عالم اسلام کی پہلی منتخب وزیراعظم بے نظیر بھٹو کی شہادت کو 15 سال گزر گئے۔ ان کی شہادت سے پاکستان ایک عالمی مرتبے کی رہنما سے محروم ہو گیا۔ یوں سب سے بڑا نقصان پاکستان کا ہوا اور سب سے زیادہ فائدہ پاکستان کے دشمنوں کو ہوا۔ وہ نہ صرف وفاقِ پاکستان کی علامت تھیں بلکہ عوام کی امنگوں کا بھی مظہر تھیں۔ بی بی شہید حقوقِ نسواں کی بہت بڑی علمبردار تھیں۔ اگر وہ آج ہوتیں تو حالات مختلف ہوتے۔ 1992ء میں ایک خاتون چولہا پھٹنے سے جھلس گئی۔ اس واقع کا وزیراعظم بے نظیر بھٹو نے سخت نوٹس لیا۔ اس خاتون کو لاکھوں روپے خرچ کرکے بیرون ملک بھیجا اور ان کا تسلی بخش علاج ہوا۔ اگر بی بی زندہ ہوتیں تو ملکی حالات بہتر ہوتے۔ دہشت گرد نہ دندناتے پھرتے، ان کی شہادت سے ہمیں بحیثیت قوم بھی بڑا نقصان ہوا۔ 2007ء عجیب سال تھا۔ بی بی نے اس سال وطن واپسی کا فیصلہ کیا اور بی بی کی زندگی سے واپسی کا سال بھی ثابت ہوا۔ شاید ان کا روحانی احساس تھا کہ انھوں نے 21جون کو سالگرہ نہیں منائی تھی۔
محترمہ بے نظیر بھٹو واپسی کے خیال سے بے حد خوش تھیں ان کے دل میں یہ تڑپ تھی کہ وہ جلد پاکستان جائیں ،اپنے عوام سے ملیں، والد اور بھائیوں کی قبر پر جا کر ان کی مغفرت کے لیے دعامانگیں اور ان کی بے چین روح کو قرار آئے۔ شاید ان کے لاشعور میں تھاکہ وہ بھی ان کے پاس چلی جائیں گی اور ان کے بعض اقدامات اس حقیقت کے غماز تھے۔ 2007ء میں میں لاہور میں تھا۔ مجھے بی بی نے کہا کہ میں یکم جون کو دبئی آ جائوں ۔ مجھے دبئی جانے میں دس دن کی تاخیر ہوگئی۔ بی بی نے شکوہ کیا کہ مجھے جلدی آنا چاہیے تھا۔ یہ دن بہت مصروفیت کے دن ہوں گے۔ دبئی جانے سے قبل چیچہ وطنی سے سابق رکن اسمبلی بیگم شہناز جاوید نے مجھے کہا کہ یوسف رضا گیلانی صاحب مجھ سے ملنا چاہتے ہیں۔ ایک شام گلبرگ میں بیگم شہناز کی رہائش گاہ پر وہ تشریف لائے۔ بی بی یوسف رضا گیلانی کی بہت عزت کرتی تھیں۔ انھوں نے پانچ سال جیل کاٹی لیکن جنرل مشرف کے ساتھ سمجھوتہ نہ کرکے قابلِ تقلید مثال قائم کی تھی۔
گیلانی صاحب کی یہ جائز شکایت تھی کہ پنجاب کے صوبائی صدر شاہ محمود قریشی پارٹی امور میں ان سے مشورہ نہیں کرتے اور ان کے علم کے بغیر اپنی مرضی سے جلسے کرتے ہیں۔ اس سلسلہ میں رحیم یار خان میں جلسہ کا حوالہ دیا۔ انھیں یہ بھی شکوہ تھا کہ پارٹی کے سینئر وائس چیئرمین ہونے کے باوجود انھیں نظرانداز کیا جارہا ہے۔ گیلانی صاحب نے کہا کہ بے نظیر بھٹو نے شاہ محمود قریشی کو پنجاب کا صدر بنانے کا فیصلہ کیا تو بی بی نے فون پر میری رائے پوچھی۔ میں نے بخوشی ان کے فیصلہ کو تسلیم کیا تھا۔ یوسف رضا گیلانی کی یہ شکایت بتا دی۔ انھوں نے اس ضمن میں پنجاب قیادت کو ضروری ہدایات دیں کہ آئندہ یوسف رضا گیلانی سے مشاورت کی جائے۔
