حمید نظامی سے مجید نظامی تک!

اجلاس میں شامل کسی شخص میں جرأت نہیں تھی کہ اختلاف کرتے اور یہ رعب اور دبدبہ اس شخصیت کی وجہ سے تھا جوکہ سامنے موجود تھی … ایک نوجوان اٹھ کھڑا ہوا اور لب و لہجہ کی پوری شدت کے ساتھ اختلاف کیا اور ساتھ ہی عقیدت اورمحبت کے جذبات نے یہ سوچنے پر مجبور کر دیا کہ کہیں کوئی ناراضگی کا پہلو سامنے نہ آجائے یہ دہلی میں آل انڈیا مسلم لیگ کونسل کا اجلاس تھا اور سامنے بیٹھی ہوئی شخصیت قائداعظمؒ تھے اور ایک قرارداد پر اختلاف کرنے والا نوجوان حمید نظامی تھے … اجلاس ختم ہوا تو حمید نظامی فوراً قائداعظمؒ کی خدمت میں حاضر ہوگئے … قائداعظمؒ بہت شفقت اور محبت سے پیش آئے اور انہیں قرارداد کی ایک شق پر جرأت مندانہ اختلاف کرنے پر مبارک باد دی … اور پھر حمید نظامی نے حق گوئی اور بے باکی کو اپنی زندگی کا شعار بنائے ہی رکھا … اور اس واقعہ کے بعد جب پنجاب کے طلبہ کا وفد قائداعظمؒ سے ملاقات کے لیے گیا تو انہوں نے مسکراتے ہوئے پوچھا تھا … کہاں ہے آپ کا آتش نوا؟… غیرت و حمیت اور حق و بے باکی کے منصب پر فائز حمید نظامی اور مجید نظامی کے ان اصولوں کی روشنی سے آج بھی پاکستان دشمن عناصر کی آنکھیں چندھیا جاتی ہیں … آج پاکستانی قوم ان دونوں برادران کی اصول پسندی ‘ فہم و فراست ‘ عزت نفس اورجرأت وبیاکی کی معترف ہے … اصول پسندی اور حق سچ کی بات کر دینے کی صلاحیت ہی ایسی ہوتی ہے کہ جو بادِ صبا کو بھی سرکش آندھی میں بدل دیتی ہے … آج بھارت کے ساتھ اندھا دھند دوستانہ تعلقات کو بڑھانے اور پاکستان کی سرحد کے معاملات پر حساس اور ذمہ دار رویہ اختیار کرنے کا انداز انہی اصولوں کا نتیجہ ہے اور اسی وجہ سے پاکستان کی جنت ارضی پر سازشوں کا ارتکاب کرنا اتنا آسان بھی نہیں ہے اور پھر حمید نظامی کی محبتوں کے رنگوں میں یہ بات بھی شامل ہونا ہی تھی کہ قائداعظمؒ سے محبت کرنے والے راستے خود بخود حضرت علامہ اقبالؒ کے خوبصورت افکار کی طرف جا نکلا کرتے ہیں اور تب ہی یہ ممکن ہوتا ہے کہ سیرت وکردار میں وہ چاندنی بھر جائے کہ حکیم مشرق حضرت علامہ اقبالؒ اور حضرت قائداعظمؒ کی سیرت اور کردار کے روشن خطوط پرمنظم ہو کر دکھائی دے … اسی لیے حمید نظامی پنجاب مسلم سٹوڈنٹس فیڈریشن کے صدر ہونے کی حیثیت سے نئے آنے والوں کو بتایا کرتے تھے کہ کس طرح ہندو طلبہ اور ان کے نوجوان بڑی سرگرمی کے ساتھ مسلمانوں کے خلاف اور اپنی قوم کے لیے سرگرمی دکھاتے رہتے ہیں ۔ اور وہ پاکستان کے حصول کے لیے سرگرداں نوجوانوں سے اس سے بڑھ کر اہم سیاسی کردار ادا کرنے کی توقع کرتے تھے ۔
