شذراتِ انجم…ڈاکٹر محمد وسیم انجم
drwaseemjum@gmail.com
سلطان احمد 10 اپریل 1943 ء میں دہلی میں پیدا ہوئے۔ پاکستان قائم ہوا تو ہندوستان سے ہجرت کر کے گوجر خان میں منتقل ہو گئے لیکن مستقل سکونت راولپنڈی کے مختلف علاقوں میں اختیار کی۔ گارڈن کالج راولپنڈی میں ایم اے اُردو کے دوران ان کی جماعت میں ڈاکٹر عبدالباری رانا اور پروفیسر زہیر کنجاہی بھی شامل تھے۔ زمانہ طالب علمی میں شاعری کا ذوق پیدا ہوا تو مختلف اخبارات و رسائل میں سلطان رشک کے نام سے کلام شائع ہونے لگا۔ ادھر حکیم محمد یوسف حسن بارودخانہ بازار لاہور سے 1952 ء میں نیرنگِ خیال کے ساتھ راولپنڈی منتقل ہو گئے اور مرکزی جامع مسجد کے قریب ایک دکان خرید کر مطب کرنے لگے اور پُل شاہ نذر کے ساتھ ایک چھوٹا سا گھر بنا لیا لیکن یہاں بھی ان کے مالی حالات درست نہ ہو سکے۔ نہ نیرنگِ خیال کی پہلے والی شبابی کیفیت تھی اور نہ مطلب کی خاطرخواہ آمدن رہی لیکن نیرنگِ خیال کو کسی نہ کسی طرح چلاتے رہے تاہم انہوں نے اس کی ادارت سلطان رشک کے سپرد کر دی۔ اپنے ایک انٹرویو میں کہتے ہیں ’’نیرنگِ خیال کے 53 سال بعد میں نے جون 1977 ء میں اس رسالے کو چھاپنے کا تمام انتظام سلطان رشک کے حوالے کر دیا‘‘۔ حکیم محمد یوسف حسن کے ماہوار رسالہ ’’نیرنگِ خیال‘‘ کو بیسویں صدی کے ادبی رسائل میں ایک اہم مقام حاصل رہا ہے۔ اس کا آغاز 11 جولائی 1924 ء میں لاہور سے ہوا۔ ابتداء ہی میں انہیں ڈاکٹر محمد دین تاثیر اور عبدالرحمٰن چغتائی جیسی مشہور شخصیات کا تعاون حاصل ہوا جس نے رسالے کو چار چاند لگا دیئے۔ حکیم صاحب کی انقلابی طبیعت نے اس میں طرح طرح کی نئی اختراعات کی اور بہت جلد اسے برصغیر کا کثیر التعداد خوب صورت ترین ادبی رسالہ بنا دیا۔ حکیم صاحب نے اپنے گرد بڑے بڑے مشہور ادیبوں اور شاعروں کا حلقہ قائم کر لیا۔ نیرنگِ خیال ہی کی بدولت حکیم صاحب کا تعلق علامہ اقبال سے ہوا جسے انہوں نے علامہ کی زندگی کے آخری دنوں تک قائم رکھا۔ وہ اکثر علامہ کی خدمت میں حاضر ہو کر رسالے کے لیے مفید مشورے حاصل کرتے رہتے اور ان کا تازہ کلام مانگ کر رسالے کی زینت بناتے۔ نیرنگِ خیال کے پہلے شمارے جولائی 1924 ء نے اہلِ ذوق کا دامن دل کھینچ لیا۔ اب تک ادبی رسائل کے گیٹ اپ کی طرف بطور خاص توجہ نہیں دی جاتی تھی لیکن نیرنگِ خیال نے کتابت و طباعت کا اعلیٰ معیار قائم کرتے ہوئے بلند پایہ نگارشات کی حسن و خوبی کے ساتھ پیش کش کی طرحِ نو ڈالی تو پہلے شمارے پر علامہ اقبال نے 17 اگست 1924 ء کو اپنے خیالات کا اظہار یوں فرمایا: ’’رسالہ نیرنگِ خیال جو لاہور سے نکلنا شروع ہوا ہے بہت ہونہار معلوم ہوتا ہے۔ اس کے مضامین میں پختگی اور متانت پائی جاتی ہے۔ مجھے یقین ہے کہ یہ رسالہ پنجاب میں صحیح ادبی ذوق پیدا کرنے میں مفید ثابت ہو گا۔ ایڈیٹر دونوں، حکیم یوسف حسن ایڈیٹر، ڈاکٹر محمد دین تاثیر جوائنٹ ایڈیٹر نوجوان ہیں اور لٹریچر کی خدمت کا شوق رکھتے ہیں۔ جناب عبدالرحمٰن کی تحفۂ لیلیٰ بہت خوب ہے دیکھ کر مسرت ہوئی، دیکھئے اب تحفۂ قیس کب نکلتا ہے۔‘‘نیرنگِ خیال نے خاص نمبروں کی اشاعت میں بہت زیادہ حصہ لیا۔ نیرنگِ خیال نے سو سے زائد خاص نمبر شائع کیے جن میں تیس چالیس تو سالنامے ہیں اور باقی خاص نمبر ہیں جو پہلی بار شروع کرنے کا اعزاز بھی نیرنگِ خیال کو حاصل ہے ۔جس کی وجہ سے بڑی مقبولیت ہوئی۔ نیرنگِ خیال کے سالنامہ 1927 ء کے متعلق علامہ اقبال کی رائے جنوری 1928 ء میں دوسرے مشاہیر کی آراء کے ساتھ اس طرح شائع ہوئی ’’سالنامے کے مضامین اور تصاویر دونوں خوب ہیں۔ حکیم یوسف حسن صاحب کا حسنِ انتخاب واقعی قابلِ داد ہے۔ غالباً نیرنگِ خیال کا سالنامہ اُردو سائل میں سب سے اچھا ہے۔ نیرنگِ خیال کے خاص نمبروں نے تمام رسائل کو اپنا معیار بلند کرنے پر مجبور کیا بالخصوص ان کے ظاہری محاسن میں اضافہ ہوا ہے۔ ملک کو حکیم صاحب کی اس مستعدی، بے دریغ زرافشانی اور ذوقِ سلیم کی قدر کرنی چاہیے۔‘‘
نیرنگَِ خیال کا سب سے پہلا اقبال نمبر بھی حکیم صاحب نے علامہ اقبال کی زندگی میں 1932 ء میں شائع کیا اس نمبر کو علامہ اقبال نے جرمن فنکارہ الزا کی خدمت میں پیش کیا تو وہ ورطۂ حیرت میں مبتلا ہو گئی۔ اس کے بعد نمبروں کا ایک لامتناعی سلسلہ شروع ہو گیا۔ نیرنگِ خیال کے سات آٹھ ہزار کے لگ بھگ خریدار پشاور سے کلکتہ اور دہلی سے بمبئی تک پھیلے ہوئے تھے۔ آزادی کے بعد خریداروں کی بڑی تعداد ہندوستان میں رہ گئی۔ 1947 ء کے اوائل میں نیرنگِ خیال نے ’’دنیائے اسلام نمبر‘‘ شائع کیا تھا جو تقسیم نہ ہو سکا۔ جس کے نتیجے میں نیرنگِ خیال کو ناقابل برداشت مالی نقصان اٹھانا پڑا۔ حکیم صاحب نے اس خسارے کو پورا کرنے کی حتی المقدور کوشش کی۔ نیرنگِ خیال کا پہلا دور جتنا درخشاں تھا دوسرا دور اتنا ہی ضعیف ہوا تو حکیم صاحب نیرنگِ خیال کو راولپنڈی لے آئے اور اس کی ترقی کے لیے مختلف تجربات کیے۔ ایک دن سلطان رشک اور پروفیسر محمد صدیق چیمہ ایک نئی سکیم کے ساتھ حکیم صاحب کے پاس آئے اور اسکیم کے تحت پہلی کوشش سالنامہ 1967 ء میں تبدیلی کر کے حکیم محمد یوسف حسن مدیراعلیٰ ، سلطان رشک مدیر اور محمد صدیق مدیر اعزازی کے طور پر نمایاں ہوئے۔اس اسکیم کے تحت سلطان رشک نے ’’غزل نمبر‘‘ دو جلدوں میں، ’’گولڈن جوبلی نمبر‘‘، ’’چینی افسانہ نمبر‘‘، ’’خصوصی پانچ سواں نمبر‘‘ کے علاوہ متعدد خاص نمبر ’’اردو کانفرنس نمبر‘‘ اور سالنامے پیش کیے جس پر حکیم محمد یوسف حسن نے تشفی کا اظہار کیا اور لکھا ’’سلطان رشک نے اس عرصہ میں نیرنگ خیال کی ساکھ اور شہرت کو برقرار رکھنے کی قابل قدر کوشش کی۔ ان کے ساتھ چند سالوں کی خوش گوار معاونت ہمارے لیے مسرت و اطمینان کا باعث ہے‘‘۔
حکیم صاحب نے 53 سال نیرنگِ خیال کو چلانے کے بعد جون 1977 ء میں اس رسالے کو چھاپنے کے تمام انتظامات سلطان رشک کو فی سبیل اﷲ تفویض کر دیئے جو اس وقت ایم اے اردو گارڈن کالج سے کر چکے تھے۔ اس طرح نیرنگِ خیال کا تیسرا دور سلطان رشک کی ادارت میں شروع ہوا جو تادم مرگ جاری رہا۔ اس دوران حکیم محمد یوسف حسن اور سلطان رشک کے درمیان ہونے والی خط و کتابت میرے مجموعہ ’’یادگار خطوط‘‘ میں دیکھی جا سکتی ہے۔
سلطان رشک نے بوڑھے نیرنگِ خیال کو تازہ خون دیا اور بڑی مستعدی سے نیرنگ خیال کی تابندہ روایت کو دوبارہ قائم کرتے ہوئے سالنامے اور خاص نمبر پیش کیے۔ میرے والد محترم طب یونانی کا علاج پسند کرتے تھے چنانچہ وہ مجھے اپنے ساتھ سائیکل پر بٹھا کر جامع مسجد روڈ پر لے گئے جہاں میری حکیم صاحب سے پہلی ملاقات ہوئی۔ میری والدہ محترمہ کے ماموں عاشق الٰہی محمود نظامی اور پھوپھی زاد بھائی مشتاق قمر اور منیر نیئر کے بھی حکیم صاحب سے ذاتی مراسم تھے اور ان کی نگارشات نیرنگِ خیال میں شائع ہوتی رہیں۔ منیر نیئر حکیم یوسف حسن کی نواسی اور سلطان رشک کے صاحبزادگان کو ٹیوشن بھی پڑھاتے رہے اور ہر دوسرے دن حکیم صاحب سے شرف یاب ہوتے۔ میری سلطان رشک سے پہلی ملاقات اس وقت ہوئی جب مشتاق قمر اور منیر نیئر کے والد گرامی محمد حسین کی وفات 14 اپریل 1979 ء کے بعد ان کی تعزیت کے لیے تشریف لائے تھے۔ اس وقت ہم مشتاق قمر اور منیر نیئر کے پڑوس میں رہائش پذیر تھے۔ میں نے 90 کی دہائی میں نیرنگ خیال کی اقبال شناسی پر ایم فِل کا مقالہ استاد محترم ڈاکٹر رحیم بخش شاہین کی نگرانی میں تحریر کرنا شروع کیا تو معروف شاعر اور ماہر فن عروض فضل الرحمٰن عظیمی میرے ساتھ بنفس نفیس نیرنگِ خیال کے دفتر میں گئے جہاں سلطان رشک سے دوسری ملاقات ہوئی اور پھر حکیم محمد یوسف حسن کے نواسے جہانگیر شاہد میاں سے ملے جنہوں نے نیرنگِ خیال کے پرانے شماروں سے متعارف کرایا۔ ان میں ایک گز بھر لمبا خاص نمبر بھی دیکھا۔سلطان رشک کے پاس پرانے شمارے دستیاب نہیں تھے اس کے باوجود ایک دن نیرنگِ خیال کے پرانے دفتر کالج روڈ میں واقع ان کی ادارت میں نیرنگ خیال کے دستیاب شماروں تک رسائی میں مدد فرمائی۔
معروف شاعر اور ادیب حیدر قریشی کے متحرک کرنے پر 1999 ء میں نیرنگ خیال کا عالمی سطح پر ماہوار رسائل کا اولین اردو ماہیا نمبر صدارتی تمغہ حسن کارکردگی حاصل کرنے والے معروف شاعر اور ادیب احمد حسین مجاہد کے ساتھ مرتب کرنے کا اعزاز حاصل ہوا جس کی اجازت سلطان رشک نے مرحمت فرمائی اور اس ماہیا نمبر کے تمام اخراجات حیدر قریشی نے برداشت کرنے کے ساتھ ساتھ قلمی معاونت بھی فرمائی۔ 2000 ء میں میرا ایم فِل کا مقالہ ’’اقبالیاتِ نیرنگِ خیال‘‘ کے عنوان سے میرے بڑے بھائی محمد نسیم انجم کی مالی معاونت سے انجم پبلشر نے شائع کیا تو اس کے دیباچے میں سلطان رشک رقمطراز ہیں: ’’ہمارے فاضل محقق اور اقبال شناس محمد وسیم انجم نے ہر درجہ عرق ریزی اور محنت پژوہی سے نیرنگِ خیال کے 1924 ء تا 2000 ء کے شماروں سے علامہ مرحوم سے متعلق (جو ہزاروں صفحات شائع ہوئے ہیں) ان کا مطالعہ کیا اور بڑی خوش سلیقگی سے اپنے مقالے کے لیے مواد یک جا کیا۔ بڑی توجہ، انہماک اور ریاضت کے بعد یہ مسودہ سامنے آیا۔ گویا یہ ع:
طرفۂ صناع ہیں اے میرؔ یہ موضوع طبعاں/ بات جاتی ہے بگڑ بھی تو بنا دیتے ہیں۔‘‘
سلطان رشک نے میری خاکوں پر مبنی کتاب ’’سنہرے لوگ‘‘ کے دیباچے میں تحریر کیا ہے ’’وسیم انجم اپنے لفظوں کو جبہ و دستار نہیں پہناتے ۔وہ اپنی بات تحریروں میں مقدار نہیں معیار کے قائل ہیں۔ وہ ایسی زمینوں میں ہل نہیں چلاتے جن میں اگلے وقتوں کے مرز زبان چلاتے رہے ہیں۔ ان کی نثر میں ندرت بھی ہے اور جدت بھی ہے۔ جس طرح شخصیات کے انتخاب میں انہوں نے احتیاط برتی ہے ۔اس سے محسوس ہوتا ہے کہ وہ دو اجنبی سمتوں کو یک جا کر کے شاہراہ بنانے کا ہنر جانتے ہیں۔ یہ ہنر یونہی سرِراہ پڑا ہوا نہیں ملتا۔ اس کے پیچھے مسلسل ریاض، ادیب کے اندر کی خلش اور زیر گفتگو موضوع پر گرفت از بس ضروری ہے۔‘‘
