کچھ بھی نہ کہا اور کہ بھی گئے!!


راہ حق …ضرار چوہان 
M.Zararchohan@gmail.com 

وفاقی وزارت خزانہ واقتصادی امور کی طرف سے تین روز قبل عجیب خبر سنی گئی کہ نئے سال کی پہلی تنخواہ اور پنشن ادائیگی میں تھوڑی تاخیر ہوسکتی ہے۔ فنڈز کی عدم دستیابی اور وصولی کے جواز پر بتایا گیا جنوری 2024ء کی تنخواہیں اور پنشن کی ادائیگی معمول کے مطابق نہیں ہوسکے گی ۔ تنخواہ ہر شخص اور ہر خاندان کی ضرورت ہے جبکہ پنشن کا حصول ریٹائرڈ ملازمین  کیلئے  آکسیجن کا درجہ رکھتی ہے ۔ ملازمین اور پنشرز 20 تاریخ کے بعد اگلے 10 دن گن گن کر گزارتے ہیں ایسے حالات میں جب تاخیر سے متعلق خبر تنخواہ دار طبقے اور پنشرز کو سننا بڑی تو ان کی حالت کیا ہوئی ہوگی! یہ درست ہے کہ وطن عزیز میں مہنگائی کا الاؤ ہر دورمیں روشن رہا لیکن جو صورت حال  پی ڈی ایم حکومت اور اس کے بعد نگران دور میں دیکھی جارہی ہے اس  پر سوائے افسوس کے کچھ نہیں کہا جاسکتا!!   ہم نے زندگی میں کبھی گرانی کا گھوڑا یوں سرپٹ دوڑتے نہیں دیکھا ۔ 15 دسمبر کو انڈا فی درجن 330 روپے فروخت ہوتا رہا دو روز بعد انڈے کے نرخ 400 کا عندسہ عبور کرگئے اور پھر وہ تکلیف دہ لمحہ بھی آیا جب انڈا 420 روپے  میں خریدا گیا گویا مرغی سستی ہوگی اور انڈا مہنگا ہوتا گیا ۔مہنگائی اور بے روز گاری نے جہاں لوگوں کا جینا دوبھر کر رکھا ہے وہاں احساس محرومی اور انتہائے یاس ان کا۔مقدر بنی دکھائی دیتی ہے جس سے عوام کا معیار زندگی گرتا چلا جا رہا ہے اور وہ فکر معاش کے جال میں پھنستیںچلے جا رہے ہیں حکومت کا فرض ہے کہ وہ گرانی کے رجہان کو روکے اور خود ساختہ گرانی کے مرتکب عناصر کے خلاف سخت کارروائی عمل میں لائے تاکہ گرانفروشوں کی من مانیوں کو روکا جا سکے اور عوام کو اشیائے خورد و نوش کی اشیاء￿  مقررہ قیمتوں پر دستیاب ہو سکیں اور ان کی مشکلات و پریشانی کا ازالہ ممکن ہو لیکن توجہ طلب اور مضحکہ خیز امر یہ ہے کہ اشیائے صرف کے نرخوں کو اعتدال پر لانے کے لئے کوئی ٹھوس قدم نہیں دیکھنے میں آ رہے پرائس کنٹرول کمیٹیاں بھی غیر فعال دکھائی دیتی ہیں جس سے سبزیاں ،دالیں اور پھل کی قیمتیں آسمان سے باتیں کر رہی ہیں اور دو وقت کی روٹی بھی غریب کے لئے مشکل ہوتی جا رہی ہے اور وہ بے بس و عاجز دکھائی دیتا ہے حکومت تحصیل و ضلعی سطح پر قائم پرائس کنٹرول کمیٹیوں کو فعال بنا کر مہگائی کے سیلاب کو روک سکتی ہے اس وقت عوام چیخ رہے ہیں چلا رہے ہیں ان کی صدا بہ صحرا ہو رہی ہے جو کہ حکومت کے لئے لمحہ فکریہ ہے مہنگائی میں گائی کی دھائی اور دکانداروں کی