کردار بھی بینظیر شہادت بھی بینظیر
تحریر نذیر ڈھوکی
بھٹو خاندان کا داستان کوئی محض لوک داستان نہیں ہے بلکہ ایسی داستان ہے جس کے چشم دید گواہ کروڑوں لوگ ہیں۔ ایک جیالے کے ناطے میری یہ ایمان دارانہ رائے ہے کہ عوام کے محبوب قائد ذوالفقار علی بھٹو شہید نے وقت کے سفاک آمروں کے انتہائی توہین آمیز سلوک کا ایک سال 9 ماہ تک ڈٹ کر سامنا کیا مگر محترمہ بینظیر بھٹو شہید کا واسطہ ایسے وحشی ٹولے سے پڑا جس کے خلاف وہ مسلسل گیارہ سال تک دہشت اور عسکریت پسندی کی مزاحمت کرتی رہیں۔ محترمہ بینظیر بھٹو شہید نے سیاست میں اس وقت قدم رکھا جب ملک پر اقتدار کے لالچی ٹولے نے قبضہ جما رکھا تھا اپنے ہی ملک کو گروی رکھ کر بدلے میں اقتدار کے مزے لوٹ رہے تھے۔ اس وقت آمریت کی دہشت نے جیتے جاگتے کروڑوں انسانوں کے ملک کو خاموش قبرستان میں تبدیل کر دیا تھا۔ آمریت کی دہشت کا عالم یہ تھا کہ پیپلزپارٹی کے جیالوں کے قریبی رشتہ دار بھی ان سے فاصلہ رکھ رہے تھے تاکہ آمریت کی بھڑکائی ہوئی دہشت کی آگ کی تپش ان تک نہ پہنچے۔ محترمہ بینظیر بھٹو شہید نے جب عملی سیاست میں قدم رکھے تو ان کے والد قائد عوام بھٹو شہید کا عدالتی قتل ہو چکا تھا آمروں کی قیدی تو وہ پہلے ہی تھیں ، انسانی دل رکھنے والے ہی اس منظر کو سمجھ سکتے ہیں کہ وہ منظر کیسا ہوگا جب ایک بیٹی کو ان کے والد کا لباس اور استعمال کی چیزیں پیش کرتے ہوئے بتایا گیا ہوگا کہ آپ کے والد کو پھانسی دے دی گئی ہے اور انہیں گڑھی خدا بخش بھٹو کے قبرستان میں دفن کر دیا گیا ہے حالات کا جبر ایسا تھا کہ سہالا سب جیل میں قید بیگم نصرت بھٹو اور محترمہ بینظیر بھٹو شہید کو پرسہ دینے والا کوئی نہیں تھا میں نہیں جانتا کہ اس وقت منظر کیا تھا مگر یہ احساس ضرور ہے کہ جب قیدی بیگم نصرت بھٹو اور محترمہ بینظیر بھٹو ایک دوسرے کے گلے مل کر روئی ہونگی تو نا صرف پرندے بلکہ مارگلہ کے پہاڑ بھی ضرور روئے ہونگے۔ اقتدار کے لالچی اور سفاک ٹولے نے سمجھ لیا ہوگا کہ ان کی دہشت سے ڈر کر محترمہ بینظیر بھٹو شہید بیرون ملک چلی جائیں گی اور وہ کسی رکاوٹ کے بغیر اقتدار پر قابض رہیں گے مگر محترمہ بینظیر بھٹو شہید ان کے عزائم کو ناکام بناتی رہیں ۔ محترمہ بینظیر بھٹو شہید نے جب جیل کو اپنا گھر بنایا تو جیالوں کے لئے تختہ دار بھی پرکشش بن گیا، مجھے اچھی طرح یاد ہے پھانسی کی سزاپانے والے ایک جیالے ایاز سموں سیان کی آخری خواہش پوچھی گئی تو انہوں نے کہا میری آخری خواہش یہ ہے میں اپنی بہن بے نظیر بھٹو کو کوئی خوشی دے سکوں در اصل محترمہ بینظیر بھٹو شہید کی بہادری اور ثابت قدمی دیکھ کر جمہوریت کے پروانوں کوایک حوصلہ عطا ہوتا ،وطن کی مٹی آپ سے محترمہ بینظیر بھٹو جیسی بہادری کا تقاضا کرتی تھی ۔ وہ نہ جیل سے ڈرتی تھیں نہ بندوقوں سے۔ محترمہ بینظیر بھٹو کی بہادری اور جدوجہد دیکھتے ہوئے دنیا بھر میں آزادی کی تحریکوں کو بڑا حوصلہ ملا۔ اگر قائد عوام ذوالفقار علی بھٹو شہید کے عدالتی قتل کے بعد محترمہ بینظیر بھٹو شہید جلاوطنی قبول کرلیتیں تو اقتدار پر قابض ٹولہ انہیں بلا کسی تاخیر کے جلاوطن کر دیتا مگر انہوں نے قیدرہنا قبول کیا۔ ملتان کے ایئر پورٹ پر انہیں بالوں سے پکڑ کر گھسیٹا گیا جو اس بات کا ثبوت تھا کہ اقتدار پر قابض ٹولہ کتناسفاک ،بے رحم اور بے شرم تھا۔ جنرل ضیاء جس نے مذہب کا لبادہ اوڑ رکھا تھا نے جبر کے تمام ہتھکنڈے استعمال کرنے میں کوئی عار نہیں سمجھی مگر جیالے ان کے لیئے لوہے کے چنے ثابت ہوتے رہے مجھے یہ کہنے میں کوئی ڈر یا خوف نہیں کہ اس وقت کا نظام عدل بھی اقتدار پر قابض ٹولے کاحاشیہ بردار بنا رہا ۔
اپریل 1986 میں جب لاھور شہر میں ملک کے کونے کونے سے انسانوں کا سیلاب امڈ آیا اگر محترمہ بینظیر بھٹو شہید چاہتی تو وہ لاکھوں انسانوں کے سمندر کا رخ ملک پر قابض ٹولے کے قلعے کی طرف موڑ دیتیں۔ مگر وہ کسی سے انتقام لینا نہیں چاہتی تھیں ان کا انتقام جمہوریت کی بحالی تھا۔ محترمہ بینظیر بھٹو شہید نے ظلم کرنے والوں کو قدرت کے انصاف پر چھوڑ دیا اور اس میں کوئی شک بھی نہیں کہ قدرت نے ان سے انصاف کیا اور بے مثال انصاف کیا اس نے محترمہ بینظیر شہید کے مجرموں کو تاریخ کے کوڑے دان میں پھینک دیا۔ غور طلب پہلو یہ ہے شہید محترمہ بینظیر بھٹو کی لڑائی ہمیشہ ان عناصر سے رہی جو بندوق کی نوک پر فیصلہ چاہتے تھے۔ 18 اکتوبر 2007 کو جب 8 سال کی جلاوطنی کے بعد وطن واپس آئیں تو انہیں ان عالمی غنڈوں کا سامنا کرنا پڑا جو ہمارے ہاں مقتدر قوتوں کے پالے ہوئے سانپ تھے ۔ محترمہ بینظیر بھٹو شہید کے راستے میں قدم قدم پر بارود بچھایا گیا مگر وہ عسکریت پسندوں سے ڈریں نہ بارود بچھانے والوں سے بالآخر انہیں اس شہرراولپنڈی میں 27 دسمبر 2007 کو سر عام قتل کر دیا گیا جہاں ان کے والد قائد عوام بھٹو کا 28 سال قبل عدالتی قتل ہوا تھا۔؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