بیادِ غازی میاں محمد شہید کے پسِ ورق میں تحریر کرتے ہیں ’’عشقِ رسول پاکؐ میں مستغرق ہونے والے ایک ادنی سپاہی غازی ملک میاں محمد شہید کے بارے میں زیر نظر کتاب میں بے حد مفید، معلومات افزا، روح پرور اور دلوں کو گرمانے والی باتیں اور ذکر، خوشبو کی طرح پھیلا ہوا ہے جو پڑھنے والوں کے دل و دماغ کو معطر، روشن اور کشادہ کرتا ہے۔ میری ناچیز رائے میں غازی ملک میاں محمد شہید ؒ ، غازی علم الدین شہیدؒ (جنہوں نے نبی اکرمؐ کی شان میں گستاخی کرنے والے مصنف رنگیلا رسول کو داخل جہنم کر دیا تھا) کی طرح ہر نوعیت کے خراج تحسین کے مستحق ہیں۔‘‘
ماہنامہ رسائل میں نیرنگِ خیال ایسا رسالہ ہے جس میں میری نگارشات اور کتب پر تبصرے زیادہ شائع ہوئے ہیں۔سلطان رشک کی غزلوں کا مجموعہ ’’دریا کی دہلیز‘‘2002 ء میں منظرعام ہوا تو انہوں نے بڑی محبت کے ساتھ پیش کیا بعد ازاں دوسرا مجموعہ ’’کاغذ کا گھر‘‘ بھی شائع ہوا ۔ سلطان رشک نیرنگِ خیال میں ادارتی صلاحیتوں کا سکہ منوا چکے تھے ۔ ان کی صلاحیتوں سے فائدہ اٹھانے کے لیے طنز و مزاح کا شائستہ ذوق رکھنے والے سید ضمیر جعفری، کرنل محمد خان اور ڈاکٹر صفدر محمود نے مل کر طنز و مزاح پر مبنی ادبی سلسلہ ’’اردو پنچ‘‘کے نام سے 1981 ء میں جاری کیا جس کی ادارت میں یہ چاروں صاحبان شامل تھے۔ اس پرچے میں مزاح سے رجائیت اور تحمل کے جذبے کو تقویت پہنچانے کی کوشش کی گئی اور ایسی تحریروں سے اجتناب کیا گیا جن سے غصہ یا تلخی پیدا ہونے کا اندیشہ تھا۔ ’’اردو پنچ‘‘ کے انتظامی امور سلطان رشک کے پاس رہے۔ اس کے چند شمارے منظرعام ہوئے جن میں ظرافت کو بشاشت کا سرچشمہ قرار دیا گیا۔
ایم فِل مقالے کی تیاری کے دوران سلطان رشک سے ذاتی مراسم قائم ہوئے تو اکثر و بیشتر نیرنگِ خیال کے دفتر گارڈن کالج کے سامنے ملاقاتوں کا ایک لامتناہی سلسلہ شروع ہو گیا اور ان کے گھر آریہ محلہ، چکلالہ سکیم2 ٹیپو روڈ اور لالہ زار فائونڈیشن یونیورسٹی کے قریب بھی ملاقاتیں ہونے لگیں۔ ملاقات میں تاخیر ہوتی تو خط و کتابت کا سلسلہ جاری ہو جاتا۔ ان کے ساتھ خطوط کا یہ سلسلہ میرے مجموعہ خطوط ’’انجم نامہ‘‘ اور ’’یادگار خطوط‘‘ میں پڑھا جا سکتا ہے۔بانیٔ نیرنگِ خیال حکیم محمد یوسف حسن کے ساتھ ان کی خط و کتابت بھی ’’یادگار خطوط‘‘ میں شامل ہے جس میں نیرنگِ خیال کی اشاعت کے سلسلے میں حکیم صاحب اور سلطان رشک کے مابین 1967 ء سے 1977 ء تک پوری داستان پڑھی جا سکتی ہے۔ ایک خط 13 مارچ 1976 ء میں حکیم صاحب رقمطراز ہیں: ’’ڈیکلریشن ابھی تک آپ کے نام نہیں ہوا۔ دشمنوں نے بھی خطوط پولیس کو بھجوا دیئے ہیں۔ یہاں سے ابھی تک رپورٹ نہیں بھجوائی گئی تاکہ لاہور پہنچے۔‘‘ حکیم صاحب نے جون 1977 ء میں نیرنگ خیال کے تمام جملہ حقوق فی سبیل اﷲ سلطان رشک کو تفویض کر دیئے تھے اور سلطان رشک نے کاروبار کے ساتھ ساتھ حکیم صاحب کی شمع کو فروزاں کیے رکھا۔ سلطان رشک کو کسی عزیز کی وجہ سے کاروبار میں خسارہ ہوا تو انہوں نے نیرنگ خیال کے دفتر کی کتب کو فروخت کرنے کا ارادہ ظاہر کیا تو میں نے انہیں نوجوان شاعر ادیب اور ہفت روزہ ہوٹل ٹائمز کے مدیر اعلیٰ اختر رضا سلیمی کا بتایا تو انہوں نے اپنی ذاتی لائبریری کے لیے کتابیں خرید لیں۔ سلطان رشک کے ساتھ کاروباری شراکت میں قمر رعینی نے کچھ رقم لگائی ہوئی تھی سلطان رشک کو کاروبار میں نقصان ہوا تو رقم کی ادائیگی میں تعطل آ گیا تو مجھے ثالثی کا کردار ادا کرنا پڑا اور ان دونوں کے درمیان سہولت کار کا کردار ادا کرتا رہا۔ رقم کا معاہدہ زبانی طے پایا تو ہر مہینے دو ہزار کا چیک قمر رعینی کو میری وساطت ملنے لگا۔ کسی مہینے وقفہ آ جاتا تو اگلے مہینے چار ہزار روپے کا چیک قمر رعینی تک پہنچا دیا جاتا اس طرح کافی عرصہ یہ سلسلہ جاری رہا ۔بالآخر دونوں کی ملاقات ہوئی تو کچھ رقم رہ گئی تھی جو قمر رعینی نے ادارے کے نام تفویض کر دی کیونکہ یہ 1952 ء سے 1953 ء تک نیرنگِ خیال سے وابستہ رہے تھے۔
نیرنگِ خیال کی تاریخ اردو کے ادبی رسائل کی مثالی تاریخ ہے۔ اس پرچے کے نادر مضامین، خوب صورت تصاویر اور پیش کش کے عمدہ انداز نے قبول عام حاصل کیا ۔ نیرنگِ خیال میں لکھنا ایک اعزاز تھا اور اسے پڑھنا اس دور کا فیشن تھا۔ حکیم محمد یوسف حسن کے نیرنگِ خیال کے دو ادوار کے بعد سلطان رشک کا تیسرا دور بھی اپنی آب و تاب سے رواں دواں رہا۔ سلطان رشک جولائی 2024 ء میں نیرنگ خیال کی صدسالہ تقریبات منعقد کرنے کا ذکر کیا کرتے تھے لیکن زندگی نے وفا نہ کی اور وہ چند ماہ پہلے ہی 5 دسمبر 2023 ء کو رحلت فرما گئے۔ وفات سے چند سال پہلے فالج ہو گیا تھا لیکن بڑی ہمت اور جواں مردی کے ساتھ نیرنگِ خیال کو جاری و ساری رکھا۔ ان کی رحلت سے چند دن پہلے ان کی بیماری کی اطلاع برادرم رحیم شاہ نے دی تو میرے 3 دسمبر 2023 ء کو فون کرنے پر انہوں نے بتایا: ’’میں کراچی اپنے صاحبزادے سرمد کے پاس گیا ہوا تھا۔ وہاں طبیعت ناساز ہو گئی تھی۔ اب واپس اپنے گھر آ گیا ہوں اور الحمد اﷲ ٹھیک ہوں‘‘۔ 