پاکستان کا ساحل خاصی اہمیت کا حامل ہے اور یہ خلیج فارس اور خلیج عدن کے قریب واقع ہے۔ اس کے جغرافیائی محل وقوع اور چین کے ’بیلٹ اینڈ روڈ‘ (BRI) منصوبے میں شراکت داری کے با عث یہ بحر ہند کے رابطے استوار کرنے میں ایک اہم کردار ادا کرے گا۔ سی پیک نے بحر ہند میں پاکستان کی اہمیت کو مزید بڑھادیا ہے۔اس حقیقت کو تقویت دینے اور بحر ہندسے تعلق رکھنے والے ممالک کے ساتھ قریبی تعلقات قائم کرنے کے لئے اس پیمانے کی بحری مشقوں کے باقاعدہ انعقاد کی ضرورت ہے۔ انڈین اوشن ریجن ایسوسی ایشن (IORA) جوکہ ایک متحرک بین الاقوامی تنظیم ہے جس کا مقصد بحر ہند کے خطے میں علاقائی تعاون اور پائیدار ترقی کوپروان چڑھانا ہے۔ اس تنظیم میں 22 ممبران اور 9 مکالمہ شراکت دار ہیں جو سا ل میں ایک یا زائد بار ملاقات کرتے ہیں۔ یہ تنظیم وسیع تر شعبوں بشمول سمندری تحفظ، تجارت اور سرمایہ کاری کی سہولت، ماہی گیری کے انتظام، آفات کے رونما ہونے پر انتظام، سیاحت، ثقافتی تبادلے، تعلیم، سائنس اور ٹیکنالوجی،بلو اکانومی اور خواتین کو معاشی بااختیار بنانے پر کام کرتی ہے۔ اگرچہ بڑے پیمانے پرمنعقد بحری مشقیں جیسے کہ مشق امن23-خودبھی بہت اہمیت کی حامل ہوتی ہیں، لیکن IORA ایک زیادہ بڑا پلیٹ فارم ہے چونکہ اختیارات کا فیصلہ وزرائ ِ خارجہ کی کونسل کے پاس ہوتا ہے۔ جیسا کہ امر معلوم ہے کہ فوجی تعاون ہمیشہ مضبوط اور قابل اعتماد ہوتا ہے اگراس کے ساتھ متعلقہ خارجہ پالیسیاں بھی اسی ضمن میں ہوں۔
یہ تضاد کی بات ہے کہ ایک طرف، ہندوستان بحر ہند کے ساحل پر گوادر میں چین کو سہولت فراہم کرنے پرپاکستان کو ایک ’سہولت کار ‘کے طور پر لیبل کرتا ہے (ہندوستانی تعریف کے مطابق چین بحرِہند کا نہیں بلکہ بیرونی ملک ہے) کیوں کہ اس کا کہنا ہے کہ بحرِہند اپنے نام کی وجہ سے ہندوستان کا حصّہ ہے۔ لیکن دوسری طرف، چین کیIORAمیں مکمل رسائی کی حمایت کرتا ہے اور ساتھ ہی سہولت کار پاکستان کی رکنیت کی مخالفت کرتا ہے۔ یہ کھیل اب کافی عرصہ کھیلا جا چکا ہے اوراب اسے ختم ہونا چاہئے۔بحر ہند کی ملکیت کے بارے میں ہندوستان کے غلط تصورات کا مقابلہ کرنے کے لئے مضبوط سفارتکاری کے ساتھ ہماری رکنیت سازی کے معاملے کو بھرپور طریقے سے چلانے کی ضرورت ہے۔ یہ واضح کرنے کی ضرورت ہے کہ بحر ہند میں روابط کے سلسلے میں زمین پر کوئی طاقت پاکستان کو اہم کردار ادا کرنے سے نہیں روک سکتی۔ پاکستان کا بحرِہند سے ناگزیر تعلق ہے اور اس بنیادی حقیقت کو تسلیم کیے بغیر کوئی رابطہ ممکن نہیں ہے۔