”انتہا پسند“

رفیق عالم ۔۔
میرے سامنے قائداعظم محمد علی جناحؒ کی خدمت میں مرحوم حمید نظامیؒ کے چند خطوط اور قائداعظمؒ کی جانب سے جوابی خطوط موجود ہیں۔ یہ خطوط پنجاب مسلم سٹوڈنٹس فیڈریشن کے بانی اور نوائے وقت کے بانی، حمید نظامیؒ نے لکھے ہیں۔
ایک خط 13 اکتوبر 1942ءکو 8 بیڈن روڈ، لاہور سے ”پرائیویٹ اینڈ پرسنل“ کے عنوان سے حمید نظامی مرحوم نے قائداعظمؒ کے نام لکھا۔ اس میں انہوں نے تحریر کیا۔
”میں فطری طور پر انتہا پسند ہوں۔ میں اپنے دوستوں سے پوجا کرنے کی حد تک پیار کرتا ہوں اور میں، دشمنوں کو شیطان سمجھ کر نفرت کرتا ہوں۔“
دوسرا خط 23 جنوری 1944ءکو تحریر کیا گیا۔
”نوائے وقت کوئی تجارتی ادارہ نہیں۔ یہ 1940ءمیں پاکستان کے پراپیگنڈہ کے لئے قائم کیا گیا تھا اور اس کے تمام سٹاف ممبرز اعزازی ہیں۔“
تیسرا خط 22 اپریل 1944ءکو بھیجا گیا۔
”ڈئیر قائداعظمؒ!
السلام علیکم
نوائے وقت اور اس کا عملہ آپ کی خدمت کے لئے حاضر ہے۔ آپ جیسا چاہیں، ان کی خدمات سے استفادہ کر سکتے ہیں۔ اللہ تعالی آپ کی مدد اور رہنمائی کرے تاکہ آپ اپنی تمام تر صلاحیتوں کے ساتھ امت مسلمہ کی خدمت کر سکیں۔ ہم آپ کے HUMBLE سپاہیوں کی طرح، جیسا آپ کہیں گے، جس جگہ کے لئے کہیں گے، اپنے فرائض سرانجام دیں گے۔“
چوتھا خط عظیم قائدؒ کی خدمت میں 22 جون، 1944ءکے دن ارسال کیا گیا۔
”السلام علیکم
آپ یہ جان کر خوش ہوں گے کہ ہم نے ”نوائے وقت“ کو روزنامہ بنانے کا فیصلہ کیا ہے۔ مجھے امید ہے کہ اس کا پہلا شمارہ جولائی کے دوسرے ہفتے میں شائع ہو گا۔
نوائے وقت پنجاب کا واحد اخبار ہے جس نے پنجاب حکومت سے کوئی مالی مدد قبول نہیں کی، سبسڈی کی صورت میں نہ اشتہارات کی صورت میں۔
نوائے وقت نے ان برسوں میں مسلم لیگ کی پالیسی اور نصب العین کی مسلسل حمایت کی ہے اور اس میں کبھی کمی نہیں آئی۔ اس اخبار کو مسلم لیگ کا مشن بردار ہونے کا منفرد اعزاز حاصل ہے۔
نوائے وقت اپنی روایات کے مطابق مسلم لیگ کا پیغام، پنجاب کے ہر مسلمان تک پہنچائے گا۔“
مرحوم حمید نظامی کے ایک دوست حمیدالمکی جو تحریک پاکستان کے کارکن اور مجلسی انسان تھے، لاہور ہائی کورٹ کے سامنے اپنے دفتر میں دوست کارکنوں کی میزبانی کیا کرتے تھے، کہتے تھے ”یار، یہ حمید، مجید تو ایک دوسرے کے ساتھ جڑے ہوئے ہیں۔ مجید (نظامی) میں وہی وصف ہیں جو بڑے بھائی میں تھے۔ ہر آمر کے ساتھ ٹکر لینا، کبھی نہیں سوچنا کہ اخبار بند ہو جائے گا، گھر والے اور دوست احباب پریشان ہوں گے۔“
آج حمید نظامی مرحوم کی برسی کے موقعہ پر مجھے نہ صرف ان دوستوں کی باتیں یاد آ رہی ہیں بلکہ وہ عزم اور وعدے بھی سامنے موجود ہیں جو قائداعظمؒ کے نام خطوط میں کئے گئے۔
