ان الفاظ کی گونج کبھی ختم نہیں ہوئی،نہ کبھی ہوسکے گی۔ پاک فوج کے ایک کور کمانڈر نے سینہ چوڑا کرتے ہوئے کہا کہ جو طاقت بھی پاک فوج سے ٹکرانے کی کوشش کرے گی، اسے سختی سے کچل دیا جائے گا۔ یہ ہے وہ سبق جوبنوں میں دہشت گردی کے واقعے سے پاک فوج نے اخذ کیا۔ یہ سبق پاک فوج کی نس نس میں رچا بسا ہے، لال مسجد میں چھپے ہوئے دہشت گردوں نے ریاستِ پاکستان سے ٹکرانے کی کوشش کی تو پاک فوج نے قیمتی جانوں کا نذرانہ دے کر اس دہشت گردی کا قلع قمع کیا۔ دہشت گردی کے حوادث کا یہ سلسلہ پچھلے دو عشروں پر پھیلا ہوا ہے۔ سوات کے شہروں میں لوگوں سے بھرے ہوئے چوک کے اندر بے گناہوں کی گردنیں کاٹنے کا سلسلہ شروع ہوا،پاک فوج نے جانوں پر کھیل کر سوات اور مالاکنڈ کو خطہ امن میں تبدیل کردیا ۔ دہشت گردوںنے قبائلی علاقوں کی سنگلاخ چٹانوں کے پیچھے مورچہ بندی کی، پاک فوج نے انتہائی دلیرانہ کردار ادا کرتے ہوئے باری باری علاقوں میں دہشت گردوں کا صفایا شروع کیا، بالآخر دہشت گردوں کا جمگھٹاشمالی وزیرستان میں پناہ لینے پر مجبور ہوا تو پاک فوج نے ضربِ عـضب آپریشن کا آغاز کیا ۔
بیس برس پر محیط اس خونی عرصے میں دہشت گردوں نے پاکستانی قوم کا خون چوسنے میں کوئی کسر نہ چھوڑی۔ کبھی مارکیٹوں پر حملے توکبھی مسجدوںمیں بم پھٹے، کبھی امام بارگاہوں کو نشانہ بنایا گیا، کبھی مزاروںاور جنازوں کو بھی بخشا نہ گیا، اسکولوں میں بچوں کو بھیڑ بکریوں کی طرح ذبح کیا گیا ۔ بیس سال کی اس دہشت گردی میں 80ہزار پاکستانیوں کی شہادتیں ہوئیں، پانچ ہزارسے زائد اعلیٰ فوجی افسران و جوانوں کو شہید کردیا گیا۔ پاکستانی معیشت کو ڈیڑھ سو ارب روپے کا نقصان پہنچایا گیا۔ پاکستان کا ماننا ہے کہ دہشت گردی کی اس لہر کے پیچھے بھارت کی خفیہ ایجنسی ’را‘ کے ایجنٹ سرگرمِ عمل ہیں جنھیں افغانستان میں موجود امریکی اور نیٹو افواج کی سرپرستی حاصل رہی ہے ۔ طرفہ تماشا یہ ہے کہ پاکستان ایک طرف تو سنگین دہشت گردی کا نشانہ بنا اور دوسری طرف پاکستان پر امریکا کا الزام تھااور بھارت بھی اس پروپیگنڈے کو خوب ہوا دے رہا تھا کہ پاکستان درپردہ حقانی نیٹ ورک کو امریکا کے خلاف لڑنے کی تربیت دے رہا ہے ۔ پاکستان نے نیٹو سپلائی کے لیے زمینی راستے بھی فراہم کررکھے تھے اور ڈرون حملوں کے لیے ہوائی اڈے مگر پھر بھی پاکستان سے ’ڈو مور‘ کا مطالبہ کیا جاتا تھا ۔
