25 فروری 2009ء حمید نظامی مرحوم و مغفور کی 47 ویں برسی کا اس لحاظ سے تاریخ ساز دن بن گیا ہے کہ عین اس لمحہ تک پنجاب یونیورسٹی کے دانشور شہر لاہور کے معزز ترین صحافیوں کے ساتھ ملکر پاکستان کے عظیم فرزند پنجاب یونیورسٹی کے ایک عہد ساز طالب علم تحریک پاکستان کے ایک درخشندہ ستارے برصغیر میں سب سے کم عمر اور سب سے زیادہ مقناطیسی قوت کے حامل صحافی اور مسلم سٹوڈنٹس فیڈریشن کے بانی صدر حمید نظامیؒ کی یاد میں ان کی قیام پاکستان کی بے مثال جدوجہد پر خراج تحسین پیش کر رہے تھے اور یونیورسٹی کے وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر مجاہد کامران جذبات میں ڈوبی ہوئی آواز میں مناسب الفاظ تراش کرنے میں کوشاں تھے۔ سننے والوں میں وائس چانسلر کے بائیں طرف آبدیدہ آنکھوں کے ساتھ اپنے بڑے بھائی کی عظیم میراث کو نہایت آبرومندانہ افتخار کے ساتھ سینے سے لگائے اور دل و دماغ میں بسائے محترمی مجید نظامی تشریف فرما تھے اور وائس چانسلر کے دائیں جانب عارف نظامی جواب ڈیلی دی نیشن کے ایڈیٹر روزنامہ نوائے وقت کے ایگزیکٹو ایڈیٹر ہونے کا اعزاز رکھنے کے علاوہ کونسل آف پاکستان نیوز پیپرز ایڈیٹرز کے صدر بھی ہیں اور اس طرح جناب حمید نظامی کی انگریزی و اردو ز بانوں میں اعلیٰ ترین صحافتی امانت کے امین بھی ہیں غالباً اس سوچ میں غوطہ زن تھے کہ ان کے عظیم والد نے 44 سال کی مختصر تاریخ ساز حیات میں مملکت خدا داد پاکستان کے قیام میں جو کردار ادا کیا وہ بہت ہی کم خوش نصیبوں کو حاصل ہوتا ہے لیکن ایک آزاد اسلامی مملکت کے قیام اور ایک جمہوری فلاحی ریاست کے فروغ میں 1958ء سے لیکر 1962ء تک مارشل لاء کے ان چار سالوں کے ابتدائی سیاہ دور میں ایک جابر حکمران کے سامنے کلمہ حق ادا کرنے کا جو جرات مندانہ کردار کا مظاہرہ کلاسیکی انداز میں حمید نظامی نے دنیا کے سامنے پیش کیا۔ وہ صحافت کے ایک قابل فخر شاہکار کی حیثیت میں ہماری تاریخ کے صفحات کو ہمیشہ منور کرتا رہے گا۔ میں جناب عارف نظامی کی دائیں نشست پر بیٹھا ہوا ایسا محسوس کر رہا تھا کہ حمید نظامی کی جدوجہد آزادی اور حضرت قائداعظم کا نوجوان حمید نظامی پر بھر پور اعتماد ہال میں موجود تمام خواتین و حضرات کے علاوہ نوجوان طالب علموں اور طالبات پر ایک ولولہ خیز کیفیت کا جادو بکھیر رہا تھا۔ جو مملکت خدا داد کو حمید نظامی کے نقش قدم پر چلتے ہوئے حضرت علامہ اقبال اور حضرت قائداعظم محمد علی جناح کے ویژن اور ان کے خواب کی تکمیل کیلئے ایک ولولہ تازہ کی نوید سنا رہا تھا۔ میں سالہال سے نہایت باقاعدگی کے ساتھ حمید نظامی مرحوم و مغفور کی برسی میں اس انداز میں شرکت کرتا ہوں جیسے ایک پاکیزہ عبادت میں سوزوگداز کے عالم میں حاضری دی جاتی ہے حمید نظامی اپنی ان گنت صلاحیتوں اور صفات کے علاوہ ایک ناقابل بیان حد تک عاشق رسولﷺ امت مسلمہ کیلئے نیل کے ساحل سے لیکر تابہ خاک کاشغر اتحاد کی تڑپ رکھنے والے اور حضرت قائداعظم کو پورے عالم اسلام کو درپیش مسائل ومصائب کے حل کا پورے یقین اور ایمان کی حد تک اعتماد کے ساتھ نجات دہندہ اور مسیحا تصور کرتے تھے جس کی میں ذاتی شہادت دیتا ہوں جہاں تک میری ذات کا تعلق ہے وہ اگرچہ میرے فرینڈ فلاسفر اور گائیڈ یعنی رہنما تھے لیکن میں اپنے دل کی گہرائی سے اُنہیں ایک ایسا محسن تصور کرتا تھا جو پہلی ملاقات سے لیکر آخر تک قدم قدم پر میری رہنمائی کرتا رہا۔ معذرت خواہ ہوں کہ جذبات میں بہہ کر اصل موضوع سے ذرا ہٹ گیا ہوں۔ بات محترمی مجید نظامی کی ہو رہی تھی کہ وہ میرے طویل مشاہدے کے مطابق اپنے بڑے بھائی حمید نظامی کی برسی کی اگرچہ ہر تقریب میں شرکت فرماتے ہیں لیکن کبھی تقریر نہیں کرتے چنانچہ پنجاب یونیورسٹی کی حمید نظامی ڈے کی تقریب میں نظامت کے فرائض ادا کرتے ہوئے جب میں نے محترمی مجید نظامی صاحب کو خطاب کی دعوت دی تو اپنے ہاتھ سے معذرت لکھ کر دیدی جو میں نے دوبارہ دعوت دینے کیلئے وائس چانسلر مجاہد کامران کے ہاتھوں میں دیتے ہوئے آنکھوں سے التجا کی کہ وائس چانسلر مجاہدانہ کاوش کریں۔ شاید اللہ تعالیٰ کامرانی کے اسباب پیدا کر دے چنانچہ وائس چانسلر مجاہد کامران نے میری درخواست قبول کرتے ہوئے اس میں اپنے خلوص کا رس اور رنگ بھی بھرا جس نے اپنا جادو دکھایا اور وائس چانسلر کے صرف دو فقروں نے مجید نظامی صاحب کا دل جیت لیا ’’نظامی صاحب! یونیورسٹی کے طالب علموں اور طالبات کا دل رکھنے کیلئے آپ دو الفاظ ہی کہہ دیں کیونکہ وہ آپ کی آواز سننے کے متمنی ہیں‘‘۔ یہ سنتے ہی مجید نظامی صاحب انکار نہ کر سکے اور پورڈیم پر تشریف لے آئے پورا ہال تالیوں سے گونج اٹھا اور پھر مجید نظامی نے 1958ء سے لیکر ایوب خان کے مارشل لاء سے ابتداء کرتے ہوئے پرویز مشرف کی حکومت کے 2008ء میں خاتمہ تک گزشتہ نصف صدی کے دوران ہر جابر سلطان یا فوجی حکمران کی داستان بیان کرتے ہوئے نوائے وقت کے اداریوں کی صورت میں کلمہ حق ادا کرنے کا فریضہ جس ثابت قدمی سے بیان کیا جس سے کسی شک و شبہ کی گنجائش باقی نہ رہی کہ حمید نظامی اور ان کے بھائی مجید نظامی جیسے جری نڈر اور اپنے مؤقف کی سچائی پر ایمان رکھنے والے صحافی کی قلم کسی بھی جابر سلطان کی تلوار سے زیادہ فولادی قوت رکھتی ہے۔
