وارث شاہ کا عدل سندھڑی بھٹوکا خواب رہا

 نذیر ڈھوکی 
معروف صحافی نوائے وقت کے کالم نویس اور شاعر سید عباس اطہر کا ماننا تھا کہ بھٹو کوئی آسمانی راز ہے اس حوالے سے ان کے پاس اس  کے جواز میں پونے تین سو سال قبل کے شاعر حضرت پیر وارث شاہ رح کے کلام ہیر وارث شاہ میں کی گئی پیشین گوئی تھی ' 
" وارث شاہ پنجاب دی ونڈ ہوسی
کچھ حصہ قصور دا بھی جاویسی 
پت سندھڑی دا حکمران ہوسی 
جو بنا عدل ماریا جاویسی "
 مگر 21 جون 1978 کو راولپنڈی جیل میں موت کی کال کوٹھڑی میں قید پھانسی کے منتظر قائد عوام ذوالفقار علی بھٹو شہید نے اپنی نازوں پلی بیٹی کو ان کی سالگرہ کے موقع پر اپنے عوام کا ہاتھ دیتے ہوئے نصیحت میں اس امید کا اظہار کرتے ہیں آپ مجھ سے بھی زیادہ میرے عوام کی خدمت کرو گی جس سے میں دیوانگی کی حد تک پیار کرتا ہوں۔یہ تحریر ثابت کرتی ہے کہ قائد عوام ذوالفقار علی بھٹو شہید غیر معمولی انسان تھے حالانکہ وہ ملک پر قابض سفاک ٹولے کے وحشیانہ اور توہین آمیز سلوک کا سامنا کر تھے ' قائد عوام ذوالفقار علی بھٹو شہید اپنی صاحبزادی کو نہ شاہ فیصل 'نہ شیخ زید بن سلطان النہیان' نہ کرنل قذافی ' نہ صدام حسین 'نہ حافظ الاسد جیسے دوستوں سے رابطہ کر کے اپنی جان بخشی کروانے کی تقلین کر رہے بلکہ  اپنی بیٹی کو عوام کی خدمت کرنے کی وصیت کر رہے تھے۔ وہ دور انتہائی جبر کا دور تھا اقتدار پر قابض ٹولے نے وحشیت کی ایک آگ جلائی ہوئی تھی دہشت پیدا کرنے کے شہر شہر میں پھانسی گھاٹ سجائے تھے ' جیالوں کو خاموش کرنے کیلئے ان کی پیٹھوں پر کوڑے مارے جا رہے تھے 'کروڑوں زندہ انسانوں کے ملک کو خاموش قبرستان میں تبدیل کر دیا گیا اس کے باوجود ایک نازک اورنفیس لڑکی محترمہ بینظیر بھٹو شہید خود کو طاقتور سمجھنے والوں کیلئے ایک چیلنج بن گئی تھی۔ ایک قیدی لڑکی نے جیل میں سردی سے بچنے کیلئے نہ ہیٹر کا تقاضا کیا نہ گرمی سے گھبرا کر پنکھے کا نہ گھر کی روٹی منگوانے کی بات کی نہ قید سے رہائی کیلئے عدلیہ کو شرمندہ کرنا چاہا ان کی بہادری جمہوریت کے پروانوں کیلئے تختہ دار بھی پرکشش بن گئے ان کی نظر میں جیل تو معمولی چیز تھی۔  محترمہ بینظیر بھٹو شہید کی جمہوریت کی بحالی کی جدوجہد نے دنیا بھر کے ممالک میں جمہوریت کی خاطر جاری تحریکوں کو حوصلہ بخشا۔ محترمہ بینظیر بھٹو شہید کی بہادری اور عزم نیآزادی کی تحریکوں کو تقویت دی۔
 ملتان کے ایئر پورٹ کے رن وے پر محترمہ بینظیر بھٹو شہید کو بالوں سے پکڑ کر گھسیٹا گیا جس کی وجہ سے ان کے چہرے پر زخم آئے مگر محترمہ بی بی صاحبہ صبر اور برداشت کی علامت بن کر تشدد برداشت کرتی رہیںدنیا حیران تھی ۔
