آواز خلق
فاطمہ ردا غوری
ماہر نفسیات کے مطابق خود کشی کے اکثر واقعات میں لوگ مرنا نہیں چاہتے بلکہ محض یہ چاہتے ہیں کہ ان کا درد مرجائے اس بات میں چھپی تلخ حقیقت کا احساس اس وقت ہوا جب یہ تکلیف دہ جملہ بار ہا سننے کو ملا کہ راہنما تحریک انصاف عمران خان عوام کی ضد بن چکے ہیں خاں صاحب کو عوام کی ضدکہنے والوں کو شاید یہ احساس نہیں کہ بیچارے عوام تو ایک عرصہ سے نقاب پوش،خود غرض رہنمائوں کے ستائے ہوئے ہیں اور یہ جو عمران خان نیازی صاحب کو اپنی ضد بنا کر خودکشی پر تیار بیٹھے ہیں یہ بیچارے محض اپنے اپنے درد سے نجات چاہتے ہیں !!!
ضد بن جانے کو فخر کی علامت سمجھنے والے شاید ضد کے اصطلاحی اور لفظی مفہوم سے آگاہ نہیں ہیں یا ضد سے اگلے مراحل کے متعلق کوئی معلومات ان کے پاس موجود ہی نہیں وگرنہ وہ اس امر کو قابل فخر سمجھنے کی بجائے سابق وزیر اعظم کے عوام کی ضد بن جانے پر تشویش کا اظہار ضرورکرتے کہ ضد تو وہ فعل ہے جس کے بعد کے مراحل یا عناصر میں فساد ٗ فتنہ ،بغاوت ،سرکشی ٗ سرتابی غدر جیسے خطرناک محرکات پوشیدہ ہیں اور ان تمام خطرناک اور ملک و قوم کے لئے نقصان دہ ثابت ہونے والے محرکات کے نتائج سے ہر ذی شعور بخوبی آگاہ ہے رہنما تحریک انصاف کو اپنی ضد بنا لینے والوں کا سوچ کر رہ رہ کر منصور آفاق کا یہ شعر یاد آ رہا ہے
سفر میں تیرے وحشی کو عجب ضد ہے
وہاں کشتی سے اترے گا جہاں ساحل نہیں ہو گا
الیکشن 2024 کے لئے کاغذات نامزدگی جمع کروانے کا مرحلہ مکمل ہو گیا سوشل میڈیا رپورٹس کے مطابق ہزاروں امیدوار مدمقابل ہیں رہنما مسلم لیگ ن میاں محمدنواز شریف کو سکروٹنی کے لئے بلایا جا چکا ہے جبکہ الیکشن کمشن کی جانب سے عوام کی ضد عمران خان صاحب کا نام پارٹی سربراہان کی لسٹ سے خارج ہے سابق وفاقی وزیر اور سینئر سیاستدان محمد علی درانی نے کہا ہے کہ8 فروری کے متوقع انتخابات میں 1977 ء میں ہونے والے بدنام زمانہ الیکشن کی یاد تازہ کر دی ہے اور محسوس بھی یہ ہو رہا ہے کہ انجام بھی وہی ہو گا انتخابی نشان ٗ کاغذات نامزدگی ٗ انتخابی سرگرمیوں کا حق اور آزادی اظہار چھین لینا الیکشن نہیں سیدھی سادھی سلیکشن کے مترادف ہے جمہوریت کے خلاف یہ جنگ سب کی شکست بن جائے گی قبل ازانتخاب شرمناک دھاندلی ٗ پری پول رگنگ سے 1977 ء کے انتخابات کی تاریخ دہرائی جا رہی ہے
قارئین یوں محسوس ہوتا ہے کہ پورے کا پورا نظام ہی بغاوت ٗضد اور سرتابی پر مبنی ہے موجودہ حالات میں ہر کوئی اپنی اپنی ذہنی بساط کے مطابق تبصروں تجزیوں میں مصروف ہے لیکن ہمیں ان قیاس آرائیوں کی بجائے آگے کا سوچنا ہے کہ کس طرح اس صورتحال سے نمٹا جائے!
