینڈ جانے کے لیے ایئرپورٹ پر بورڈنگ کے مراحل طے کر چکا تھا اور جب میں چند دنوں بعد واپس آیا تو بہت سا پانی پْلوں کے نیچے سے گزر چکا تھا۔ اسی دوران دو نئے شریک چیئرپرسنز کی نامزدگی ہو چکی تھی ایک عدد وصیت بھی پیپلزپارٹی کی نئی قیادت کو سپورٹ کرنے کے لیے منظرعام پر آ چکی تھی۔ 7جنوری کو ہونے والے الیکشن 18فروری تک مؤخر کر دیئے گئے تھے اور پیپلزپارٹی کی نئی قیادت نے چالیس روزہ سوگ کا اعلان کرکے اور پاکستان کھپے کا مفاہمتی نعرہ متعارف کروا کر لاکھوں کارکنان کے جذبات پر برف ڈال دی تھی۔پیپلزپارٹی کے اندر بے شمار وہ لوگ جو شہید محترمہ کے قریبی یا انتہائی قابل اعتماد ساتھی ایک ایک کرکے خاموش کرائے جا رہے تھے۔ صاف نظر آ رہا تھا کہ نئی قیادت ان پرانے وفاداروں کو قبول کرنے کو تیار نہیں۔قارئین!میں آج پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول زرداری سے پوچھتا ہوں کہ جمہوریت بہترین انتقام ہے: ہاں
مگر عوام کے خلاف سرمایہ دار کا
پسے ہوئے طبقے کے خلاف سہوکار کا
بے اختیار عوام کے خلاف سرکار کا
محکوم سائل کے خلاف اہل روبکار کا
حقیقی قلمکار کے خلاف ’’لفافوں‘‘ کا
غربت زدہ ڈھانچوں کے خلاف زردار کا
مزدور کے خلاف ’’شریف‘‘ صنعتکار کا
کاشتکار کے خلاف شوگر ملز مالکان کا
غرضیکہ جمہوریت وہ طرز حکومت ہے کہ جس میں بے کفن مردوں کو گنا جاتا ہے دفانایا نہیں جاتا!
شہید محترمہ کا خونِ ناحق انصاف مانگتا ہے!
Dec 27, 2022