اصغر شاد
21 جون 1953ء کا دن ہے جب نصرت بھٹو کے ہاں بچی کی پیدائش ہوئی دوسروں کی نسبت بچی کی دادی یعنی ذوالفقار علی بھٹو کی والدہ اس کی پیدائش پر بے حد خوش تھیں۔ بتایا جاتا ہے کہ اس خوشی کے پس پردہ ماضی کا اِک دکھ پنہا ںہے جب ان کی اپنی بیٹی کا کم عمری میں ہی انتقال ہو گیا تھا مگر نومولود پیدائش نے ان کی ضعیف العمری میں ایک تحریک پیدا کر دی وہ نچلی نہیں بیٹھ رہی تھیں جیسے انہیں آج پھر اپنی بیٹی واپس مل گئی، مسز بھٹو کے چہرے پر تفکرات ہر کوئی محسوس کر سکتا تھا۔
بھٹو بچی کی پیدائش پر اتنے ہی خوش تھے جتنے شاید بیٹے کی پیدائش پر بھی نہ ہوئے تب تو ان کی خوشی دیدنی تھی جب بھٹو کہتے ’’مجھے تو بیٹی ہی چاہئے تھی، یہ میری پیاری بیٹی ہے…!‘‘
بینظیر بھٹو اب پوری فیملی کی آنکھ کا تارا بن چکی تھیں وہ ایسے ماں باپ کی اولاد تھی جو نا صرف بہت خوبصورت، دلکش، ذہین بلکہ ہر دلعزیز شخصیات تھیں، ذوالفقار علی بھٹو نے دنیائے علم کی بے مثال درسگاہ کرس چرچ آف آکسفورڈ یونیورسٹی سے بیرسٹر کی ڈگری حاصل کی تھی۔ بھٹو اور نصرت ایسا جوڑا قرار پایا جسے امریکہ کے سابق صدر کینیڈی اور مسز کینیڈی کا ہم پلہ قرار دیا جانے لگا تھا۔ معصوم محترمہ بینظیر بھٹو اپنے اہلخانہ کے ہمراہ شام کو باغیچہ میں کھیلتی اور اٹھکیلیاں بھرتی توجہ کا مرکز بنی رہتیں، ہر شخص اس سے پیار کرتا اس کے دادا جان اس کو گھنٹوں کھلاتے اسے اٹھائے اٹھائے پھرتے حتیٰ کہ گھر کے قریبی سٹور تک لے جاتے اور ڈھیروں کھلونے اس کو لے کر دیتے تھے یہ سب اِک زندہ دل خاندان کے ہاں پائی جانے والی زندگی کے اثرات تھے۔ بینظیر بھٹو کی پیدائش کے ساتھ ہی ذوالفقار علی بھٹو بھی دھیرے دھیرے بین الاقوامی شخصیت کے طور پر ابھرنا شروع ہو گئے تھے۔ جب 1957ء میں ابھی بینظیر کی عمر محض چار سال ہی تھی اور ابھی وہ نرسری کی طالب علم تھی، ذوالفقار علی بھٹو کو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں پاکستان کا نمائندہ مقرر کر دیا گیا یہ بذات خود کتنی بڑی کامیابی تھی اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ وہ شاید محض تیس سال کی عمر میں اتنے بڑے اعزاز کو حاصل کرنے والے پہلے شخص تھے جنہوں نے اپنی لیاقت، ذہانت، انداز گفتگو اور اظہار خیال کے منفرد انداز سے ساری دنیا کی نگاہیں اپنی جانب مرکوز کرا لی تھیں۔ ساری عالمی برادری اور میڈیا کے ہاں وہ زیر بحث تھے۔ انہوں نے اپنی جادوئی شخصیت کا ایسا ساحرانہ اثر چھوڑا کہ بس…!
