مسئلہ کشمیر پر عالمی مداخلت ضروری ہے....بھارت رویہ بدلے : پاکستان

Feb 27, 2010

سفیر یاؤ جنگ
لاہور (سپیشل رپورٹر + اے ایف پی + ریڈیو نیوز) سیکرٹری خارجہ سلمان بشیر نے کہا ہے کہ بھارت کو چاہئے کہ وہ ہر معاملے میں پاکستان کو غلط کہنے کی بجائے اپنا رویہ درست کرے۔ سیکرٹری خارجہ نے کہا کہ بھارت پر واضح کر دیا ہے کہ تنازعہ کشمیر کے حل میں بین الاقوامی دخل ضروری ہے کیونکہ اس کی بنیاد ہی اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل ہے۔ ہم نے بلوچستان میں مداخلت کے حوالے سے بھارتی حکومت کو اپنے تحفظات سے آگاہ کر دیا ہے‘ ہمارے پاس اس کے واضح ثبوت موجود ہیں‘ بھارت کے رویہ میں تبدیلی نہیں آئی اب بھی وہاں پاکستان کے خلاف جنون پایا جاتا ہے‘ بھارت پر واضح کیا ہے کہ بھارت کو کسی غلط فہمی میں نہیں رہنا چاہئے۔ جامع مذاکرات کے لئے بھارتی رویہ میں تبدیلی ضروری ہے‘ بھارت جامع مذاکرات کیلئے تیار نہیں تو ہمیں بھی کوئی جلدی نہیں آئندہ مذاکرات کب ہونگے اور مذاکرات کا روڈ میپ کیا ہو گا اس حوالے سے ابھی کوئی پیشرفت نہیں ہوئی‘ بھارتی سیاستدانوں اور میڈیا کا رویہ انتہائی منفی ہے جسے مثبت میں تبدیل کرنے کی ضرورت ہے‘ بھارت نے مذاکرات کو ممبئی حملوں کے ایشو پر یر غمال بنا لیا تھا کبھی حافظ سعید کی بات کرتا ہے تو کبھی پاکستان سے دہشت گردی کی‘ ہم بھارت کے ساتھ مذاکرات اور پرامن فضا کے حامی ہیں‘ عزت‘ وقار پر کوئی سمجھوتہ نہیں ہو سکتا مذاکرات صرف اور صرف برابری کی سطح پر ہونے چاہئیں۔ بھارت میں سیکرٹری خارجہ کی سطح پر ہونے والے دو روزہ مذاکرات کے اختتام کے بعد پاکستان واپسی پر واہگہ بارڈر پر پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ بدقسمتی سے بھارتی رویہ میں تبدیلی نہیں آئی اس کے باوجود ہم نے بھارت سے یہ کہا ہے کہ وہ جامع مذاکرات کا سلسلہ شروع کرے‘ اس پر واضح کیا ہے کہ مذاکرات برائے مذاکرات کا کوئی فائدہ نہیں‘ ضرورت اس بات کی ہے کہ دونوں ممالک میں مثبت اور جامع مذاکرات ہوں۔ اوپن ایجنڈا وقتی طور پر دونوں ممالک کے لئے فائدہ مند ہو سکتا ہے لیکن یہ مسائل کا دیرپا حل نہیں‘ جلد از جلد جامع مذاکرات دونوں ممالک کے لئے ناگزیر ہیں۔ بھارت کا کہنا تھا کہ پاکستان کے بارے میں بداعتمادی بہت زیادہ ہے‘ آہستہ آہستہ جامع مذاکرات کی طرف بڑھا جا سکتا ہے۔ پہلے چھوٹے چھوٹے ایشوز پر پاکستان اقدامات کرے لیکن ہم سمجھتے ہیں کہ اعتماد سازی کی فضاءکے لئے ضروری ہے کہ جامع مذاکرات کا سلسلہ شروع کیا جائے‘ وہ پاکستان کی تجاویز پر غور کرے۔ دورہ بھارت کے دوران یہ بات کھل کر سامنے آئی ہے کہ وہاں کے سیاستدانوں اور میڈیا کا رویہ منفی سوچ کے برابر ہے‘ میری بھارتی سیاستدانوں اور میڈیا سے اپیل ہے کہ وہ وہاں کے ماحول کو تبدیل کریں‘ بھارت کو چاہئے کہ وہ حقائق کو درست کرے۔ بھارت سے کہا ہے کہ دہشت گردی صرف پاکستان کا نہیں بلکہ عالمی‘ علاقائی اور مقامی مسئلہ ہے‘ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان جو کردار ادا کر رہا ہے پوری دنیا میں اس کو سراہا جارہا ہے۔ مذاکرات میں بھارتی حکام نے مذاکرات کو ممبئی حملوں پر ہی یر غمال بنا لیا تھا‘ کبھی کہتے کہ حافظ سعید یہ کر رہا ہے اور کبھی کہتے کہ پاکستان کی طرف سے فلاں مداخلت ہو رہی ہے لیکن میں سمجھتا ہوں کہ ان کا رویہ انتہائی نامناسب ہے‘ بھارت کو اپنے رویہ پر نظرثانی کرنا ہو گی۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ بھارت مذاکرات کا مثبت جواب دے تاکہ دونوں ممالک میں بدگمانی کی فضا ختم ہو۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان سب سے بڑا مسئلہ کشمیر کا ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ پاکستان کے پانی کی بندش‘ سیاچن‘ سر کریک جیسے مسائل بھی موجود ہیں جنہیں حل کرنا ناگزیر ہے۔ بھارت کے ساتھ ہونے والے مذاکرات میں غلطی سے سرحد پار کر جانے والے شہریوں کی فوری واپسی یقینی بنانے کے حوالے سے بھی بات ہوئی خصوصاً عتیق احمد کی غلطی سے بھارت میں داخل ہونے کے حوالے سے بھی بات چیت کی گئی‘ امید ہے کہ یہ مسئلہ جلد حل ہو جائے گا۔ بھارت مذاکرات میں دہشت گردی‘ دہشت گردی کی ہی بات کرتا ہے لیکن پاکستان کے پاس مذاکرات کے لئے اور بھی بہت کچھ ہے‘ ہم نے بھارت سے کہا تھا کہ وہ آئندہ مذاکرات کے حوالے سے کوئی روڈ میپ تیار کرے لیکن اس حوالے سے پیشرفت ہو سکی اور نہ ہی آئندہ مذاکرات کی کوئی تاریخ طے ہوئی‘ بھارت کی طرف سے بلوچستان میں مداخلت کے حوالے سے پاکستان کے پاس ٹھوس ثبوت موجود ہیں اور بھارت پر واضح کیا ہے کہ وہ افغانستان کی سرزمین سے پاکستان میں جو مداخلت کر رہا ہے اس کا سلسلہ بند ہونا چاہئے۔ پاکستان نے کبھی مذاکرات کے حوالے سے کوئی ڈکٹیشن نہیں لی بلکہ مذاکرات کے حوالے سے پاکستان کی پالیسی قومی مفادات کے تحت اس کی خالصتاً اپنی ہے۔ مذاکرات میں یہ بات بھی کھل کر سامنے آئی ہے کہ بھارت کا رویہ تبدیل نہیں ہوا‘ پاکستان اور بھارت کے درمیان مذاکرات میں امریکی مداخلت بارے کچھ نہیں کہہ سکتا لیکن اتنا ضرور کہوں گا کہ مسئلہ کشمیر کے حوالے سے پاکستان کا موقف تبدیل نہیں ہوا اور آج بھی چاہتے ہیں کہ مسئلہ کشمیر اقوام متحدہ کی قراردادوںکے مطابق حل اور عالمی برادری مسئلہ کشمیر کے حل کے لئے مداخلت کرے۔ پاکستان اور بھارت دونوں ایٹمی طاقت ہیں‘ دونوں ممالک کو ذمہ داری کا مظاہرہ کرنا چاہئے‘ میں اب بھی سمجھتا ہوں کہ تمام مسائل کا حل صرف اور صرف مذاکرات کے ذریعے ہی ممکن ہے۔ پاکستان نے اپنی طرف سے دونوں ممالک میں تعلقات کی بہتری کا آغاز کر دیا ہے اور اب گیند بھارت کے کورٹ میں ہے۔
