بانی پاکستان قائدِ اعظم ؒ کا ایمانی کردار ....2


 کوئی مسلک بھی قرآن میں بیان کردہ بنیادی اصولوں سے انحراف نہیں کر سکتا۔ اس لیے میں نے قرآن و سنت کے بنیادی اصولوں کو پاکستان کے آئین و قانون کا ماخذ بنانے کا فیصلہ کیا ہے۔ تاکہ کو فروعی اور مسلکی اختلاف ہمارے درمیان جنم نہ لے سکے۔ قائد اعظم ؒ فلاحی مسلم ریاست کے لیے متعدد ہدایات جاری کیں حتی کہ م±سلمانوں کو بار بار اپیل کر کے بھی فلاحی ریاست کی طرف توجہ دلائی فرمایا کہ 
"میں آپ سے اپیل کرتا ہوں کہ اپنے لوگوں کی اجتماعی بھلائی کے لیے متحد رہ کر تکالیف اور م±شکلات کو خندہ پیشانی سے برداشت کریں اور کسی بھی قسم کی قربانی دینے سے دریغ نہ کریں ۔اگر انفرادی اور مجموعی طور پر آپ اپنی قوم اور اپنی ریاست کی اجتماعی بھلائی کے لیے اپنا اپنا حصہ ڈالیں گے تو جتنی بھی پریشانیاں ہوں یا جس قدر بھی محنت کرنی پڑے یا جیسی بھی قربانی ادا کرنی پڑے وہ زیادہ نہیں ہے اور اس سے ہرگز پیچھے نہ ہٹیں۔کیونکہ یہی وہ طریقہ ہے جس سے آپ پاکستان کو دنیا کی پانچویں بڑی ( اسلامی و فلاحی ) ریاست کے طور پر استوار کر سکیں گے، نہ صرف آبادی کے لحاظ سے ہی نہیں بلکہ طاقت کے لحاظ سے بھی، تاکہ یہ ( ریاستِ پاکستان ) دنیا کی دیگر تمام اقوام کے لیے احترام کا ح±کم دے اور د±نیا کی رہنمائی کرے۔ ان الفاظ کے ساتھ ہی میں آپ کے لیے نیک خواہشات کا اظہار بھی کرتا ہوں۔"قائد اعظم ؒ نے پاکستان کے لیے جو راہیں متعین کی تھیں اور جو فکر و عمل قوم کو دیا تھا اگر ا±س پر عمل کیا ہوتا تو آج پاکستان د±نیا کی “رہنمائی” کر رہا ہوتا۔ آج بھی ہم بابائے قوم کے بتائے گئے اصولوں پر عمل کر کے اور طے کیے گئے خطوط پر چل کر چند سالوں میں ہی اقوام عالم کے رہنما بن سکتے ہیں۔ اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے قیام کے وقت جو تقریر بابائے قوم نے کی تھی وہ تقریر ہی ہمارے معاشی قوت بنے اور پاکستان کے ہر شہری کی م±شکلات کا مسلمہ حل ہے 15 جولائی 1948 کو کراچی میں اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے افتتاح کے موقع پر بانءپاکستان قائد اعظم محمد علی جناحؒ نے اپنے خطاب میں فرمایا:”میں اشتیاق اور دلچسپی سے معلوم کرتا رہوں گا کہ آپ کی ”مجلسِ تحقیق“ بینکاری کے ایسے طریقے کیونکر وضع کرتی ہے جو معاشرتی اور اقتصادی زندگی کے اسلامی تصورات کے مطابق ہوں۔ مغرب کے معاشی نظام نے انسانیت کے لیے لاینحل مسائل پیدا کر دیے ہیں اور اکثر لوگوں کی یہ رائے ہے کہ مغرب کو اس تباہی سے کوئی معجزہ ہی بچا سکتا ہے۔ مغربی نظام افرادِ انسانی کے مابین انصاف کرنے اور بین الاقوامی میدان میں آویزش اور چپقلش دور کرنے میں ناکام رہا ہے، بلکہ گزشتہ نصف صدی میں ہونے والی دو عظیم جنگوں کی ذمہ داری سراسر مغرب پر عائد ہوتی ہے۔ مغربی دنیا صنعتی قابلیت اور مشینوں کی دولت کے زبردست فوائد رکھنے کے باوجود انسانی تاریخ کے بدترین باطنی بحران میں مبتلا ہے۔اگر ہم نے مغرب کا معاشی نظریہ اور نظام اختیار کیا تو عوام کی پرسکون خوشحالی حاصل کرنے کے اپنے نصب العین میں ہمیں کوئی مدد نہیں ملے گی۔ اپنی تقدیر ہمیں منفرد انداز میں بنانی پڑے گی۔ ہمیں دنیا کے سامنے ایک مثالی معاشی نظام پیش کرنا ہے جو انسانی مساوات اور معاشرتی انصاف کے سچے اسلامی تصورات پر قائم ہو۔ ایسا نظام پیش کر کے گویا ہم مسلمان کی حیثیت میں اپنا فرض سرانجام دیں گے۔ انسانیت کو سچے اور صحیح امن کا پیغام دیں گے۔ صرف ایسا امن ہی انسانیت کو جنگ کی ہولناکی سے بچا سکتا ہے، اور صرف ایسا امن ہی بنی نوع انسان کی خوشی اور خوشحالی کا امین ہو سکتا ہے۔“ملک کی معیشت کو اسلامی اصولوں پر ا±ستوار کرنے کا ح±کم دیکر قائد اعظم نے اسلامی فلاحی ریاست کی مضبوط بنیاد رکھی لیکن بدقسمتی سے بابائے قوم کی یہ آخری تقریب ثابت ہوئی اور اس کے بعد ا±ن کی صحت سنبھل نہ سکی۔ ا±متِ م±سلمہ کے اس عظیم لیڈر قائد اعظم محمد علی جناح ؒ کو د±نیا کی کوئی طاقت شکست نہ دے سکی ماسوائے موت کے ۔ اور بالآخر 11 ستمبر کو بانءپاکستان ( مامور مِن اللہ ) بابائے قوم قائدِ اعظم محمد علی جناحؒ د±نیا سے رحلت فرما گئے۔ موت چونکہ ح±کم الہی تھی اس لیے “قائدِ اعظم” نے بَسر و چشم ا±س کے آگے سر جھکایا ورنہ د±نیا کی کوئی طاقت ہمارے عظیم قائد کو ج±ھکا نہ سکی ۔(ختم شد)

ای پیپر دی نیشن