پاک فوج نے شجاعت کے بے مثال جوہر دکھائے اور اپنی پاک سرزمین سے دہشت گردی کی تمام جڑیں کاٹ کر رکھ دیں اورپاکستان میں راوی ہرسو چین لکھنے لگا۔ پاکستانی قوم بلاخوف و خطر مارکیٹوں اور بازاروں میں ہجوم کرنے لگی، سرکاری دفاتر میں گہماگہمی واپس آئی ۔ اسکولوں، کالجوں ، یونیورسٹیوں میں تعلیم وتدریس کا سلسلہ پھر سے شروع ہوگیا۔ پاکستان کی شاہراہیں اور ریلوے ٹریک ہر لحاظ سے محفوظ اور پرامن بنادیے گئے۔ پاکستان نے دہشت گردی کے خلاف جنگ دنیا کو جیت کر دکھائی ۔دوسری طرف، امریکی اور نیٹو فورسز ملکوں ملکوں دندنا رہی تھیں مگر ہر جگہ شکست سے دوچار ہوتی پھریں۔ کابل سے امریکی افواج کی واپسی ایک شرمناک شکست کے مترادف تھی ۔ امریکا نے اپنی کمزوری کو چھپانے کے لیے ایک دفعہ پھر پاکستان کو موردِ الزام ٹھہرایا کہ اس کی وجہ سے اسے شکست کا سامنا کرنا پڑا۔
پاکستان بڑی حد تک مطمئن تھا کہ افغانستان سے بھارت کا اثر ورسوخ ختم ہوگیا اور دہشت گردی کے ٹریننگ کیمپ بند ہوگئے تاہم پاکستان کو طالبان کی اس پالیسی کی سمجھ نہیں آسکی کہ کالعدم تحریکِ طالبان سے پاکستان خود مذاکرات کرے اور قیام ِ امن کے لیے ان کے ساتھ مذاکرات کی میز پر بیٹھے۔ پاکستان نے جائز طور پر افغان طالبان سے مطالبہ کیا کہ وہ اپنی سرزمین پاکستان کے خلاف دہشت گردی کے لیے استعمال نہ ہونے دیں مگر طالبان حکومت نے ایسی کوئی ضمانت دینے سے گریز کی پالیسی اختیار کررکھی ہے ۔ اب تو نوبت یہاں تک آن پہنچی کہ افغان فورسز پاکستانی پوسٹوں پر حملے کرنے لگ گئی ہیں۔ افغانستان کے طول و عرض میں پھیلے ہوئے کالعدم تحریکِ طالبان کے لشکر پھر سے پاکستان کے قبائلی علاقوں کا رخ کررہے ہیں ۔ یہ صورتحال پاکستان کے لیے کسی بڑے چیلنج سے کم نہ تھی کہ اسی دوران بنوں کے سی ٹی ڈی سینٹر میں طالبان قیدیوں نے پاکستان کے سکیورٹی عملے کو یرغمال بنالیا جس پر عالمی سطح پر پاکستان کا تمسخراڑایا گیا،امریکا نے پیشکش کی کہ وہ اس دہشت گردی پر قابو پانے کے لیے مدد کرنے پر تیار ہے ۔ پاکستان میں فوج کا مخالف طبقہ سوشل محاذ پر ڈٹ کر کہنے لگا کہ دہشت گردی کا قلع قمع کرنے کے پاک فوج کے دعوے کھوکھلے ثابت ہوئے ہیں۔
اس ففتھ جنریشن وار میں پاک فوج کو چاروں اطراف سے نشانہ بنانے کی کوشش کی گئی مگر یہ باتونی لشکر پاک فوج کی پیشہ ورانہ صلاحیتوں سے آگاہ نہ تھا۔ پاک فوج کے بہادرجوانوں نے اپنی دلیرانہ تاریخی روایات کے مطابق بنوں کے دہشت گردوں کے خلاف آپریشن کیااور نہ صرف ان کو قیدی بنالیا گیا بلکہ یرغمالی عملے کو بحفاظت چھڑوالیا گیا۔ سوشل میڈیا پر پاک فوج کے خلاف بگٹٹ گھوڑے دوڑانے والے میجر شبیر شریف شہید (نشانِ حیدر)، میجر عزیز بھٹی شہید (نشانِ حیدر)، حوالدار لالک جان شہید (نشانِ حیدر)،کرنل شیرخان شہید (نشانِ حیدر) کی جرأت مندانہ روایات کو بھول گئے۔ انھیں پاک فوج کے ایک کور کمانڈر کے ان الفاظ کا مطلب سمجھنے میں کوئی غلطی نہیں کرنی چاہیے کہ پاک فوج سے جو بھی ٹکرانے کی کوشش کرے گا، اسے کچل کر رکھ دیا جائے گا!