نئی دہلی (آن لائن) پاکستان نے بھارت کے ساتھ جامع مذاکرات شروع کرنے کا روڈ میپ نئی دہلی کے حوالے کرتے ہوئے کہا ہے کہ جامع مذاکرات ہی مسائل کے حل کا واحد راستہ ہیں دہشت گردی کے مسئلے پر خطے کے امن کو متاثر نہ ہونے دیا جائے۔ بھارت جب بھی چاہے پاکستان کو مذاکرات کےلئے تیار پائے گا‘ پاکستان نے سارک سربراہ کانفرنس سے قبل وزرائے خارجہ ملاقات کی بھی تجویز دی ہے‘ بھارت کا موقف ہے کہ وہ مذاکرات میں مرحلہ وار پیش رفت چاہتا ہے۔ پاکستانی سیکرٹری خارجہ سلمان بشیر نے جمعہ کو بھارتی وزیر خارجہ ایس ایم کرشنا کے ساتھ ملاقات کی۔ 20 منٹ تک جاری رہنے والی ملاقات میں گزشتہ روز ہونےوالے سیکرٹری خارجہ مذاکرات کے حوالے سے بات چیت ہوئی پاکستان کے سیکرٹری خارجہ نے باضابطہ مذاکرات کی بحالی کےلئے اپنی طرف سے ایک اور کوشش کے طور پر بھارتی وزیر خارجہ پر واضح کیا کہ صرف کسی ایک مسئلے کو لے کر پاکستان بھارت مذاکرات کے عمل کو یرغمال نہیں بنایا جاسکتا اور دہشت گردی کو لے کر یہ نہیں کہا جاسکتا کہ دونوں ممالک کے درمیان مذاکرات نہیں ہوسکتے۔ انہوں نے کہاکہ جامع مذاکرات کا عمل ہی دونوں ممالک کے درمیان بات چیت آگے بڑھانے اور مسائل حل کرنے کا واحد راستہ ہے دہشت گردی کے مسئلے پر خطے کے امن کو متاثر نہ ہونے دیا جائے سلمان بشیر نے بھارتی وزیر خارجہ کو تجویز دی ہے کہ بھوٹان میں سارک سربراہ کانفرنس سے قبل پاکستان بھارت وزرائے خارجہ اور سیکرٹریز کی ملاقاتیں ہونی چاہئیں اور سارک کانفرنس میں دونوں ممالک کے درمیان جامع مذاکرات کی بحالی پر غور کیا جاسکتاہے۔ ایس ایم کرشنا نے اس موقع پر کہاکہ جامع مذاکرات اچھا فریم ورک ہے تاہم بھارت فوری طور پر جامع مذاکرات شروع نہیں کرنا چاہتا ہمیں بتدریج آگے بڑھنا چاہیے جامع مذاکرات کی بحالی میں کافی وقت لگے گا۔ ملاقات میں سیکرٹری خارجہ سلمان بشیر نے کہاکہ پاکستان مذاکرات کےلئے بے چین نہیں ہے تاہم بھارت جب بھی مذاکرات کےلئے آیا پاکستان کو تیار پائے گا۔ ترجمان دفتر خارجہ عبدالباسط نے کہا ہے کہ وقت آگیا ہے کہ پاکستان اور بھارت وقت ضائع کئے بغیر جامع مذاکرات کی طرف دوبارہ آئیں بلوچستان میں بھارتی مداخلت کے ثبوت موجود ہیں جب تک بھارتی مداخلت موجود ہے خطے میں امن ممکن نہیں۔ نجی ٹی وی سے گفتگو کرتے ہوئے ترجمان نے کہا کہ سیکرٹری خارجہ سلمان بشیر کی بھارتی وزیر خارجہ سے ملاقات میں انہیں پاکستان کے تحفظات سے آگاہ کیا گیا اور انہوں نے کہاکہ ہم نے بارہا کہاہے کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان مسائل کو حل کرناہے تو ہمیں ان ملاقاتوں سے آگے جانا ہوگا اور باضابطہ مذاکرات کا سلسلہ جاری رکھنا ہو گا۔ دونوں ملکوں کی خارجہ سیکرٹریز کے درمیان ہونے والی ملاقات میں روڈ میپ تجویز کیا گیا ہے ہمیں امید ہے کہ اس روڈ میپ پر دونوں عمل کریںگے تاکہ باضابطہ مذاکرات کا سلسلہ دوبارہ شروع ہو سکے۔ گذشتہ روز ہونے والی ملاقات بہت مثبت ثابت ہوئی تاہم ہم سمجھتے ہیں کہ جب تک مذاکرات کا عمل صحیح معنوں میں شروع نہ ہو سکے۔ ایسی ملاقاتوں کی کوئی افادیت نہیں رہ جاتی۔ ایس ایم کرشنا سے ملاقات میں پاکستانی خارجہ سیکرٹری نے کہاہے کہ اب وقت آگیاہے کہ دونوں ممالک وقت ضائع کئے بغیر مذاکرات کی طرف دوبارہ آئیں تاکہ دہشت گردی‘ کشمیر اور پانی کے علاوہ جتنے بھی مسائل ہیں۔ وہ جامع مذاکرات سے حل کئے جائیں۔ بھارتی سیکرٹری خارجہ نے اس بات کو تسلیم کیا کہ جامع مذاکرات اچھا عمل ہے اس سے کافی اچھے نتائج نکلے ہیں۔ انہوں نے جامع مذاکرات کو رد نہیں کیا بلکہ انہوں نے کہا کہ ہم کوشش کررہے ہیں کہ دوبارہ جامع مذاکرات کی طرف آئیں۔ بھارت نے ہماری تجاویز کا جواب دینے کا وعدہ کیا ہے۔ بلوچستان میں بھارت کی دخل اندازی کے ثبوت کب‘ کیوں اور کیسے دیئے جائیں؟ ہمارے پاس بلوچستان میں دخل اندازی کے تمام ثبوت موجود ہیں ہم نہیں چاہتے کہ ہم یہ ثبوت بھارت کے ساتھ شیئر کریں۔ بھارت کئی سال سے پاکستان پر دہشت گردی کا الزام لگا رہا ہے لیکن اب تک بھارت نے کوئی بھی ثبوت نہیں دیا اصل بات یہ ہے کہ بھارت کو اپنی پوزیشن بہتر کرنا ہو گی جب تک ان کی مداخلت رہتی ہے‘ خطے میں امن اور سلامتی ممکن نہیں ہے۔ دریں اثناءلوک سبھا سے خطاب کرتے ہوئے کرشنا نے کہا کہ مستقبل میں پاکستان کے ساتھ باہمی مذاکرات کا انحصار اسلام آباد کی جانب سے بھارت کے اہم قابل تشویش مسئلے دہشتگردی کے حوالے سے جواب پر منحصر ہوگا جو ابھی تک حل نہیں ہوا ہے۔ پاکستان کا نظریہ ہے کہ دونوں ممالک کے مابین جامع مذاکرات بحال ہونے چاہئیں تاہم ہم نے جواب دیا ہے کہ جامع مذاکرات کی بحالی کیلئے اعتماد اور اعتبار کی فضا بحال ہونے تک انتظار کرنا چاہئے۔ سیکرٹری خارجہ سطح پر مذاکرات کا حوصلہ افزاءاقدام جامع مذاکرات کی بحالی اور دونوں حکومتوں کے مابین بہتر رابطے کی جانب اہم قدم ہے دونوں سیکرٹریز خارجہ نے مستقبل میں رابطے میں رہنے اور تعلقات کو بہتر بنانے کی کاوشوں کو جاری رکھنے کا فیصلہ کیا ہے، کرشنا نے زور دیتے ہوئے کہا کہ بھارت دہشتگردی کے حوالے سے اپنی پوزیشن سے پیچھے نہیں ہٹے گا۔ بھارت کے پاکستان کے ساتھ تعلقات کا انحصار دہشتگردی کے حوالے سے اسلام آباد کے جواب پر ہے۔
سلمان بشیر / کرشنا
مزیدخبریں