دنیا بھر میں ہسپتال مریضوں کو شفا اور زندگی دیتے ہیں لیکن پاکستان میں سرکاری اور پرائیویٹ ہسپتال موت بانٹتے ہیں اور مریضوں کے امراض میں اضافہ کرتے ہیں۔ شا ید آپکو یقین نہ آئے لیکن تحقیق کرنے پر حقائق سامنے آ جائیں گے کہ تقریباً پچاس فیصد ہسپتالوں میں مریض طبعی موت کی جگہ غیر طبعی موت مرتے ہیں۔ غیر طبعی اموات کی سب سے بڑی وجہ پاکستانی ڈاکٹروں کی نا اہلی، نا نالائقی، کم علمی، نا تجربہ کاری، غفلت اور غیر ذمہ داری۔ پہلے غیر طبعی اموات پر نو ٹس لے لیا جاتا تھاکیونکہ کسی خاندان کے ایک فرد کی غیر طبعی اور بے وقت ہلاکت پورے خاندان کی تباہی بربادی ہو تی ہے لیکن تقریباً اٹھارہ بیس سال پہلے ایک ڈا کٹر جو اُس وقت صوبائی وزیر تھے یعنی ڈا کٹر طاہر جاوید انہوں نے پنجاب اسمبلی میں یہ بل منظور کرا لیا کہ دورانِ علاج مریض مر جائے تو یہ ڈاکٹروں کی ذمہ داری نہیں ہو گی نہ ہی لوا حقین باز پرُس کر سکتے ہیں نہ قانونی چارہ جوئی کی اجا زت ہو گی۔ اس قا نو ن کے پاس ہونے سے ڈاکٹروں کو مارنے کا لائسِنس مل گیا۔ ان اٹھارہ سالوں کے اعداد و شمار اکھٹے کیے جائیں تو سینکڑوں نہیں ہزاروں مریض ناحق مر چکے ہیں اور سب کچھ سرکاری و نجی ہسپتالوں کی ملی بھگت سے ہو تا ہے۔ ہر سال سینکڑوں کی تعداد میں عوررتیں زچگی کے دوران مر جاتی ہیں حالانکہ وہ زندہ بچ سکتی تھیں لیکن گا ئنا کا لو جسٹ کی نا تجربہ کاریاں، نا اہلیاںاور پھر غیر ذمہ داری کی وجہ سے ایک عورت اپنی جان کی بازی ہار جاتی ہے۔ ایک نو زائیدہ بچہ دنیا میں آنکھیں کُھو لنے سے پہلے اپنی ماں کو کُھو دیتا ہے لیکن پاکستان کے سرکاری و نجی ہسپتالوں میں ہر سال سینکڑوں مائوں کو ڈاکٹروں کی غفلت موت کے منہ میں لیجاتی ہے۔ سرکاری ہسپتالوں میں گائنی وارڈ کا معائنہ کریں۔ مریضہ درد سے بِلک رہی ہوتی ہے اور گائناکالوجسٹ موبائل پر گپّیں لگا رہی ہوتی ہیں۔ اولاد کا نہ ہونا بھی پاکستان میں ایک جرم اور گناہ ہے۔ ایک امیر کبیر پچیس سالہ عورت نے پرا ئیویٹ ہسپتال سے بچہ ہونے کے علاج کے لیے آپریشن کرایا۔ لیڈی ڈاکٹر جس طریقے سے ڈا کٹر بنی تھی۔ اُس کا اندازہ صرف اس بات سے لگا لیں کہ اُس نے یوٹرس ٹھیک کرنے کے بجائے اُس صحتمند عورت کے پیٹ میں بڑی آنت کاٹ دی جس سے وہ ہنستی مسکراتی عورت ہمیشہ کے لیے معذور ہو گئی۔ یہ وا قعہ تو سب جانتے ہیں کہ ہمارے انتہائی جوان، ہونہار، صحتمند کولیگ رمان احسان کے سر میں درد ہوا۔ وہ اپنے کسی عزیز کو دیکھنے لاہور کے انتہائی مشہور پرا ئیویٹ ہسپتال گئے تھے۔ انہوں نے سو چا ڈا کٹر سے سر درد کی دوا لے لوں لیکن ڈا کٹر نے انھیں ٹیسٹ اور ایم آر آئی بتا یا۔ رمان احسان نے اگلے دن ٹیسٹ کرائے۔ ڈا کٹر نے کہا کہ بس دس منٹ کا آپریشن ہو گا۔ آپ ہمیشہ کے لیے ٹھیک ہو جائیں گے۔ اُس نے ہنستے مسکراتے آپریشن ٹھیٹر گیا اور و ینِٹی لیٹر پر واپس آ یا۔ ایک ماہ اُس کی ڈیڈ باڈی کو ونٹی لیٹر پر ڈا لے رکھااور لاکھوں کا بِل بنا دیا۔ آخر کار بیوہ نے تڑپ کر شوہر کی لاش واپس لے لی۔ میرے والد جنھیں شوگر کے علاوہ پھیپھڑوں میں شدید تکلیف تھی۔ اُنکا دو ماہ پرا ئیویٹ ہسپتال میں علاج کرایا۔ جب وہ بلکل جاں بلب ہو گئے تو کہا کہ اب انکا علاج سرکاری ہسپتال میں ممکن ہے۔ سروسز ہسپتال میں لے گئے جہاں ڈا کٹر گپ شپ میں مصروف تھا۔ میں نے دو تین بار ڈا کٹر کو کہا۔ میرا چہرہ اپنے والد پر جھُکا ہوا تھا۔ اچا نک ڈا کٹر نے مجھے پہچان لیا اور بھاگا ہوا آیا لیکن دیر ہو چکی تھی۔ میر بابا اپنی دو معصوم چھوٹی بیٹیوں کی شادی کئے بغیر چلے گئے۔ میری امی با لکل صحتمند سرخ سفید اور ٹھیک تھیں۔ صبح انھوں نے کندھے میں درد بتا یا۔ کارڈیالوجی لے کر گئے۔ ڈا کٹر بار بارڈھیر ساری دوائیں منگا لیتی اور نرسیں بہانے سے اٹھا کر لے جاتیں۔ بہن نے کہا کہ درجنوں انجکشن اور ہزاروں کی دوائیاں منگا ئی ہیں لیکن چوبیس گھنٹے میں صرف ایک انجکشن اور تین گو لیاں دی ہیں۔ جب دوائی نہیں دے رہے تو اتنی ساری دوائیاں کیوں منگوا رہے ہیں۔ جس لیڈی ڈا کٹر سے کہا۔ اُس نے پُول کھلنے کے ڈر سے امی کہ غلط انجکشن لگا دیا اور فوراً ایمرجینسی میں شفٹ کرا دیا۔ امی با لکل ٹھیک ٹھاک اپنے پائوں پر چل کر ہاسپٹل گئی تھیں لیکن تین دن میں اتنے انجکشن لگا ئے گئے۔ انھیں تین دن میں پانچ بار شفٹ کیا گیا۔ انھیں کو ئی مسئلہ نہیں تھا لیکن تیسرے دن انہوں نے میری ماں کی لاش ہاتھ میں دے دی۔ جو نہی میں ہاسپٹل میں آئی تو ایم ایس، ایچ او ڈی اور دس بارہ ڈا کٹر میرے گرد جمع ہو گئے اور اسے رضائے الٰہی قرار دیکر مجھے تسلیاں دینے لگے۔ میں اُس وقت صدمے کی وجہ سے ڈا کٹروں کی مکاری ، خباثت کو نہیں سمجھ سکی کہ وہ میری ماں کے قا تل ہیںجس موت کو وہ اللہ کی مرضی کہہ رہے ہیں۔ کارڈیالوجی ایک انتہائی حساس ادارہ ہے لیکن یہاں بھی دو نمبر، ناقص، زنگ آلود سٹنٹ آج بھی ڈا لے جاتے ہیں جن کی اصل قیمت چند سو روپے سے زیادہ نہیں لیکن اسکے ڈ ھائی تین لاکھ سے زیادہ مریض سے و صول کیے جاتے ہیں۔ دل کے مریضوں کے ساتھ پاکستان کے سرکاری اور پرائیویٹ ہسپتالوں میں جو سنگین جرائم ہو رہے ہیں۔ اُس پر پاکستانی ڈا کٹروں کو سخت سزا ہو نی چا ہیے۔ سرکاری ہسپتالوں میں ڈا کٹر مریضوں کو اپنے کلینک یا پرائیویٹ ہاسپٹل ریفر کرتے ہیں جہاں ہزاروں لاکھوں روپے بٹورتے ہیں۔ کینسر کاعلاج سو فیصد دس لاکھ میں ممکن نہیں لیکن پاکستان میں کینسر کا پرا ئیویٹ ہسپتا لوں میں علاج ساٹھ ستر لاکھ میں کر کے مریض کو فقیر بنا دیا جاتا ہے۔
وزیر اعلیٰ چو ہدری پرویز الٰہی کو چا ہیے کہ ہسپتالوں میں ہونیوالی مبینہ غفلت، بد عنوانی، مار د ھاڑ اور لوٹ مار کا نوٹس لیں۔ کو ئی سرکاری ڈا کٹر کسی پرا ئیویٹ ادا رے میں دورانِ ڈیوٹی نوکری کرے تو اُسے سرکاری جاب سے فارغ کردیں۔ غیر ضروری اور بلا جواز ٹیسٹ پر جرمانے کیے جائیں۔ مریض کی بے وقت موت پر سخت انکوائری کی جائے۔ غیر طبعی موت کے نتیجے میں ڈا کٹر کا لائسنس منسوخ کیا جائے اور عمر قید کی سزا دی جائے۔
سرکاری اور پرا ئیویٹ ہسپتالوں میں ماردھاڑ!!
Dec 27, 2022