جون کے ان ایا م میں دبئی میں کافی گہماگہمی تھی، پارٹی کے کئی اہم رہنماوہاں آئے ہوئے تھے اور پارٹی ٹکٹ کے حصول کے خواہش مندوں کا میلہ لگا ہوا تھا۔ پاکستان پیپلزپارٹی کی دبئی شاخ نے مقامی ہوٹل میں بی بی کی سالگرہ کی تقریب کا اہتمام کیا۔ سالگرہ کی یہ تقریب ان کی تاریخ پیدائش سے چند دن پہلے منعقد ہوئی۔ اس میں پارٹی کے مقامی کارکنوں کے علاوہ پاکستان سے آئے ہوئے بعض مہمان شریک تھے۔ سیکرٹری جنرل جہانگیر بدر اپنے بیٹے کے لیے صوبائی ٹکٹ کے خواہش مند تھے۔ دونوں کے بیٹوں کو صوبائی اسمبلی کے ٹکٹ دیے گئے اور دونوں ہی ہار گئے تھے۔بی بی کی بچپن کی سہیلی سمیعہ وحیددبئی آئی ہوئی تھیں۔ وافی شاپنگ مال میں اپنے پسندیدہ ریسٹورنٹ میں سالگرہ کا لنچ دیا ۔ اس میں میرے علاوہ سمیعہ وحید ان کی بہن عظمیٰ شریک ہوئے۔ ہم نے بی بی سے پوچھا سالگرہ لنچ پہلے کیوں؟ آئندہ دنوں بہت مصروف ہوں اس فراغت سے فائدہ اٹھانا چاہتی ہوں۔
پہلا موقع تھا کہ بی بی نے اپنا یومِ ولادت 21 جون کو نہیں منایا۔ بی بی نے بتایا کہ وہ 21 جون کو سالگرہ نہیں منا رہی ہیں۔ اسکی وجہ انھوں نے اپنی مصروفیات بتائیں۔ بے نظیر بھٹو 25 جون کو دبئی سے لندن چلی گئیں کچھ دن بعد 28 جون کو میں بھی لندن آگیا۔ بی بی نے لندن میں بہت مصروف وقت گزارا۔ آئندہ انتخابات کے لیے پارٹی کے امیدواروں کے فیصلے کیے۔ پاکستان واپسی کا بھی اعلان کیا، الوداعی بھرپور پریس کانفرنس میں ملکی حالات کے بارے میں سوالات کے جوابات دیے اور واقف کار چند صحافیوں کو انٹریو بھی دیے۔ بی بی کی واپسی کے سلسلے میں ان کا پولیٹیکل سٹاف پیش پیش تھا۔ ان کی کوشش تھی کہ واپسی کی تاریخ افشا نہ ہو اور طے شدہ تاریخ کا مناسب وقت پر اعلان کیا جائے۔بی بی کی واپسی پر ان کی سکیورٹی کے بارے میں میرے کچھ تحفظات تھے ان کا اظہار کرتے ہوئے میں نے کہا کہ کہیں عمر بھر خدانخواستہ پچھتانا نہ پڑے اور پھر وہی ہوا جس کا خدشہ تھا۔
بے نظیر بھٹو واحد قومی رہنما تھیں جو پاکستان کا ایجنڈا لے کر آگے چل سکتی تھیں۔ وہ تمام دنیا میں جانی پہچانی شخصیت تھیں۔ اگر زندہ ہوتیں تو دنیا بھر میں تمام سیاسی حلقوں میں ایک نمایاں آواز ہوتیں، لہٰذا اس آواز کو دبا دیا گیا۔ بے نظیر بھٹو مفاہمت پر یقین رکھتی تھیں۔وہ لوگوں کو قریب لانا چاہتی تھیں۔ ان کی تحریریں ان کی شخصیت کے اس پہلو کی آئینہ دار ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ہر وقت مثبت اندازِ فکر اپناناچاہیے۔ بلاول بھٹو زرداری اپنی والدہ کے مشن کی راہ پر گامزن ہیں اور پاکستان کے نقش کو عالمی سطح پر اجاگر کر رہے ہیں۔ یقینا بی بی شہید اپنے ہونہار بیٹے کی سیاست میں پیش قدمی پر نازاں ہوں گی۔ اس مشن میں جو خطرات درپیش ہیں بلاول بھٹو کو ان کا ادراک ہے۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ بھٹو خاندان کا خطرات و مشکلات کا بہادری سے سامنا کرنا طرۂ امتیاز ہے اور وہ بے دھڑک خطرناک حالات کا سامنا کر سکتے ہیں۔