پندرہ برس بعد بھی بی بی شہید دلوں کی ملکہ ہیں 


پاکستان اور عالم اسلام کی پہلی خاتون وزیر اعظم بے نظیر بھٹو شہید کبھی بھی ہماری یادوں سے محو نہیں پائیں ۔وہ ایک عظیم خاتون تھیں ان کے ساتھ رہتے ہوئے ہم نے سیاست کے اسرار و رموز سیکھنے کے ساتھ انسانیت کی تعظیم و تکریم سیکھی۔ بی بی شہید جیسا نہ کوئی تھا اور نہ کوئی آئے گا۔ پاکستان میں جمہوریت اگر آج قائم ہے تو وہ بی بی شہید کی قربانیوں اور جد و جہد کی مرہونِ منت ہے۔ بی بی شہید ایک ایسی نابغۂ روزگار شخصیت تھیں جن کی جمہوریت کے لیے طویل جدجہد اور قربانیاں پاکستانی عوام کبھی فراموش نہیں کر سکیں گے۔ وہ دنیا بھر میں ایک بہترین مدبر کے طور پر جانی جاتیں تھیں، دنیا کی بہترین یونیورسٹیاں اور ادارے انھیں اپنے ہاں لیکچر کے لیے مد عو کرتے تھے، ان کے فہم و بصیرت سے دنیا آگاہ تھی لیکن ہمارے ہاں کے ظالموں، شر پسندوں اور انتہا پسندوں نے ایک عہد کو شہید کیا ایک تاریخ مٹانے کی کوشش کی لیکن آج پندرہ برس بعد بھی دنیا بھر کے میڈیا اور عوام میں انھی کا تذکرہ ہے وہ دلوں کی ملکہ ہیں۔ ان پر کتابیں لکھی گئیں اور لکھی جارہی ہیں۔ کیا یہ رتبہ کسی اور کو ملا؟ وہ ایک تاریخ ساز شخصیت تھیں جو تاریخ میں امر رہیں گی۔ 
سترکی دہائی میں جب پاکستان میں ابھی ذوالفقارعلی بھٹو کی حکومت تھی تو بے نظیر اپنی تعلیم مکمل کرنے کے بعد واپس وطن لوٹیں۔ اس کے کچھ ہی عرصے بعد جنرل ضیاء الحق نے مارشل لاء لگادیا اور ذوالفقارعلی بھٹو شہید کی حکومت ختم کردی گئی۔ بے نظیر اور چند دیگر اہل خانہ کو پہلے نظربند اوربعد میں باقاعدہ گرفتارکر لیا گیا۔ مارشل لاء کے دوران سیاسی آزادی کی جدوجہد ان کی قائدانہ صلاحیتوں کا منہ بولتا ثبوت ہے کہ کس طرح تب ایک لڑکی نے تن تنہا ایک پورے نظام سے ٹکر لینے کی کوشش کی۔ مارشل لاء کی وجہ سے ان کے بہت سے رفقاء ان کا ساتھ چھوڑ چکے تھے لیکن اس صورتحال میں بھی پیپلز پارٹی کے نوجوان کارکنوں کی ایک بڑی تعداد اپنی اس نوجوان رہنما کے ساتھ رہی اوریوں اس دور میں پاکستان کی نوجوان نسل کو ایک نیا ویژن ملا۔بے نظیر بھٹو شہید نے اپنی جوانی کے دور میں بہت سے مسائل کا سامنا بھی کیا جیسے گرفتاری کے دوران ان کو اپنے والد سے ملاقات کی اجازت نہ ملنا، نظر بندی، قتل کی دھمکیاں اورقید وبند کی صعوبتیں۔ جن حالات کا بی بی شہیدکو سامنا رہا ان کی وجہ سے ان کے مخالفین کو بھی ان کی بہادری کا قائل ہونا پڑا۔
 انھیں 27 دسمبر 2007ء کو راولپنڈی میں ایک جلسے کے بعد ایک خودکش حملے میں شہید کر دیا گیا۔ یہ شہادت ان کی نہیں تھی ایک عہد کو ماردیا گیا۔بے نظیر بھٹو شہید پاکستان کی پہلی خاتون وزیر اعظم تھیں۔ وہ سابق صدر پرویز مشرف کے دور حکومت میں طویل جلاوطنی کے بعد 18 اکتوبر 2007ء کو وطن لوٹی تھیں۔ بے نظیر بھٹو کا شاندار استقبال اس بات کا جیتا جاگتا ثبوت تھا کہ وطن عزیز سے ایک دہائی کی غیر موجودگی کے باوجود ان کی مقبولیت میں کمی نہیں بلکہ اضافہ ہوا۔ اپنے استقبال کے لیے آنے والے کارکنوں کو انھوں نے اپنی دمکتی چمکتی مسکراہٹ اور ہاتھ ہلا کر وش کیا۔ سارے راستے ایک عجیب والہانہ پن تھا۔ دبئی سے کراچی پہنچنے پر ہزاروں افراد ان کے استقبال کے لیے ایئرپورٹ پہنچے۔ وہ ایئرپورٹ سے اپنی رہائش گاہ کو لوٹ رہی تھیں کہ راستے میں ان کے قافلے کو خودکش بمباروں نے نشانہ بنایا۔ اس حملے میں سو سے زائد افراد جاں بحق ہوئے تھے جبکہ بے نظیر بھٹو محفوظ رہی تھیں۔ وہ 2008ء کے عام انتخابات میں حصہ لینے کے لیے اپنے وطن لوٹی تھیں۔ اسی حوالے سے 27 دسمبر 2007ء کو انھوں نے راولپنڈی میں ایک انتخابی جلسے سے خطاب کیا۔ ان کی گاڑی جلسہ گاہ سے نکل رہی تھی کہ ایک خود کش دھماکا ہوا۔ اس حملے میں بے نظیر بھٹو شہید ہو گئیں اور ملک تاریکی میں ڈوب گیا۔
 27 دسمبر 2007ء کو جب بے نظیر لیاقت باغ میں عوامی جلسے سے خطاب کرنے کے بعد اپنی گاڑی میں بیٹھ کر اسلام آباد آ رہی تھیں کہ لیاقت باغ کے مرکزی دروازے پر پیپلز یوتھ آرگنائزیشن کے کارکن بے نظیر بھٹو کے حق میں نعرے بازی کر رہے تھے۔ اس دوران جب وہ پارٹی کارکنوں کے ساتھ اظہارِ یکجہتی کے لیے گاڑی کی چھت سے باہر نکل رہی تھیں کہ نامعلوم شخص نے ان پر فائرنگ کر دی۔ اس کے بعد بی بی کی گاڑی سے کچھ فاصلے پر ایک زوردار دھماکا ہوا جس میں ایک خودکش حملہ آور جس نے دھماکا خیز مواد سے بھری ہوئی بیلٹ پہن رکھی تھی، خود کو دھماکے سے اڑا دیا۔ اس دھماکے میں بے نظیر بھٹو جس گاڑی میں سوار تھیں، اس کو بھی شدید نقصان پہنچا لیکن گاڑی کا ڈرائیور اسی حالت میں گاڑی کو بھگا کر راولپنڈی جنرل ہسپتال لے گیا جہاں وہ زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے یہیں انھوں نے شہادت کارتبہ پایا اور تاریخ میں امر ہوگئیں۔جب ہسپتال کے باہر بی بی کی موت کا اعلان کیا گیا تو وہاں کھڑے ہجوم کے منھ سے ایک آہ نکلی۔وہ حیران اور غمزدہ بھی تھے کہ ایک اور بھٹو نے پرتشدد موت کو گلے لگا لیا۔
بی بی کے والد ذوالفقار علی بھٹو شہیدکو فوجی حکومت نے پھانسی دے دی لیکن دنیا نے انھیں شہید کہا۔ ان کے ایک بھائی شاہنواز زہر کی وجہ سے موت ہوئی اور دوسرے بھائی مرتضی کی گولی لگنے سے موت ہوگئی۔ بے نظیر بھٹو شہید کی شہادت کے بعد ان کی جماعت کی قیادت ان کے بیٹے بلاول بھٹو زرداری کو سونپ دی گئی تھی جبکہ پاکستان کے سابق صدر آصف زرداری پارٹی کے شریک چیئرمین مقرر کیے گئے تھے جنھوں نے بڑے احسن انداز میں پارٹی کے امور کو آگے بڑھایا۔ پاکستان پیپلز پارٹی اپنے بانیوں کی عظیم قربانیوں کا نام ہے جسے کوئی کبھی ختم نہیں کر سکتا۔ آئیے ہم ان کے مشن کی تکمیل کے لیے بلاول بھٹو زرداری اور آصف علی زرداری کی قیادت میں اپنا تن من دھن سب قربان کریں، کسی غیر آئینی اقدام کا حصہ نہ بنیں، جمہوریت کے تسلسل پارلیمنٹ کی بالادستی اور قانون کی حکمرانی کے لیے ہر سطح پر اپنا کردار ادا کریں۔ یہی ایک طریقہ ہے بی بی شہید کو خراج عقیدیت پیش کرنے کا۔

ای پیپر دی نیشن

آج کی شخصیت۔۔۔۔ جبار مرزا 

جب آپ کبھی کسی کے لیے بہت کچھ کہنا چاہ رہے ہوتے ہیں لفظ کہیں بھاگ جاتے ہیں ہمیں کوئی ایسے الفظ ملتے ہی نہیں جو اس شخصیت پر کہہ ...