اسرائیل نے المغازی البریج پناہ گزین کیمپوں پر فضائی حملہ کیا جس کے نتیجے میں 12 گھنٹے کے دوران 250 فلسطینی شہید ہوگئے جن میں زیادہ تر خواتین اور بچے شامل ہیں۔ سڑکیں تباہ‘ گھروں کو نشانہ بنایا گیا۔ اسرائیلی فضائی حملوں سے المغازی اور دو دیگر پناہ گزین کیمپوں البوریج اور النصیرات کے درمیان مرکزی سڑکیں بند ہو گئیں جس سے ایمبولینسوں اور امدادی ٹیموں کے کام میں رکاوٹ پیدا ہو رہی ہے۔ دمشق پر اسرائیلی حملے میں ایرانی کمانڈر بھی شہید ہو گئے۔ بریگیڈئر جنرل رضا موسوی شام میں مزاحمتی یونٹ کے انچارج تھے۔ ایران کے صدر ابراہیم رئیسی نے اسرائیلی حملے میں ایرانی کمانڈر کی ہلاکت پر کہا ہے کہ اسرائیل کو یقینی طور پر ایرانی بریگیڈئر جنرل کے قتل کی قیمت چکانا ہوگی۔
7 اکتوبر سے جاری اسرائیلی جارحیت سے شہید ہونے والے فلسطینیوں کی تعداد 20 ہزار 674 سے تجاوز کرگئی جبکہ 54 ہزار 536 زخمی ہیں جن میں سے نصف تعداد خواتین اور بچوں کی ہے۔ اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو کی ڈھٹائی اور ہٹ دھرمی کا اندازہ انکے اس بیان سے لگایا جا سکتا ہے جس میں وہ کہہ رہے ہیں کہ جنگ طویل ہوگی‘ مزید لاشیں لائیں گے۔ فلسطین اور اسرائیل کے مابین ہونے والی جنگ سنگین سے سنگین تر ہوتی جارہی ہے۔ اس حوالے سے امریکہ اور برطانیہ سمیت عالمی برادری کا رویہ انتہائی افسوسناک نظر آرہا ہے۔ گزشتہ ماہ اسرائیل یمن کے ساتھ چھیڑچھاڑ کر چکا ہے اور اب اس نے دمشق پر حملہ کرکے ایرانی کمانڈر شہید کردیا جس پر تہران نے بھی اسرائیل کو دھمکی دی ہے کہ اس کا خمیازہ اسے بھگتنا پڑے گا۔ فلسطین اور اسرائیل کی یہ جنگ آہستہ آہستہ دوسرے خطوں کو بھی اپنی لپیٹ میں لے رہی ہے۔ خدشہ ہے کہ مشرقِ وسطیٰ کے دیگر ممالک بھی اس میں شریک ہو جائیں گے اور یہ جنگ لامحالہ تیسری عالمی جنگ کی صورت اختیار کرلے گی۔ یہ صورتحال عالمی طاقتوں بالخصوص اقوام متحدہ کے لیے لمحہ فکریہ ہونا چاہیے۔ اگر امریکہ، برطانیہ اور دوسری الحادی قوتیں اسی طرح اسرائیل کی پشت پناہی کرتی رہیں اور فلسطینیوں کے خلاف اس کی ننگی جارحیت پر اسے تھپکی دیتی رہیں تو مسلم دنیا کے دوسرے ملک بھی فلسطینیوں کی مدد کے لیے اس جنگ میں کود سکتے ہیں۔ اس لیے اقوام متحدہ کو کسی عالمی طاقت کے دبائومیں آئے بغیر جارح اسرائیل کے جنونی ہاتھوں کو روکنا ہوگا تاکہ اس جنگ کو مزید پھیلنے سے روکا جا سکے۔