عزم وہمت کی داستان بے نظیر بھٹو شہید

محسن پاکستان جناب زوالفقار علی بھٹو کی صاحبزادی عالم اسلام کی پہلی خاتون وزیراعظم بے نظیر بھٹو21جون 1953 کو کراچی میں میں پیدا ہوئی، پیپلزپارٹی کے بانی چیئرمین ذوالفقار علی بھٹو کے آنگن میں آنکھ کھولنے والی پنکی ملکی سیاست کا ایک چمکتا دمکتا درخشاں ستارہ بنی ۔ دنیا نے تسلیم کیا کہ شہید بی بی کاصرف نام ہی نہیں ان کے کارنامے بھی بے نظیر اور ہمیشہ یاد رکھنے والے تھے ۔ جوانی میں قدم رکھا تواعلی تعلیم کے لیے برطانیہ اور امریکہ کا انتخاب کیا ۔ محترمہ بے نظیربھٹوصاحبہ دنیا کی واحد خاتون لیڈر تھی جس نے تعلیمی میدان میں کامیابی کے جھنڈے گاڑنے کے ساتھ سیاسی میدان میں بھی کمال کر دکھایا، اپنے والد ذوالفقار علی بھٹو کی قید سے لے کر پھانسی تک آمریت کے دور میں بینظیر بھٹو نے ہر مصیبت اور مشکل کا ثابت قدمی اوربہادری سے مقابلہ کیا ۔ محترمہ بے نظیر بھٹو شہید نے کراچی آکسفور ڈ اور اور ہاوورڈ یونیورسٹیوں میں اعلیٰ تعلیم حاصل کی ،یہ چار اپریل1979کی بات ہے جب انہیں اپنے والد زوالفقار علی بھٹو کی پھانسی کے بعد صرف 25برس کی عمر میں پاکستان پیپلزپارٹی کی شریک چیئرمین بنایاگیا،یہ جنرل ضیاکا بدترین اور بھیانک دور تھاضیاکے آمرانہ دور میں وہ کئی سال تک نظر بند رہی یہ ہی نہیں انہیں جبری طورپر ملک چھوڑنے پر مجبورکیا گیا کیا کیا ظلم نہیں ڈھائے گئے مگر دور جلاوطنی میں بھی انہوں نے اپنی پارٹی کی قیادت کی اور والد کے نقش قدم پر چلتی رہی ،جب پاکستان میں ایک بھیانک دور یعنی ضیا کے مارشل لا کا خاتمہ ہوا تو 10اپریل 1986کو جلاوطنی کاٹ کر لاہور پہنچی جہاں پرکارکنوں نے اپنی عظیم لیڈر کا تاریخی ووالہانہ استقبال کیا ۔ 18دسمبر 1987کو آصف علی زرداری سے محترمہ کی شادی ہوئی ، جس کے بعد 16نومبر1988کوجب عام انتخابات منعقد ہوئے تو یہ وہ دن تھا جب پاکستان پیپلزپارٹی اس ملک کی سب سے زیادہ اکثریت حاصل کرنے والی پارٹی بن چکی تھی جس کے نتیجے میں وہ 1988کو پاکستان اور عالم اسلام کی پہلی خاتون وزیراعظم منتخب ہوئیں ۔ تاہم ان کی حکومت زیادہ عرصے تک قائم نہیں رہ سکی اور 20ماہ بعد ہی ان کی حکومت کا تختہ الٹ دیا گیا۔6 / اگست 1990 کو صدر غلام اسحاق خان نے بدعنوانی کا جھوٹا الزام عائد کرکے انہیں وزارت عظمی سے برطرف کردیا ۔ 1990 سے 1993 تک وہ قائد حزب اختلاف کا فریضہ انجام دیتی رہیں اور 1993 میں منعقد ہونے والے عام انتخابات کے نتیجے میں وہ ایک مرتبہ پھر وزیراعظم منتخب ہوگئیں ۔ اپنے والد ذوالفقار علی بھٹو کے بعد وہ دوسری شخصیت تھیں جو دوسری مرتبہ وزارت عظمی کے عہدے پر فائز ہوئی تھیں ۔ 