5 دسمبر 2023 ء کو جامعہ اردو سے پی ایچ ڈی فاضل ڈاکٹر مجاہد عباس نے وٹس ایپ پر اطلاع دی کہ ’’سلطان رشک صاحب کی رحلت کی خبر ملی ہے کیا یہ درست ہے‘‘۔ میں نے فیس بک کھولی تو سینئر شاعر و ادیب نسیم سحر کی پوسٹ لگی ہوئی تھی۔ میں نے سلطان رشک کے صاحبزادے سعد کو ٹیلی فون کیا تو پتہ چلا سلطان رشک صبح داعی اجل کو لبیک کہہ گئے ہیں۔ جامعہ اردو سے چھٹی کر کے اپنے بھانجے ڈاکٹر محمد عرفان کے ساتھ ان کی صاحبزادی کے گھر چکلالہ سکیم 3 پہنچے جہاں ان کے صاحبزادے فیصل، صولت اور سعد سے ملاقات ہوئی۔ صولت نے صورت حال سے آگاہ کیا ۔ وہاں معروف افسانہ نگار اور سلطان رشک کے دوست محمد طارق علی اور رحیم شاہ کو جنازے کے وقت اور جگہ سے مطلع کیا اور فیس بک پر بھی پوسٹ آویزاں کر دی۔ مغرب کی نماز کے بعد جدید قبرستان عمر روڈ پہنچا۔ استاد محترم ڈاکٹر رحیم بخش شاہین کے صاحبزادے محمد طارق شاہین سے ٹیلی فون پر ڈاکٹر صاحب کی قبر پر فاتحہ خوانی کے لیے معلومات حاصل کیں لیکن رات کی تاریکی میں تلاش و جستجو کے باوجود قبر تک رسائی نہ ہو سکی۔ وہاں قریب ہی ہمارے شاگرد رشید ڈاکٹر اعظم رضا تبسم بھی رہائش پذیر ہیں انہی فون کیا تو وہ پہنچ گئے۔ معروف ادباء و شعراء میں سلیم اختر اور قاضی عارف حسین انجم ایڈووکیٹ نے برادری کی نمائندگی کی۔ راولپنڈی اسلام آباد سے صرف ہم چار ہی نمائندے تھے جبکہ فیس بک پر ادیبوں اور شاعروں کی پوسٹوں کی بھرمار تھی۔ جامعہ اردو سے پی ایچ ڈی فاضل ڈاکٹر قمر الطاف اور پنجاب کالج مورگاہ کیمپس میں ان کے رفیق کار سید راشد گردیزی سکیم تھری میں تشریف فرما تھے لیکن جنازے میں کسی وجہ سے شرکت نہ کر سکے۔ ڈاکٹر قمر الطاف اپنے پی ایچ ڈی مقالے کے دوران چند ماہ سلطان رشک کی نیرنگ خیال میں معاونت کرتے رہے اس وقت سلطان رشک کو کسی معاون کی تلاش تھی تو میں نے ڈاکٹر قمر الطاف کو ان کی طرف بھیج دیا تھا۔ نیرنگِ خیال سے طویل عرصہ وابستہ رہنے والے محمد طارق علی طبیعت ناساز ہونے کی وجہ سے سکیم تھری سے ہی گھر چلے گئے تھے ۔ قبرستان کے قریب مسجد حنفیہ میں عشاء کی نماز کے بعد جنازہ گاہ میں کثیر مسلمانوں نے شرکت کی۔ نماز جنازہ کے بعد سلطان رشک کے آخری دیدار اور ان کے صاحبزادگان فیصل اور صولت کے ساتھ ڈاکٹر اعظم رضا تبسم، سلیم اختر اور میں نے تعزیت کے بعد سلطان رشک کو الوداع کیا۔ اﷲ تعالیٰ سلطان رشک کو جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے۔ آمین۔