ذوالفقار علی بھٹو نے کہا تھا، بینظیر پاک و ہند کی تاریخ میں بے نظیر ہی بن جائے گی. پھر دنیا نے دیکھا کہ یہ بہادر خاتون تاریخ میں اپنا نام امر کر گئی ۔21جون 1953 کو کراچی میں پیپلزپارٹی کے بانی چیئرمین ذوالفقار علی بھٹو کے آنگن میں آنکھ کھولنے والی پنکی ملک سیاست کا ایک درخشاں ستارہ بنی۔صرف نام ہی ان کے کام بھی بے نظیر تھے. جوانی میں قدم رکھا تواعلیٰ تعلیم کےلئے برطانیہ اور امریکہ کا انتخاب کیا۔تعلیمی میدان میں کامیابی کے جھنڈے گاڑنے کے ساتھ سیاسی میدان میں بھی کمال کردکھایا. بھٹو کی قید سے لیکر پھانسی تک، آمریت کے دور میں بینظیربھٹو نے ہرمصیبت اور مشکل کا ثابت قدمی اوردلیری سے مقابلہ کیا۔
1986 میں بینظیر بھٹو جلاوطنی کاٹ کرواپس وطن لوٹیں تو پیپلزپارٹی کی چیئرپرسن بن کر سیاست میں باقاعدہ قدم رکھا۔ 1987ءمیں آصف علی زرداری کے ساتھ رشتہ ازدواج میں منسلک ہوگئیں، بینظیر بھٹو 1988ءمیں پاکستان اورعالم اسلام کی پہلی خاتون وزیراعظم منتخب ہوئیں.تاہم ان کی حکومت زیادہ عرصے تک قائم نہیں رہ سکی اور 20 ماہ بعد ہی ان کی حکومت کا تختہ الٹ دیا گیا۔
1993ءمیں ایک بار پھر حکومت ملی لیکن 3 برس بعد 1996 میں انہیں اقتدار سے محروم کردیا گیا، انیس سو اٹھانوے میں بینظیر بھٹو خودساختہ جلاوطن ہوگئیں۔ کبھی لندن تو کبھی دبئی میں سکونت اختیار کی۔
18 اکتوبر 2007 کو بینظیر بھٹو وطن واپس تشریف لائیں تو کراچی ایئرپورٹ پر لاکھوں کارکنوں نے ان کا تاریخی استقبال کیا، بینظیر بھٹو کو کراچی ایئرپورٹ سے قافلے کی صورت میں لے جایا گیا۔اس دوران کارساز کے مقام پر ان کے قافلے پر خودکش حملہ کیا گیا، اس حملے میں درجنوں کارکن لقمہ اجل بنے، تاہم بینظیر بھٹو محفوظ رہیں۔ستائیس دسمبر 2007 کو بینظیر بھٹو راولپنڈی کے مشہور لیاقت باغ میں جلسے سے خطاب کے بعد واپس روانہ ہوئیں۔ کارکنوں کے نعروں کا جواب دینے کے لیے جونہی گاڑی سے سر باہر نکالا، قاتل نے گولی چلا دی، یوں دختر مشرق ہمیشہ کےلیے ابدی نیند سو گئیں۔