5 / نومبر 1996 کو انہی کی پارٹی سے تعلق رکھنے والے صدر پاکستان سردار فاروق احمد لغاری نے ان کی حکومت کو سازشیوں کے ساتھ ملکر برطرف کردیا ۔ سازشی عناصر بھٹو کی بیٹی سے خوفزدہ تھے اور ان کی پارٹی کو ختم کرنے کے درپہ تھے ان ہی چیرہ دستوں کی وجہ سے1997 کے عام انتخابات میں پاکستان پیپلزپارٹی کو شکست کا سامنا کرنا پڑا ۔ 15 اپریل 1999 کو لاہور ہائی کورٹ نے انہیں نواز شریف حکومت کے قائم کردہ مقدمات میں پانچ سال کی سزا سنائی ۔ اس وقت وہ دبئی میں مقیم تھیں اس لئے ان سزاو¿ں سے محفوظ رہیں مخالف یہ ہی چاہتاتھا کہ وہ ملکی سیاست سے دور رہیں لیکن وہ بہادر باپ کی بہادر بیٹی تھی شہیدو ں کی وارث تھی بھلا کس طرح ان اوچھے ہتھکنڈوں سے ڈر جاتی ۔ 2002 کے عام انتخابات میں پاکستان پیپلزپارٹی نے پاکستان پیپلزپارٹی پارلیمنٹیرینز کے نام سے انتخابات میں حصہ لیا اور ملک میں سب سے زیادہ ووٹ حاصل کئے تاہم چونکہ ان کی پارٹی کی نشستوں کی تعداد، پاکستان مسلم لیگ (ق)کی نشستوں سے کم تھی، اس لئے انہوں نے حزب اختلاف میں بیٹھنے کا فیصلہ کیا ۔ محترمہ بے نظیر بھٹو اس دوران مستقل دبئی میں ہی مقیم رہیں ۔ 14 مئی 2006 کو انہوں نے ملک میں آمریت کے خاتمے اور جمہوریت کے قیام کے لئے اپنے سیاسی حریف میاں محمد نواز شریف کے ساتھ میثاق جمہوریت کے معاہدے پر دستخط کئے ۔ 18 اکتوبر 2007 کو وہ آٹھ برس بعد وطن واپس لوٹیں مگر مشکلات تھی کی کٹنے کا نام ہی نہیں لے رہی تھی،ان کی وطن واپسی پر جیالے پھولے نہیں سمارہے تھے لاکھوں کا مجمع اپنی عظیم لیڈر کی ایک جھلک دیکھنے کے لیے سڑکوں پر امنڈ آیاتھا ۔ قافلہ ائیرپورٹ سے براستہ کارساز گزررہاتھا، اس دوران ان کے جلوس پر ایک خودکش حملہ ہوا اس دھماکے سے لوگ دور نہیں بھاگے بلکہ محترمہ کی گاڑی کے اور قریب آگئے وہ موت سے ڈرنے کی بجائے وہ اپنے عظیم لیڈر کو خیروعافیت دیکھنا چاہتے تھے اور یہ ہی وجہ تھی کہ دوسرے دھماکے سے جانی نقصان پہلے دھماکے سے کہیں زیادہ ہوا ،لاشوں کے بیچوں بیچ زخمیوں کی یہ آوازیں سب نے سنی کہ" بی بی سلامت ہے نا انہیں کچھ ہوا تو نہیں " کارکنوں اور لیڈر کے درمیان محبت کا یہ دیوانہ پن تاریخ کے سینے پر نقش ہوگیا،اس دھماکے میں کئی جیالے ایسے بھی شہید ہوئے جن کی شناخت کرنا بھی مشکل ہوگیا تھا یہ وہ جیالے تھے جنھوں نے اپنی ہستی کو مٹادیا تھا، لیکن دشمن تہیہ کرچکاتھا کہ وہ محترمہ بے نظیر کو ایک پل بھی سکون نہ لینے دے گایہ ہی وجہ تھی 27 دسمبر 2007 کو بینظیر بھٹو نے راولپنڈی کے مشہور لیاقت باغ میں جلسے سے خطاب کے بعد واپسی کے دوران کارکنوں کے نعروں کا جواب دینے کے لیے جونہی گاڑی سے سر باہر نکالا تو پہلے سے ہی گھات لگائے مردود قاتل نے گولی چلا دی اور یوں دختر مشرق ہمیشہ کے لیے ابدی نیند سو گئیں تھیں ۔ اگلے روز انہیں آہوں اور سسکیوں میں ان کے والد اور بھائیوں کے پہلو میں گڑھی خدا بخش، لاڑکانہ میں سپردخاک کردیا گیا ۔ محترمہ بے نظیر بھٹو کی شہادت کے بعد ان کی وصیت کے مطابق ان کے صاحبزادے بلاول بھٹو زرداری نے پاکستان پیپلزپارٹی کی قیادت سنبھال لی اور محترمہ کے شوہر آصف علی زرداری پارٹی کے شریک چیئرمین بن گئے، اس تحریر کا اختتام میں محترمہ کی شہادت سے کچھ گھنٹوں پہلے ہونے والے واقعہ سے کرنا چاہونگا جسے پڑھ کر لوگوں کو اندازہ ہوجائے گا کہ ایک لیڈر اور کارکن کے درمیان رشتہ کیا ہوتا ہے ،ایک تاریخی حوالے کے مطابق 26 دسمبر 2007کی رات جب بے نظیر بھٹو ایک لانگ ڈرائیوکے بعد اسلام آباد کے زرداری ہاوس پہنچی تو وہ بہت تھک چکی تھی اور آرام کرنا چاہتی تھی مگر اس وقت کے آئی ایس آئی کے سربراہ میجر جنرل ندیم تاج کا پیغام ان تک پہنچا کہ وہ ان سے ایک ضروری بات کے لیے ملنا چاہتے ہیں محترمہ بہت تھک چکی تھی اور چاہتی تھی کہ وہ دوگھنٹے سونے کے بعد میجر جنرل ندیم تاج سے ملاقات کرینگی،کہاجاتاہے کہ یہ ملاقات رات ڈیڑھ بجے ہوئی اس ملاقات میں محترمہ کے قریبی ساتھی اورمشیر رحمان ملک بھی موجود تھے میجر جنرل ندیم تاج نے انہیں بتایاکہ اس روز انہیں کوئی قتل کرنا چاہتاہے میجر جنرل نے اپنے زرائع سے ملنے والی معلومات پر محترمہ کو بہت سمجھانے کی کوشش کی معروف مصنف اوین بینیٹ جونز اپنی کتاب "دی بھٹو ڈائنیسٹی دی سٹرگل فار پاور ان پاکستان " میں لکھتے ہیں کہ ۔ ۔ یہ سنتے ہی بے نظیر بھٹو کو شک ہوا کہ کہیں میجر جنرل ندیم تاج ان کے پروگرام کو منسوخ کرنے کے لیے دباو¿ تو نہیں ڈال رہے انہوں نے میجر کو کہا کہ اگر آپ کو خود کش بمباروں کی اطلاع پر اتناہی یقین ہے تو پھر آپ انہیں گرفتارکیوں نہیں کرتے،میجر جنرل نے اس بات کا جواب کچھ یوں دیا کہ یہ ناممکن ہے کیونکہ اس عمل سے ان کے وسائل کا راز افشا ہوجائے گا ۔ اس پر محترمہ شہید کے وہ تاریخی الفاظ جس کی وجہ سے میں نے یہ قصہ بیان کیا ۔ محترمہ نے کہاکہ آپ میری سیکورٹی میں اضافہ کریں آپ نہ صرف میری بلکہ لوگوں کی سیکورٹی کو بھی یقینی بنائیں یعنی اس بہادر خاتون کو علم ہوچکا تھا کہ صبح ان کو شہید کردیا جائے گا مگر انہوں نے اپنی جان کی پروانہ کی بلکہ اپنے ساتھ اپنے چاہنے والوں کی سیکورٹی کا بھی بندوبست کرنے کا کہا ،کہتے ہیں کہ شہید کبھی نہیں مرتا یہ ہی وجہ ہے کہ بے نظیر کو مٹانے والوں کو شاید ہی کوئی جانتاہومگر اس عظیم لیڈر کی یاد ہر گزرتے دن کے ساتھ لوگوں کے دلوں میں پروان چڑھ رہی ہے ۔

ای پیپر دی نیشن

میں نہ مانوں! 

خالدہ نازش میری سکول کی ایک دوست کو ڈائجسٹ پڑھنے کا بہت شوق تھا ، بلکہ نشہ تھا - نصاب کی کوئی کتاب وہ بے شک سکول بستے میں رکھنا ...