اس 2009ء کے پنجاب یونیورسٹی میں منعقد ہونے والے حمید نظامی ڈے کو میں نے تقریب کے آغاز میں ’’عہد ساز‘‘ اس بناء پر لکھا تھا کہ یہ تقریب پنجاب یونیورسٹی کی تاریخ میں پہلی بار پروفیسر ڈاکٹر مجاہد کامران کی سوچ کا ثمر تھا اس لئے نہیں کہ وہ ایک اہل دل وائس چانسلر ہیں بلکہ اس لئے کہ وہ ایک عظیم استاد زمیندارہ کالج گجرات کے پہلے بانی پرنسپل اور سب سے زیادہ یہ کہ مجاہد کامران سید شبیر حسین بخاری کے فرزند ہیں جو پاکستان کے قیام سے ایک دہائی قبل تحریک پاکستان کے دوران اور قیام پاکستان کے بعد سول ملٹری گزٹ لاہور کے چوٹی کے انگریزی اخبار میں لکھنے والے ایسے نامور مسلمان مدیر تھے جن کی تحریروں نے پورے صوبہ پنجاب اور بھارت کے کئی صوبوں میں پاکستان کے نام کو اجاگر کرنے میں نمایاں کردار ادا کیا تھا۔ جس کو حضرت قائداعظم نے بھی خصوصی طور پر سراہا تھا اس لئے یہ کیسے ممکن تھا کہ مجاہد کامران وائس چانسلر بننے کے بعد حمید نظامی کی پہلی برسی جو 25 فروری 2009ء کے روز وقوع پذیر ہوئی وہ پنجاب یونیورسٹی میں منعقد نہ ہوتی۔ لیکن اس برسی کو درحقیقت سپریم کورٹ کے شریف برادران کی نااہلیت کے فیصلے نے یوں تاریخ ساز بنا دیا کہ تقریب کے خاتمے پر جب محترمی مجید نظامی اور جناب عارف نظامی اکٹھے کار کی پچھلی سیٹ پر رخصت ہوتے وقت بیٹھے اور ابھی کار کے دروازے بند نہ ہونے پائے تھے کہ ایک صاحب دوڑے ہوئے آئے اور سپریم کورٹ کا فیصلہ سنایا۔ جس کو سن کر عارف نظامی بوجہ ادب خاموش رہے اور محترمی مجید نظامی کے تاثر کا انتظار کیا نظامی صاحب نے نہایت متانت اور سنجیدگی سے صرف اتنا کہا ’’اس کا مطلب ہے اب دمادم مست قلندر ہوگا اور خدا نہ کرے کہ قوم اتحاد کی بجائے ٹکرائو کے خطرناک راستہ پر گامزن ہو جائے۔‘‘ حمید نظامی مرحوم و مغفور کی 47 ویں برسی کا حصل یہ ہے کہ 1947ء سے لیکر آج تک بھارت کے ساتھ تین جنگوں۔ پاکستان کے دولخت ہونے اور چار عدد مارشلائوں کی تباہ کاریوں کے بعد بھی اگرچہ قائدین قوم نے میثاق جمہوریت پر دستخط کرکے یہ عہد کیا تھا کہ مستقبل میں ماضی کی غلطیوں سے سبق سیکھیں گے لیکن 18 فروری 2008ء کے انتخابات کے ایک سال کے بعد ہی موجودہ جنم لینے والے بحران نے ایک دفعہ پھر ثابت کر دیا ہے کہ ہم نے بحیثیت قوم ابھی تک تلخ ترین تجربات کے باوجود ماضی کی تاریخ سے کچھ نہیں سیکھا آنے والے دن اور مہینے سیاسی اقتصادی اور قومی سلامتی کے ناطے نہایت سنگین چیلنجز کا پیش خیمہ ثابت ہو سکتے ہیں جس کا واحد علاج قائداعظم کے فرمان ’’اتحاد‘ ایمان‘ اور تنظیم‘‘ میں پوشیدہ ہے۔ جس کے ذریعے پوری قوم کو متحد ہوکر ایک جدید اسلامی جمہوری فلاحی ریاست کے قیام کیلئے جدوجہد کرنے کے علاوہ ہماری نجات کا کوئی اور آپشن نہیں ہے۔
……………
