27 دسمبر 2007ء کی شام بڑی اداس اور غمناک تھی۔ میں اپنے گائوں میں تھا،کئی وسوسے اور اندیشے دامن گیر تھے، عجیب و غریب خیالات میں گم تھا کہ ایک فون کال نے سکوت اڑا دیا۔ عامر میر نے فون پر اطلاع دی کہ پنڈی میں جلسے کے بعد محترمہ بے نظیر بھٹو پر حملہ ہوا ہے، انھیں ہسپتال لے جایا جا رہا ہے۔ یہ تشویش ناک اور خوفناک اطلاع تھی۔ بی بی شہید نے نومبرکے وسط میں صحافیوں کے اعزاز میں ڈنر دیا تھا۔ ڈنر کے بعد ملاقات میں بی بی شہید نے عامر میر سے کہا تھا کہ اگر مجھے کچھ ہوا تو آپ جنرل مشرف کا نام لے سکتے ہیں۔ پھر کچھ وقفے کے بعد عامر میر نے اطلاع دی کہ بی بی خودکش حملہ میں شہید ہو گئی ہیں اور ہسپتال لے جانے سے پہلے ہی وہ دم توڑ چکی ہیں جبکہ گاڑی میں سوار دیگر افراد محفوظ ہیں۔ اس خوفناک اطلاع نے میرے ہوش و حواس گم کردیے اور مجھے سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ اب کیا کیا جائے یہ خبر جنگل میں آگ کی طرح پھیل چکی تھی اور پورے ملک میں شدید ردعمل ہوا لوگوں نے آتش زنی شروع کر دی اور بے حد نقصان ہو رہا تھا اور کئی جانیں بھی چلی گئی ہیں، املاک نشانے پر ہیں اور ہر طرف آگ لگی ہوئی ہے۔
ان حالات میں لاڑکانہ جانے کا خیال گویا موت کے منہ میں جانا تھا۔ سندھ میں شدید ردعمل ہوا۔ کوئی چیز بھی محفوظ نہیں تھی۔ عوام کے غیض و غضب نے سب کچھ تہ و بالا کر دیا تھا۔ اس پریشانی کے عالم میں کوئی فیصلہ نہ کر سکا کہ اسلام آباد جائوں یا لاڑکانہ ، اور صبر کا دامن تھام کر حالات کا انتظا رکرنے لگا۔ مزید حالات بگڑنے سے پہلے میں نے طے کیا کہ اگلے دن اللہ کا نام لے کر لاڑکانہ جائوں، صورتحال ابھی تک اسی طرح تھی۔ پھر اگلے دن چند دوستوں کے ہمراہ لاڑکانہ روانہ ہوئے۔ راستے میں جلی ٹرانسپورٹ یہی منظر پیش کر رہی تھی کہ ہر چیز بی بی شہید کے غم میں شریک ہے۔ بی بی شہید کے بہیمانہ قتل کے یہ مناظر بڑے دلخراش تھے ۔ہر طرف صفِ ماتم تھی۔ اس افراتفری میں لاڑکانہ پہنچے۔ بی بی شہید کی تجہیز و تدفین ہو چکی تھی اور لوگوں کا جم غفیر گڑھی خدابخش کی طرف رواں تھا۔ آنسو اور آہیں ہر طرف دیکھی جا سکتی تھیں۔ عوام بی بی شہید کے غم میں ماتم کناں تھے، ان کے ہوش و حواس گم تھے اور غم جاودانی کی چادر تان لی تھی اور بی بی شہید کا غم وغصہ ناقابل بیان تھا۔
نوڈیرو پہنچے تو پتا چلا کہ آصف علی زرداری وہاں موجود نہیں ہیں چنانچہ اگلے دن ہم واپس روانہ ہوئے تو دوران سفر زرداری صاحب کی فون کال موصول ہوئی۔ غم سے نڈھال تعزیت کی لیکن صدمہ اتنا بڑا تھا کہ الفاظ ساتھ نہیں دے رہے تھے۔ بی بی کی شہادت شدتِ غم کی داستان بن گئی تھی۔ محترمہ بے نظیر بھٹو پاکستان کا روشن چہرہ تھی۔ عالم اسلام کی پہلی منتخب وزیراعظم۔ انھوں نے بدترین آمریت کے خلاف نہایت بہادری اور جرأت سے مقابلہ کیا اور جدوجہد کے تاریخ ساز باب رقم کیے۔ عالمی برادری بھی ان کی سیاسی بصیرت کی معترف تھی اور ان کے لیے سیمینار اور اجلاس کرکے خراجِ عقیدت پیش کیا جاتا تھا۔ ان کے سیاسی تدبر اور بصیرت کے ادراک سے استفادہ کیا جاتا تھا۔