لوٹ کھسوٹ کا منظر  جمہوری دور میں توجہ طلب اور ستم ظریفی کا منہ بولتا ثبوت ہے لوگوں کے معیار زندگی کو بلند کر نا حکومت کی ذمہ داری ہے کیونکہ جمہوری حکومت عوام کے سامنے جوابدہ ہوتی ہے اور مہنگائی کا نوحہ اس کے کانوں سے دور نہیں ہونا چاہیے اور سنی ان سنی سے بے نیاز مہنگائی کے خاتمے کے لئے موثر اقدام کرنے چاہئیں یہی وقت کی ضرورت ہے دوسری طرف اہم مسئلہ اس وقت بے روز گاری کا ہے لاکھوں نوجوان بے روزگاری کا شکار ہیں اور حصول روز گار کے لئے دربدر کی ٹھوکریں کھا رہے ہیں اور نوکری چاکری ان سے کوسوں دور ہے مختلف محکموں میں ہزاروں خالی آسامیاں حکومتی بے حسی کا منہ بولتا ثبوت ہیں اور نوجوان ہاتھوں میں ڈگریاں اٹھائے مارے مارے پھر رہے ہیں اور مایوسی کا استقبال کر رہی ہے حکومت خالی آسامیوں پر موزوں امیدواروں کی تقرری کر کے بے روز گاری کو کم کرے اور نوجوانوں کی مایوسی ختم کر ے یہ نوجوان ہمارا اثاثہ ہیں کل ملک کی باگ ڈور انہوں نے سنبھالنی ہے اس لئے وقت کی ضرورت یہ ہے کہ ملازمت پر پابندی اٹھائی جائے اور نوجوان کو با عزت روز گار دیا جائے ان کو ما یوسی سے نکالا جائے اور ان کی صلاحیتیوں کو ملک کی تعمیر و ترقی پر لگایا جائے خداکرے ہمارا نوحہ دور رس نتائج کا حامل قرار پائے اور صدائے احتجاج موثر ثابت ہو قلم زاریاں ہمارا فرض ہے اور اس سے ہم جیسا ایک بے لوث کالم نویس پہلو تہی نہیں کر سکتا۔ قلم کارکا کام ہے مسائل کو اجاگر کرنا اور حکومت کا فرض ہے کہ ان حل طلب مسائل کو حل کرنا  ہم نے اپنی زمہ داری نبھا دی امید ہے زمام اقتدار پر براجمان اشرافیہ اپنی زمہ داریوں کو پورا کر ے گی یہی ہی وقت کا تقاضا ہے۔
میرے وطن کے باسیوں نے 2023ء کے 365 دن تکلیف‘ مصیبت نکبت اور بے کلی میں گزارے۔ یہ پہلا موقع تھا جب لوگوں نے مہنگے بل قرض لے کر ادا کئے۔ ہم کئی ایک ایسے گھرانوں کو جانتے ہیں جو فاقہ کشی کے بعد بل ادا کرنے کے قابل ہوئے۔ اگر وہ بل جمع نہ کراتے تو  ان کے لیے کنکشن بحال رکھنا مشکل ہی نہیں  ناممکن  ہو جا تا۔ غربت کے مارے کیا کریں کہاں جائیں! اب لوگوں میں 2024ء کا انجانا خوف موجود ہے۔ یہ خیال ہتھوڑے کی طرح  دماغ پر برس رہا ہے کہ وہ آنے والے برس کا مقابلہ کیسے کریں؟غربت‘ افلاس اور بھوک زندگی کے گرد مسائل ومشکلات کا سرخ دائرہ لگا رہی ہیں 24 کروڑ افراد محدود آمدنی میں حالات کا مقابلہ کیسے کریں گے؟ غربت اور افلاس بہت بری چیز ہے ( اسی لئے ) رسول پاکؐ نے غربت سے پناہ مانگی ۔ اللہ پاک ہمیں مشکل حالات میں ثابت قدم رہنے کی توفیق دے ‘ آمین

ای پیپر دی نیشن