حمید نظامی نے اپنی انہی باتوں اور سیاسی شعور کی وجہ سے ہی مولانا چراغ حسن حسرت کو بھی متوجہ کر لیا تھا۔ حمید نظامی بے تکلف اداریہ لکھتے لکھتے نہایت سنجیدہ کلام کر جایا کرتے تھے … مجید نظامی کی سوچ کی گہرائی میں بھی وہی ہی شگفتگی موجود رہتی ہے … حمید نظامی جالندھر سٹیشن پر تھے کہ جہاں انہیں انتظار گاہ میں کچھ وقت گزارنا پڑا تھا وہ ڈاکٹر حمید اللہ بیگ سے گفتگو بھی کرنا چاہتے تھے اور اسی دوران اداریہ بھی لکھتے جاتے تھے … آج مجید نظامی کے روبرو بیٹھیں تو اندازہ ہوتا ہے کہ اس مقدس مشن کو آگے لے کر نئے پر پرواز دینے والے مجید نظامی دوسروں سے ہم کلام ہوتے رہتے ہیں اور ڈاک دیکھتے دیکھتے اہم نوٹس بھی تیار کر لیتے ہیں … قائداعظمؒ ‘ علامہ اقبالؒ یا پھر صحافت میں حمید نظامی جسے لوگوں کے مشن کو آگے بڑھانا کوئی آسان بات نہیں ہے … پنجاب مسلم سٹوڈنٹس فیڈریشن حمید نظامی کی قیادت میں سرگرم عمل تھے آج نظریہ پاکستان ٹرسٹ کے زیر اہتمام ایک موثر جماعت جناب مجید نظامی کی قیادت میں اپنا کام کر رہی ہے … حمید نظامی پاکستان کی شمع کو جلانے کے لیے اپنے خون جگر کو فروزاں کرتے رہے تھے … وہ پاکستان کی آزادی کے لیے نئے افق تلاش کرتے تھے … آج اس مشن کو آگے بڑھاتے بڑھاتے مجید نظامی اس پاکستان کی حفاظت کا فریضہ سرانجام دے رہے ہیں … اسی لیے مجید نظامی کے دوست جسٹس آفتاب فرخ نے انہیں نظریاتی سرحدوں کا محافظ قرار دیا ہے … اسی زمانے میں جب برطانوی حکومت اور کانگریس آپس میں گٹھ جوڑ کرنے کی سازش کر رہے تھے تاکہ مسلم لیگ کے ٹکٹ جاگیرداروں کو دئیے جائیں … ان دنوں میں حمید نظامی نے یہ جہاد کیا کہ مسلم لیگ کی قیادت میں یہ سازش کامیاب نہ ہونے پائے اور ٹکٹ مخلص مسلم لیگی کارکنوں کو دئیے جائیں اور اس لیے یوں بھی ہوا کہ حمید نظامی کے آتشیں قلم کے شراروں سے وہ الفاظ نکلے کہ پنجاب کے مسلمانوں کی خاکستر سے وہ چنگاریاں نکلیں کہ جو شعلہ جوالہ بن گئیں اور پھر یونی نسٹ کانگریس وزارت اس میں جل کر راکھ ہوگئی … حمید نظامی عشق رسولؐ میں سرشار تھے … حضرت بلالؓ کے مزار پر والہانہ کیفیت میں اشکبار ہوگئے تھے اور حضرت بلال کی قبر کو بوسہ دیا تھا … مجید نظامی حال ہی میں عمرہ کی سعادت سے واپس آتے ہیں وہ بھی بڑے بھائی کی طرح عشق رسولؐ سے سرشار ہیں … میں انہیں مبارکباد دینے گئی تو انہوں نے ایک خوبصورت گتھی سے وہ بادام نکال کر دئیے کہ جن پر ہزاروں مرتبہ درود شریف پڑھا ہوا تھا … صد شکر کہ جناب حمید نظامی کے سلسلے کو آگے بڑھاتے ہوئے جناب مجید نظامی پاکستان کی حفاظت کے لیے موجود ہیں … مایوسی کے عالم کو جھٹکنے اور اشکوں کو پونچھ کر اس ملک کو نئی ترقی و تعمیر کے راستوں پر لے جانے کے لیے ان کی موجودگی کتنی غنیمت ہے … خدا تعالیٰ سب کو حمید نظامی کے مشن پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے اور مجید نظامی کو عمر خضر عطا کرے ۔ آمین!

ای پیپر دی نیشن