1999ء میں پرتگال میں خواتین کی ایک کانفرنس تھی۔ 21 تا 23اپریل کو ہونے والی کانفرنس کا انعقاد وہاں کے لارڈ میئر نے کیا تھا۔ بی بی امریکا کا دورہ ختم کرکے شریک ہوئیں۔ یہ کانفرنس خواتین کی سیاسی اور سماجی اقدار کے بارے میں تھی۔ بی بی کی تقریر کو بے حد سراہا گیا۔ بی بی شہید نے اس کانفرنس میں شرکت کے لیے مجھے بھی مدعو کیا تھا۔ بی بی کے خطاب نے سامعین پر سحر طاری کر دیا تھا۔ انھوں نے منفرداندازمیں سوالات کے جواب دیے، ہر مندوب بالمشافہ ان سے ملاقات کا خواہش مند تھا اور ان سے بات چیت کا خواہش مند تھا۔
بی بی اس کانفرنس میں شریک ہو کر بڑی خوش تھیں۔ عالم عرب میں بھی بی بی کی بڑی عزت تھی اور وہ دختر اسلام کے نام سے یاد کرتے تھے۔ بی بی جلاوطنی کے ایام میں کئی محاذوں پر لڑ رہی تھیں اور بیک وقت کئی کردار نبھا رہی تھیں ، وہ بچوں کے لیے ماں بھی تھیں اور باپ بھی۔بی بی عالمی امورپر گہری نظر رکھتی تھیں اور ضروری بیان بھی جاری کرتی تھی۔ وہ روزانہ پانچ گھنٹے کمپیوٹرپر کام کرتی تھیں، آرٹیکل تحریر کرتیں اور پارٹی کو متحرک اور فعال رکھتی تھیں۔ بے نظیر بھٹو کی شخصیت کا خوبصورت ترین پہلو یہ ہے کہ وہ ایک انسانیت نواز،رحمدل اور غریب پرور خاتون تھیں۔ ان کا دل غریبوں کی ہمدردی سے لبریز تھا وہ ان کی تکلیف پر پریشان ہو جاتی تھیں اور مصیبت کی گھڑی میں ان کی مدد فرض کی طرح کرتی تھیں۔ وزیراعظم کی حیثیت سے عام افراد کی مدد کرکے ان کے مصائب کم کیے اور کئی خاندانوں کو مشکلات سے بچایا، اس ضمن میں صحافیوں اور دانشوروں کی بھی مالی مدد کی۔ وہ پارٹی کارکنوں کا بھی خیال رکھتی تھیں۔
محترمہ بے نظیر بھٹو نے ادبِ صحافت اور فنونِ لطیفہ سے وابستہ افراد کی اپنے خصوصی فنڈ سے مدد کی۔ اس ضمن میں ممتاز دانشوروں اور صحافیوں کی مالی امداد بھی کی۔ پاک ٹی ہائوس کے خدمتگار شریف بنجارہ کو ایک لاکھ روپے کا چیک دیا جس سے اس کی روزمرہ زندگی میں خوشیوں کے پھول کھل اٹھے۔بی بی شہید ایک مہربان روح تھیں۔ غریب پروری ان کا اہم وصف تھا۔ کئی لوگ انہیں یاد کرکے دعائیں دے رہے ہیں۔ محترمہ بے نظیر بھٹو نے دنیا کو اپنی بصیرت سے متاثر کیا انھیں شہادت کے بعد ایک غیرمتنازعہ لیڈر کا مقام حاصل ہوا۔ بی بی کی شخصیت اپنے والدین کی طرح انتہائی متاثر کن تھی ۔بے نظیر بھٹو اعلیٰ اوصاف کی مالک تھیں ،ان کی عظمت کے ستارے عالمی افق پر پوری آب و تاب کے ساتھ جگمگا رہے ہیں۔
دختر پاکستان محترمہ بے نظیر بھٹو آسمانِ سیاست پرجگمگانے والا وہ ستارہ ہے جو کبھی ڈوبتا ہے اور نہ کبھی ٹوٹے گا، یہ خراجِ تحسین سوشلسٹ انٹرنیشنل کے یومِ تاسیس پر مشرقِ وسطیٰ کے ایک مندوب نے پیش کیا تھا۔ بی بی شہید پاکستان اور دنیا میں جمہوری جدوجہد کا استعارہ بن چکی ہیں وہ لوگوں کے دلوں میں زندہ ہیں۔ بے شک محترمہ بے نظیر بھٹو آج ہم میں موجود نہیں ہیں مگر ہم میں موجود بھی ہیں،ہمارے قلب و روح ان کی یاد سے معمور ہیں،ہمارے دل و دماغ میں وہ زندہ ہیں،محترمہ بے نظیر بھٹو پارٹی کارکنوں کے خوابوں کی تعبیر تھیں،وہ بے پناہ خوبیوں کا مرقع تھیں،اس کا دل پارٹی کارکنوں کے درد سے لبریز تھا،وہ ان کی ہمدرد اور دم ساز تھیں۔ چیئرمین بلاول بھٹوزرداری، بختاور اور آصفہ، بی بی کی وراثت کے امین ہیں۔تینوں بہترین تربیت اور اعلیٰ تعلیم یافتہ ہیں۔ مجھے یقین ہے کہ وہ اپنی عظیم والدہ کے اوصاف اپنا کر اور ان کے نقشِ قدم پر چل کر اسی وراثت کو فروغ دیں گے اور عوامی خدمت کے مشن کو جاری رکھیں گے جس کی مثال محترمہ بے نظیر بھٹوشہید نے قائم کی اور پی پی پی کے پرچم کو سربلند رکھیں گے۔