بھارتی سپریم کورٹ نے ایک اندھا ، گونگا اور بہرا فیصلہ سنایا ہے کہ کشمیر چونکہ انڈیا کا اٹوٹ انگ ہے۔ اس لئے 5اگست 2019ء کو بھارتی لوک سبھا نے جموں و کشمیر کے بارے میں جو فیصلے کئے ، وہ سب جائز تھے۔ اس فیصلے کی بنیاد ہی ایک سیاسی نعرہ ہے ،جو 75برسوں سے لگایا جارہا ہے۔ اس لئے اس فیصلے کی کوئی آئینی حیثیت نہیں۔ 5اگست2019ء کو ملکی آئین سے آرٹیکل 370 ختم کرکے مقبوضہ کشمیر کے تین ٹکڑے کردیئے گئے۔ اور انہیں بھارت میں ضم کردیا گیا۔ سپریم کورٹ میں مقدمے کی سماعت کے دوران بار بار یہ سوال اٹھایا گیا کہ مقبوضہ کشمیر کو اقوام متحدہ نے متنازع علاقہ قرار دے رکھا ہے ، اس حیثیت کو تبدیل کرنے کا اختیار ریاست جموں و کشمیر کے عوام کو دیا گیا کہ وہ اقوام متحدہ کے زیر اہتمام ایک شفاف ، منصفانہ اور غیر جانبدارانہ استصواب ِ رائے میں اس امر کا فیصلہ کریں گے کہ وہ بھارت سے الحاق چاہتے ہیں یا پاکستان میں شامل ہونا انکی آرزوئوں کا مرکزو محور ہے۔ وکلاء نے ججوں کو باربار اس نکتے کی طرف متوجہ کیا کہ بھارتی حکومت کشمیر کی جغرافیائی حیثیت میں تبدیلی کرنے کی مجاز نہیں ہے۔ لیکن عدالت نے ڈھٹائی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ایک ہی نعرہ دہرایا کہ کشمیر ہمارا اٹوٹ انگ ہے۔ اس لئے ہم اپنے فیصلے کی قانونی حیثیت کے بارے میں فکر مند نہیں ہیں۔
بھارت کے پانچ اگست 2019ء کے اقدام کو کشمیر ی عوام اور پاکستانیوں نے سرے سے مسترد کردیا۔ اور اس امر پر اصرار کیا کہ مقبوضہ جموں و کشمیر کی قسمت کا فیصلہ بھارتی لوک سبھا نہیں کرسکتی۔ اور اب جو بھارتی سپریم کورٹ کا فیصلہ آیا ہے ، اسے بھی عالمی ضمیر نے غیر قانونی اور غیر آئینی قراردے دیا ہے۔
بھارت کی جارحانہ توسیع پسندی تو اب کسی سے ڈھکی چھپی نہیں رہی۔ اس نے چین کے ساتھ مارا ماری کرنے کی کوشش کی ، مگر اسے منہ کی کھانا پڑی۔ جموں و کشمیر کے یخ بستہ ندی نالوں میں بھارتی فوجیوں کی لاشیں جم کر برف میں تبدیل ہوگئیں۔ مگر بھارت یہ لاشے اٹھانے کے قابل بھی نہ رہا۔ بھارت نے اپنے چھوٹے چھوٹے ہمسایوں سری لنکا، مالدیپ اور نیپال کیخلاف بھی بار بار جارحیت کی۔ پاکستان کے ساتھ بھی کئی بار متھا لگانے کی کوشش کی ، لیکن جب سے پاکستان نے ایٹمی اسلحہ تیار کرلیا ہے ، بھارت بھیگی بلی بنا نظر آتا ہے۔ بھارتی جنگی طیاروں نے بالاکوٹ اور آزاد کشمیر میں در اندازی کی کوشش کی ، تو پاکستانی فضائیہ کے شاہینوں نے بھارتی ونگ کمانڈر ابھی نندن کو دبوچ لیا ، اور اس کے طیارے کے فضا میں پرخچے اڑادیئے۔ جبکہ خود ہواباز کو پیراشوٹ کے ذریعے چھلانگ لگاکر جان بچانا پڑی۔ اس سے بھارت پر واضح ہوگیا کہ کولڈ اسٹارٹ ہو یا ہاٹ اسٹارٹ، اسے پاکستان کے ہاتھوں ہمیشہ منہ کی کھانا پڑے گی۔