بینظیر بھٹو نے بچپن میں جہاں انتہائی اعلیٰ معیاری درسگاہ کا نونٹ آف جیسس اینڈ میری سے ابتدائی تعلیم حاصل کی وہاں اپنے خاندان کی مذہبی روایات کے پیش نظر دینی تعلیم کا بھی ان کے لئے بہت مناسب بندوبست کیا گیا تھا، ہر روز مولوی صاحب انہیں قرآنی تعلیمات سے روشناس کراتے اور انہیں اسلام کی افادیت اور اہمیت سے آگاہی دلاتے یہی وجہ ہے کہ بچپن کی ہی اس تعلیم کے پیش نظر انہوں نے شاید ہی کبھی نماز یا روزے سے ارادتاً اجتناب برتا ہوا نہیں وہ دن بخوبی یاد ہیں کہ جب ان کی والدہ اور وہ اکٹھے نماز فجر ایک ہی مصلے پر ادا کرتیں اور خدائے بزرگ و برتر کے حضور سربسجود ہوتی تھیں لیکن بچپن کا تصور یا خاکہ اس وقت تک مکمل نہیں ہو سکتا جب تک کہ اس میں خوبصورت اور رنگین شرارتوں کے رنگ آمیزی نہ ہو۔
قدرت نے بینظیر بھٹو کو بہت بچپن سے ہی ذہانت کا خزانہ دے رکھا تھا لہٰذا وہ دلچسپ مگر بعض اوقات انتہائی پرخطر شرارتوں کا مظاہرہ کر جاتیں۔ اپنے حالات زندگی بیان کرتے وہ خود بتاتی ہیں،ہماری ساری فیملی چھٹیاں گزارنے بیرون ملک یعنی لندن گئی میں اپنے اپارٹمنٹ میں اکیلی تھی مجھ سے اور تو کچھ نہ ہوا میں نے گیس کے ہیٹر کا والو کھول دیا وہ تو شکر کہ اسی لمحے میری والدہ واپس آگئیں وگرنہ کیا پتہ ماچس بھی سلگا لیتی پھر کیا ہوتا اس کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔
ہمارے ہاں برقعہ کی رسم کے بارے میں، میں نہیں جانتی تھی کہ یہ اچھی چیز ہے یا بُری چیز ہے جب میری والدہ نے مجھے برقع دیا اور میں نے پہلی مرتبہ پہنا تو مجھے خود کواچھا نہیں لگا سانس لینا بھی مشکل تھا ساتھ ساتھ گرمی بھی بہت تھی۔ انسان کپڑے کے اندر سے سانس بھی نہ لے سکے اور گرمی بھی ہو تو سوچئے کہ کیا حال ہوگا دنیا کے خوبصورت رنگ ہی اس کی آنکھوں کے سامنے سے اوجھل ہو جاتے ہیں جیسے آپ اور دنیا کے درمیان سرمئی رنگ کی ایک تہہ حائل ہوگئی ہو یا اس کو یوں کہا جاسکتا ہے کہ آپ کی آنکھ ہی خراب ہو گئی ہو اور عینک استعمال نہ کریں تو دنیا مدھم مدھم دکھائی دیتی ہے۔ برقعہ میں مجھے اسی طرح سے محسوس ہوا مجھے اس وقت خوشی ہوئی جب بھٹو صاحب نے یہ فیصلہ کیا کہ مجھے برقعہ پہننے کی ضرورت نہیں ہے۔ یہ بھی ایک انقلابی قدم تھا کہ کسی بڑے خاندان میں یہ فیصلہ کیا گیا میری والدہ برقعہ پہنتی تھیں لیکن جب بھٹو پرائم منسٹر بنے تو آہستہ آہستہ میری والدہ نے بھی برقعہ پہننا چھوڑ دیا۔
میری امی کہتی ہی کہ تم بڑی ضدی تھی دوسرے بچوں کے لئے بڑی مشکل پیدا ہو گئی، پھر یہ بھی تھا کہ سب لوگ تمہیں زیادہ توجہ دے رہے ہیں اگر آپ چل رہی ہیں تو بیک وقت بہت سے لوگوں کی آواز آتی، وہ دیکھو بینظیر چل رہی ہے۔ وہ بات کر رہی ہے وہ کھیل رہی ہے پھر یہ بھی کہ سب سے پہلے آپ کو ہی سکول بھیجا گیاتو شاید یہ سب کچھ دوسرے بچوں کے ساتھ انصاف کے برخلاف تھا یعنی منصفانہ بات نہیں تھی کیونکہ دادی سمیت دوسرے تمام رشتہ دار آپ کے ساتھ ہی زیادہ پیار کرتے تھے، انہوں نے ماضی کو یاد کرتے ہوئے کہا۔
مجھے امی نے بتایا کہ تمہاری ضد کے آگے تو بھئی کسی کی نہیں چل سکتی تھی۔تمہارے بھائی کی سالگرہ تھی اس کو موٹر کار تحفہ میں ملی بس پھر کیا تھا ایک ہنگامہ کھڑا ہو گیا۔ پھر وہی ہوا کہ تمہارے والدنے تمہیں موٹرکارلے دی۔بینظیر بھٹو بتاتی ہیںمجھے دنیا کی معروف شخصیات کی سوانح عمری پڑھنے کا بے حد شوق ہمیشہ ہی سے رہا ہے میں دراصل یہ جاننے کی خواہش رکھتی تھی کہ یہ لوگ کیونکر عظیم بنے اور عظیم کہلائے۔
٭٭٭٭٭