قائداعظمؒ پاکستان اور مسلم لیگ کے ساتھ محبت کا جو نظریاتی رشتہ حمید نظامی نے اپنی ذات اور نوائے وقت کے ساتھ دل اور جان سے باندھا تھا، آج اس میں اضافہ ہوا ہے، کمی نہیں آئی۔
حمید نظامی نے آل انڈیا مسلم لیگ کے سالانہ 31ویں اجلاس منعقدہ کراچی میں جس کی صدارت قائداعظمؒ کر رہے تھے، کہا تھا۔
ہندو ہمیشہ کہتا ہے کہ وہ انگریزوں کی مدد نہیں کرتا لیکن موجودہ (دوسری عظیم) جنگ میں جنگی سازوسامان کی فراہمی کے 99 فی صد ٹھیکے کانگریس نے لئے ہیں اور ہندوﺅں نے یہ سامان فراہم کیا ہے، کیا یہ انگریزوں کی جنگی کوششوں میں مدد کرنے والی بات نہیں؟“
آج مجید (نظامی) کہتے ہیں۔ ”ہندو ہمارے دریاﺅں کا پانی بند کرکے ہمیں ترسا ترسا کر مارنا چاہتا ہے۔ یہ لاتوں کے بھوت ہیں، باتوں سے نہیں مانتے، میں کہتا ہوں کہ میرے ساتھ بم باندھ کر ان کے خوفناک آبی ڈیم پر گرا دیں۔ آخر یہ ایٹمی گھوڑے کس بات کے لئے تیار کئے ہیں، کیا صرف نمائش کرنی ہے؟“
سچی بات یہ ہے، اپنے اور پرائے، رقیب و حاسدین، منحرفین اور مخالفین، مجید نظامی سے لاکھ اختلاف کریں، ان کے جذبہ حب الوطنی اور جابر سلطان کے سامنے کلمہ حق کہنے کی جرات میں کیڑے نہیں ڈال سکتے۔ جو پاکستان کا دوست ہے، وہ مجید نظامی کا دوست ہے۔ جو پاکستان کا دشمن ہے، مجید نظامی کا دشمن ہے اور مجید نظامی اسے شیطانوں کا سردار سمجھتا اور اس پر لعنت بھیجتا ہے۔ مجید نظامی امن کی خیالی آشا میں یقین نہیں، اس نراشا میں غور کرتے ہیں جو مقبوضہ کشمیر میں بوڑھے، جوانوں، بچوں اور خواتین کے لہو سے بہنے والی سرخی سے عبارت ہے، اس نراشا میں جو بال ٹھاکرے جیسے ”اپنی گلی کے شیر“ کی دھمکیوں میں ناچتی نظر آتی ہے، نریندر مودی کی گجرات حکومت میں دندناتی دکھائی دیتی ہے جہاں گودھرا سانحہ کے مسلمان ابھی تک دوبارہ آباد نہیں ہو سکے۔
حمید نظامی مرحوم کو اللہ تعالی سکون دے، مجید نظامی کی طرح پاکستان سے پیار کرنے والوں کے دلوں میں اس اضطراب کو مسلسل کر دے جو قوموں کو اپنی خودی کے ساتھ زندہ رہنے کی دیوانگی بخش دیتا ہے، ان کوششوں کو سلام جو مجید نظامی جیسے پاکستانی، قوم میں احساس خودی کو سربلند کرنے کے لئے کر رہے ہیں اور دعا، میرے پاکستان کی خیر، میرے پاکستانیوں کی خیر، میرے مجید نظامی کی خیر، کہ یہ شہیدوں کے لہو کی رنگینی سے آباد ہے۔

ای پیپر دی نیشن

آج کی شخصیت۔۔۔۔ جبار مرزا 

جب آپ کبھی کسی کے لیے بہت کچھ کہنا چاہ رہے ہوتے ہیں لفظ کہیں بھاگ جاتے ہیں ہمیں کوئی ایسے الفظ ملتے ہی نہیں جو اس شخصیت پر کہہ ...