بھارت کے پانچ اگست 2019ء کے غیرآئینی اقدامات کے بعد پاکستان نے 4اگست 2020ء کو ملک کا سیاسی نقشہ شائع کیا۔ جس میں واضح طور پر بھارت ، افغانستان، ایران اور چائنہ کے ساتھ پاکستانی سرحدوں کو نمایاں کیا گیا ہے۔ اس نقشے میں اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق پورے مقبوضہ جموں و کشمیر کو متنازع ظاہر کیا گیا ہے۔ اس کیلئے ایک دانے دار سرخ لکیر نقشے پر کھینچی گئی ہے۔ بلاشبہ بھارتی سپریم کورٹ کے حالیہ فیصلے کے منہ پر پاکستان کا سیاسی نقشہ ایک تھپڑ کے مترادف ہے۔ پاکستان نے اس بھارتی فیصلے کو اپنی جوتی کی نوک پر رکھا ہے۔
بھارت کے دل میں چور ہے ، اور وہ سمجھتا ہے کہ نہ تو لوک سبھا کی ووٹنگ کشمیر کی حیثیت کو بدل سکتی ہے ، اور نہ بھارتی سپریم کورٹ کا کوئی فیصلہ بھارتی جارحیت کو کوئی جواز بخش سکتا ہے۔ برصغیر کی حتمی تقسیم پاکستان کے سیاسی نقشے کو مدنظر رکھتے ہوئے عمل میں لائی جائے گی۔ پاکستان تو ایک ایٹمی اسلحے اور بیلاسٹک میزائلوں سے مسلح ملک ہے۔ جس کی بہادر افواج نے اپنی پاک سرزمین پر لڑی جانے والی دہشت گردی کی بیس سالہ عالمی جنگ جیت کر دکھائی ہے اور دنیا پر واضح کردیا ہے کہ امریکہ اور نیٹو ممالک کی مشترکہ افواج بھی دہشت گردی کے مقابلے میں پا?ں نہیں جماسکیں۔ لیکن پاکستان نے ایک معجزہ کر دکھایا اور پوری دنیا سے داد وصول کی۔ اب دہشت گردی ایک بار پھر سر اٹھا رہی ہے ، ظاہر ہے بھارت اور اس کی پشت پناہ طاقتیں اپنی خفت مٹانے میں مصروف ہیں۔ اور وہ کسی نہ کسی طرح پاکستانی افواج کو زچ کرنے پر تلی ہوئی ہیں۔ مگر پاکستانی شیردل افواج ا یک بار پھر دہشت گردوں کی ننگی جارحیت کو پچھاڑ کر رکھ دیں گی۔
عالمی سطح پر پاکستان کے سیاسی نقشے کو تسلیم کیا گیا ہے ، نیپال جیسے چھوٹے ملک نے بھی اپنا ایک سیاسی نقشہ شائع کیا ہے ، جس میں بھارتی دعوئو ں کے برعکس کالا پانی کا علاقہ نیپال کا حصہ ظاہر کیا گیا ہے۔ جس پر بھارت مدتوں سے قابض ہے۔ اقوام متحدہ نے فلسطین اور اسرائیل کا ایک بھی سیاسی نقشہ شائع کیا ہے ، جس میں ایک نیلی لکیر دونوںممالک کی سرحدوں کا تعین کرتی ہے۔ اس نیلی لکیر کا اپنا ایک تقدس ہے۔ جسے اسرائیل اپنی بے پناہ جنگی مشینری کے بل بوتے پر مجروح نہیں کرسکتا۔ وہ ایک انچ بھی آگے بڑھے گا، تو دنیا اس پر بیرونی جارحیت کا الزام عائد کرے گی۔ سرحدی لکیریں ہر ملک میں مقدس خیال کی جاتی ہیں ، اس کی خاطر ہزاروں فوجی اپنی جانیں قربان کردیتے ہیں۔ پاکستانی قوم بھی اپنی جغرافیائی اور نظریاتی سرحدوں سے پیار کرتی ہیں ،اور اس کی خاطر اپنی جانوں کی قربانی دینے کے لئے ہر وقت تیار رہتی ہے۔ امید کی جانی چاہئے کہ مقبوضہ کشمیر کی متنازع سرحدوں کا فیصلہ ایک نہ ایک روز اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق ہوجائے گا اور ان کی آزادی و قومی سلامتی محفوظ تصور ہوگی۔