اس 2009ء کے پنجاب یونیورسٹی میں منعقد ہونے والے حمید نظامی ڈے کو میں نے تقریب کے آغاز میں ’’عہد ساز‘‘ اس بناء پر لکھا تھا کہ یہ تقریب پنجاب یونیورسٹی کی تاریخ میں پہلی بار پروفیسر ڈاکٹر مجاہد کامران کی سوچ کا ثمر تھا اس لئے نہیں کہ وہ ایک اہل دل وائس چانسلر ہیں بلکہ اس لئے کہ وہ ایک عظیم استاد زمیندارہ کالج گجرات کے پہلے بانی پرنسپل اور سب سے زیادہ یہ کہ مجاہد کامران سید شبیر حسین بخاری کے فرزند ہیں جو پاکستان کے قیام سے ایک دہائی قبل تحریک پاکستان کے دوران اور قیام پاکستان کے بعد سول ملٹری گزٹ لاہور کے چوٹی کے انگریزی اخبار میں لکھنے والے ایسے نامور مسلمان مدیر تھے جن کی تحریروں نے پورے صوبہ پنجاب اور بھارت کے کئی صوبوں میں پاکستان کے نام کو اجاگر کرنے میں نمایاں کردار ادا کیا تھا۔ جس کو حضرت قائداعظم نے بھی خصوصی طور پر سراہا تھا اس لئے یہ کیسے ممکن تھا کہ مجاہد کامران وائس چانسلر بننے کے بعد حمید نظامی کی پہلی برسی جو 25 فروری 2009ء کے روز وقوع پذیر ہوئی وہ پنجاب یونیورسٹی میں منعقد نہ ہوتی۔ لیکن اس برسی کو درحقیقت سپریم کورٹ کے شریف برادران کی نااہلیت کے فیصلے نے یوں تاریخ ساز بنا دیا کہ تقریب کے خاتمے پر جب محترمی مجید نظامی اور جناب عارف نظامی اکٹھے کار کی پچھلی سیٹ پر رخصت ہوتے وقت بیٹھے اور ابھی کار کے دروازے بند نہ ہونے پائے تھے کہ ایک صاحب دوڑے ہوئے آئے اور سپریم کورٹ کا فیصلہ سنایا۔ جس کو سن کر عارف نظامی بوجہ ادب خاموش رہے اور محترمی مجید نظامی کے تاثر کا انتظار کیا نظامی صاحب نے نہایت متانت اور سنجیدگی سے صرف اتنا کہا ’’اس کا مطلب ہے اب دمادم مست قلندر ہوگا اور خدا نہ کرے کہ قوم اتحاد کی بجائے ٹکرائو کے خطرناک راستہ پر گامزن ہو جائے۔‘‘ حمید نظامی مرحوم و مغفور کی 47 ویں برسی کا حصل یہ ہے کہ 1947ء سے لیکر آج تک بھارت کے ساتھ تین جنگوں۔ پاکستان کے دولخت ہونے اور چار عدد مارشلائوں کی تباہ کاریوں کے بعد بھی اگرچہ قائدین قوم نے میثاق جمہوریت پر دستخط کرکے یہ عہد کیا تھا کہ مستقبل میں ماضی کی غلطیوں سے سبق سیکھیں گے لیکن 18 فروری 2008ء کے انتخابات کے ایک سال کے بعد ہی موجودہ جنم لینے والے بحران نے ایک دفعہ پھر ثابت کر دیا ہے کہ ہم نے بحیثیت قوم ابھی تک تلخ ترین تجربات کے باوجود ماضی کی تاریخ سے کچھ نہیں سیکھا آنے والے دن اور مہینے سیاسی اقتصادی اور قومی سلامتی کے ناطے نہایت سنگین چیلنجز کا پیش خیمہ ثابت ہو سکتے ہیں جس کا واحد علاج قائداعظم کے فرمان ’’اتحاد‘ ایمان‘ اور تنظیم‘‘ میں پوشیدہ ہے۔ جس کے ذریعے پوری قوم کو متحد ہوکر ایک جدید اسلامی جمہوری فلاحی ریاست کے قیام کیلئے جدوجہد کرنے کے علاوہ ہماری نجات کا کوئی اور آپشن نہیں ہے۔
……………