ایک نہتی لڑکی جمہوریت کی بحالی کیلئے وقت کے فرعونوں سے جنگ لڑ رہی ہے وہ جیل میں عام کلاس کی قیدی تھیں۔ امریکی سابق وزیر خارجہ ہیلری کلنٹن کا کہنا ہے کہ ہمیں معلوم ہوا کہ واشنگٹن میں محترمہ بینظیر بھٹو شہید لیکچر دینے آ رہی ہیں بڑی کوشش کے باوجود ہمیں شرکت کا کارڈ نہ مل سکا تو میں نے اپنے شوہر بل کلنٹن اور بیٹی کے ساتھ سڑک کے کنارے کھڑے ہوگئے جہاں سے محترمہ کو گزرنا تھا ہم نے کئی پہر سڑک کے کنارے کھڑے ہو کر بیبی صاحبہ کے گزرنے کا انتظار کیا تاکہ اس شخصیت کو اپنی آنکھوں سے دیکھیں جو بدترین آمروں کیلئے چیلنج بن چکی ہے۔ 1988 میں محترمہ بینظیر بھٹو شہید عوام کے ووٹوں کی طاقت سے آمروں کی باقیات کو شکست دی اور پاکستان کی پہلی خاتون وزیراعظم منتخب ہوئی۔ سب سے پہلے ملک بھر میں قید سیاسی کارکنوں کو رہا کیا اوربیرون ملک قیام پذیر جمہوریت پسندوں کی وطن واپسی کو یقینی بنایا جو جلاوطن تھے 'دور آمریت میں برطرف کیے گئے لاکھوں سرکاری ملازمین کو دوبارہ بحال کیا۔ اور اپنے عظیم والد کی طرح نچلے طبقات سے تعلق رکھنے والے لوگوں کے بچوں کو اعلی ملازمتیں فراہم کیں۔ محترمہ بینظیر بھٹو شہید کا تاریخی کارنامہ یہ بھی ہے کہ انہوں نے بھارتی وزیراعظم راجیو گاندھی کے دورہ پاکستان کے موقع پر ایک تاریخی معاہدہ کیا کہ بھارت اور پاکستان ایک دوسرے ملک کے ایٹمی  مراکز پر حملہ نہیں کریگا یہ ہی وجہ ہے جنوبی ایشیا کسی بھی ایٹمی جنگ کی تباہی سے آج بھی محفوظ ہیں ' امریکہ میں نائن الیون سانحہ کے بعد دو امریکی مصنفوں جو 1989 میں سینئر بش کی انتظامیہ میں شامل تھے نے ایک مشترکہ کتاب میں لکھا کہ محترمہ بینظیر بھٹو نے بطور وزیراعظم پاکستان امریکہ کے دورے کے دوران صدر بش سینئر کو مشورہ دیا تھا کہ امریکا جنگجوؤں کی حمایت بند کرے یہ آج میرے ملک کیلئے خطرہ بن رہے ہیں کل یہ دنیا کے امن کیلئے خطرہ بن جائیں گے وقت نے ثابت کردیا کہ محترمہ بینظیر بھٹو شہید کا خدشہ درست تھا۔ اگر محترمہ بینظیر بھٹو شہید کی سیاسی زندگی کے پہلوؤں کو تعصب کی عینک اتار کر دیکھا جائے تو صاف نظر آئے گا ان کی سیاسی زندگی کی آئین شکن آمروں کی دہشت کی مزاحمت سے شروع ہوتی ہے اور شہادت ان کے لے پالک شدت پسندوں سے مزاحمت کرتے ہوئے ہوتی ہے حق بات یہ ہے کہ محترمہ بینظیر بھٹو شہید نے عوام کے حقیقی لیڈر ہونے کا حق ادا کیا اور ثابت کیا کہ لیڈر وہ ہے جو عوام کی خاطر جیتا ہے اور عوام کے درمیان اپنی جان دیتا ہے۔

ای پیپر دی نیشن