ہمیںآج فقط کچھ خیالات قرطاس پر اتارنے ہیں جو ذہن کو متذبذب کئے ہوئے ہیں کیونکہ یہ جو خیالات ہوتے ہیںناں یہ جب ذہن میں جگہ بنا لیتے ہیں تو وہاں عالم زچگی کی مانند اضطراب پیدا کردیتے ہیں اور اگر ان خیالات کو الفاظ کی شکل دے کر جنم نہ دیا جائے ان کا حق نہ ادا کیا جائے تو یہ بھی پیدائش سے قبل موت کا معاملہ بن سکتا ہے جس کے نتائج ذہنی توڑ پھوڑ کے سوا کچھ بھی نہیں تاریخ گواہ ہے کہ جب ایک متجسس بچہ جلتی ہوئی رنگینی کو دیکھ کر پکڑنے کی کوشش کرتا ہے تو ہاتھ جلنے کے آغاز پر ہی تیزی سے اپنا ہاتھ ہٹا لیتا ہے اور پھر کبھی اس روشنی کی طرف ہاتھ نہیں بڑھاتا جو بظاہر تو خوب صورت ہو لیکن اس کے پس پردہ الائو ہو، تباہی ہو ،سب کچھ راکھ کر دینے کے آثار ہوں اور اس چمکدار روشنی کے پیچھے کیا کیا خطرات پوشیدہ ہیں یہ بات اس بچے کو موہوم سی ہی سہی لیکن ہاتھ کی جلن سکھاتی ہے شاید اسی کو تجربہ کہتے ہیں جس کی بناء پر ہر ذی شعور انسان اپنے اگلے قدم کے لئے حکمت عملی تیار کر تا ہے تو کیا ہم عوام 76 سالوں میں اتنا تجربہ بھی حاصل نہیں کر سکے کہ اپنا لائحہ عمل عقل مندی سے طے کر سکیں؟؟ حکایات میں درج ہے صدیوں پہلے اعتقاد پایا جاتا تھا کہ بادشاہ کو خدا بنا کر بھیجا جاتا ہے اور رعایا کا کام فقط اس کی اطاعت کرنا ہے آج ہم جو بظاہر بہت لبرل ہیں عقل کل ہیں مادر پدر آزاد ہیں اپنے دل پر ہاتھ رکھ کر بتائیں کہ کیا موجودہ حالات اس زمانہ جاہلیت سے مختلف ہیں کیا آنکھیں بند کریں تو صدیوں پرانی قربان گاہیں ذہن میں نہیں آتیں جہاں ذہنی آزادی کو بھینٹ چڑھا دیا جاتا تھا جہاں بادشاہ تو بہت عظیم الشان ہوا کرتے تھے لیکن کسان کے پاس ایک جھونپڑی بھی نہیں ہوا کرتی تھی بادشاہوں کے جسم زرق برق عبائوں سے آراستہ ہوا کرتے تھے لیکن عوام کے پاس تن ڈھانپنے کو پیوند لگا پیراہن بھی نہ تھا الفاظ کی ہیرا پھیری کے علاوہ آخر بدلا ہی کیا ہے ؟ذہنی غلامی کا یہ عالم ہے ہم آج بھی بظاہر چمکدار روشنی کے پیچھے پوشیدہ تاریکی کو پہچان نہیں پاتے اور اسی روشنی کو اپنی ضد بنا بیٹھتے ہیں لیکن اب بس بہت ہوا اب الفاظ نہیں نظام بدلنے کا وقت ہے ہمارے سامنے ہمیشہ کی طرح دوراستے ہیں ایک فطرت ہے اور دوسرا مافوق الفطرت اب یہ ہمارا شعور اور تجربہ بتائے گا کہ ہمیں کس کا ساتھ دینا ہے فطرت کا ٗ حقیقت کا ٗ حالات کی بہتری کے لئے متحرک ٹولے کا یا پھر بھی مافوق الفطرت کا جو دیکھنے سننے میں تو بہت خوبصورت ہے کسی اور ہی دنیا میں کسی نئے پاکستان میں کھو جانے پر مجبور کردیتا ہے لیکن مافوق الفطرت کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہوتا اس کا تعلق محض عوام کو سبز باغ دکھا کر ملک و قوم کے ساتھ کھلواڑ کرنا ہے سو ہمیں سمجھ بوجھ کے ساتھ اپنے مستقبل کی راہ ہموار کرنے کی کوشش کرنا ہو گی آئندہ انتخابات میں اپنے رہنمائوں کے چنائومیں ازحد احتیاط برتنا ہو گی کہ اب کی بار ہمیں ایسا رہنما چاہیے جو کم از کم ہماری عبائوں کے ساتھ ساتھ ہمارے دکھوں کو بھی پیوند لگانے کی موہوم ہی سہی جسارت تو کرے !!!
اس بات کا خیال رکھنا ہو گا کہ اب کی بار ہماری عقلی آزادی محو نہ ہونے پائے اور مافوق الفطرت کے سحر میں کھو کر ضد میں آ کر ہم اس قدر آگے نہ نکل جائیں کہ اپنے ہی وطن میں ہنگامہ آرائی اور محاذ آرائی کی صورت حریت فکر تباہ کر بیٹھیں ٗ سنبھلنا ہو گا یہ نہ ہو کہ ہزاروں تباہ ہو چکیں بظاہر آزاد لیکن ذہنی غلام اندھی قوموں کی طرح ہمارا بھی نام تک نہ ہو داستانوں میں!!!
نہ کام آئی اگر آگہی تو کیا ہو گا
بدل سکی نہ اگر زندگی تو کیا ہو گا
خرد کے سارے مسائل دھرے نہ رہ جائیں
جو ضد جنوں کو کہیں آ گئی تو کیا ہو گا
ضد ٗ فطرت اور مافوق الفطرت
Dec 27, 2023