اس سے پہلے بھی یہ کہا جا چکا ہے کہ جبوتی ایک مسلم اکثریتی ملک ہے جس کی بناءپرپاکستان بحری اور روایتی سفارت کاری کے ذریعے ا±س خطے میں آسانی سے داخل ہوسکتا ہے اور امن یا جنگ کے دوران ا±سے اپنے فائدے کے لیے استعمال کرسکتا ہے۔چین کے سی پیک کی افریقی براعظم میں دخول اور جبوتی میں اس کی موجودگی سے پاکستان کو وہاں قدم جمانے کا موقع مل رہا ہے جس سے ہمارے سمندری مفادات کو محفوظ رکھنے میں مدد ملے گی۔ ترکی جبوتی میں ایک فوجی اڈہ قائم کرنے پر غور کررہا ہے اور ہندوستان کی جانب سے سفارت خانہ قائم کرنے کی اطلاعات ہیں۔ ان پیشرفت کی اہمیت بہت زیادہ ہے پاکستان اس ابھرتے ہوئے منظر نامے سے غافل نہیں رہ سکتا ہے۔ہارن آف افریقہ اور اس کے قریب کے علاقوں میں اسرائیل کے پھیلتے سفارتی نقوش، اور اس خطے میں انٹیلیجنس حاصل کرنے کے نیٹ ورک کے قیام کے بعد اس کے اسٹریٹجک اتحادی امریکہ کی مضبوط صلاحییتں بھی اس کے ساتھ شامل ہوں گی اوربالآخر سی پیک کے گوادر سے نکلنے والے بحری راستوں کو لاحق خطرات بڑھیں گے بحرِ ہند کی ملحقہ ریاستوں کو جنگ کے نئے دور کے آغاز کی توقع رکھنی ہوگی جس سے ڈیجیٹلائزیشن کے اثرات کو غیر متوقع طریقوں سے فروغ ملے گا، جسے کچھ لوگ چوتھا صنعتی انقلاب بھی قراردیتے ہیں۔ مہلک ہتھیار جیسے کہ سپر کیویٹیٹنگ ٹارپیڈو، کافی عرصے سے موجود ہیں لیکن ایسے ہتھیار جو لانچ ہونے کے بعد اپنے حدف کا فیصلہ خود کرتے ہیں ا±ن کے بننے میں بس ایک دہائی کا وقت باقی ہے۔اس طرح کی پیشرفت اورکچھ ممالک کے ناپاک عزائم مل کر انسانیت کی اجتماعی بھلائی کے لئے صدیوں سے قائم سمندروں کے استعما ل کے اصولوں کو ختم کردیں گے۔
پاکستان خطے کے دیگر ممالک کی طرح تاریخی سمندری روایات نہیں رکھتا ہے اور ہماری ساحلی پٹی پر کم آبادی اور ا±ن کی دگرگوں معاشی صورتحال معاشی تبدیلی کی کسی بھی کوشش کی تائید کرنے سے قاصر ہے۔ تاہم، ہمارے مفادات کے لئے سمندری وسائل کو استعمال کرنے کے لئے آگہی میں اضافہ کے ذریعہ ایک آغاز کیا جاسکتا ہے۔باقاعدگی سے امن سیریز کی مشقوں کے انعقاد سے ہماری اکثریتی زمینی آبادی میں سمندرکے بارے میں شعور اجاگرکیا جاسکتا ہے تاکہ ہماری قومی معیشت کے کچھ متعلقہ طبقات کو یکجا کرکے ’بلیو اکانومی‘ کو فروغ دیا جائے۔ اب وقت ہے کہ شمال سے جنوب تک۔ کاشغر سے گوادر تک - اور مزید جنوب میں بحر ہندتک جہاں گہرا سبز ساحلی پانی فیروزی رنگ میں بدلتا ہے، وہاں تک نئے مواقع تلاش کیے جائیں۔(ختم شد)