سانحہ ہزارہ ٹاﺅن کوئٹہ کی جتنی مذمت کی جائے کم ہے۔ہزارہ آبادی کو جنوری اور فروری 2013ءمیں دوبار نشانہ بنایا گیا۔ جس میں کم و بیش250 افراد مارے گئے اور کئی سو زخمی ہوئے۔ ہزارہ آبادی افغانستان سے بلوچستان منتقل ہوئی۔ یہ تعداد میں کم اور استعداد میں زیادہ ہیں۔ یہ بلوچستان جیسے پسماندہ صوبے میں پڑھی لکھی، منظم اور متحرک کمیونٹی ہے جو بلوچستان بلکہ پاکستان کی سرکاری ملازمتوں کو ترجیح دیتے ہیں۔ یہ اپنی علاقائی اور عقائدی شناخت بحال رکھتے ہیں۔ یہی سبب ہے کہ یہ پختون (پٹھان) یا بلوچ شناخت کا حصہ نہیں بن سکے جبکہ اس وقت بلوچستان میں پختون، بلوچ، پنجابی، سندھی گروہ دست بگریباں ہیں۔ بلوچستان میں آبادی کم اور وسائل بے بہا ہیں۔ لہذاحملہ آور اتحادی برادری کے لبادے میں سرگرم عمل ہیں۔
خروٹ آباد سانحہ کے مظلوم بھی اسی اتحادی دہشت گردی کا شکار ہوئے جس کا الزام پولیس اور ایف سی پر تھوپا گیا۔ یہ سانحہ بھی اتنا منظم تھا کہ اس کی موبائل ویڈیو بنا کر قومی و بین الاقوامی میڈیا میں دکھائی گئی۔ اسی طرح حملہ آور اتحادی ممالک شمالی قبائلی علاقوں میں جعلی کوڑے بازی کی ویڈیو بنا کر اپنا ہدف حال کر لیتے تھے۔
بدقسمتی سے جنرل پرویز مشرف نے ”غلامی بہ نیم شب“ پالیسی کے تحت امریکہ و اتحادی ممالک کو بلوچستان میں سی آئی اے کے دفاتر قائم کرنے کی اجازت دی۔ سی آئی اے کے اپنے صہیونی اہداف ہیں جس کے سدباب کیلئے کوئی منصوبہ بندی نہیں ہے۔ ریمنڈ کی اسیری اور رہائی کے دور میں سی آئی اے نے اعلان کیا تھا کہ پاکستان میں ہمارا آپریشنل نیٹ ورک مکمل ہے۔ اب امریکہ اپنے اہداف کے حصول کیلئے فوج اور آئی ایس آئی کا محتاج نہیں۔ ہزارہ سانحہ معمولی نہیں۔ اس کی بازگشت پورے پاکستان میں ہے۔ لہذا اس سانحہ کے مضمرات اور اثرات کو ہمدردی، بردباری اور سمجھداری سے دیکھنا چاہئے۔ مذکورہ سانحہ فقط شیعہ سانحہ نہیں۔
ہزارہ کمیونٹی اول و آخر پاکستانی کمیونٹی ہے۔ میری ا لتماس ہے کہ شیعہ قیادت اور حکومت مذکورہ سانحہ کو شیعہ سنی تناظر میں دیکھنے کے بجائے محب وطن پاکستانی کی نیت اور حقیقت سے دیکھیں۔ اگر پاکستان ہے تو شیعہ سنی دونوں تحریک پاکستان کی طرح باہم ہمقدم ہو کر پاکستان بچاﺅ جدوجہد کر سکتے ہیں وگرنہ امریکی پالیسی پاکستان کو شیعہ سنی فسادات میں مبتلا کرکے کمزور اور برباد کرنا ہے۔ یہی شیعہ سنی فسادات کی پالیسی عراق، افغانستان شام، فلسطین اور لبنان میں اپنا رکھی ہے۔
امریکہ، اسرائیل اور بھارت بخوبی جانتے ہیں کہ ہندوستان میں مسلمانوں کی حکومت کا زوال شیعہ و سنی جداگانہ فکرو عمل کی پالیسی تھی جس کے نتیجے میں ہندوستانی حکومت سنی کے پاس رہی اور نہ شیعہ کو ملی بلکہ سات سمندر پار سے آنے والے انگریز کو ملی جس نے انخلا کے وقت (1947ئ) ہندوستانی حکومت ہندو کے حوالے کر دی۔ قائداعظم اور علامہ اقبال کی قیادت نے ہندوستانی مسلمانوں کو شیعہ سنی کے بجائے ملی وحدت اور قومی اخوت کے رشتے میں پرو دیا اور پاکستان حاصل کیا۔ آج بھی پاکستان کی حفاظت کیلئے شیعہ سنی اتحاد کی ضرورت ہے۔ سانحہ¿ ہزارہ پاکستانی سانحہ ہے، شیعہ سانحہ نہیں اور اسے شیعہ سانحہ بنانے سے مہلک اثرات مرتب ہوں گے۔ امت نے صدام حسین اور ملاعمر کی مزاحمت کو ملی مزاحمت کی نظر سے دیکھا ہے جبکہ امریکہ نے شیعہ سنی فساد پالیسی کے تحت عراقی مزاحمت کا گڑھ شہر فلوجہ کو عورتوں، بچوں اور بوڑھوں سمیت صاف کر دیا اور اس دوران مقتدی الصدر کی فتوحات اور مہمات کو امریکی میڈیا بڑھا چڑھا کر پیش کر رہا تھا۔
جب امریکہ کا فلوجہ آپریشن مکمل ہو گیا تو مقتدیٰ الصدر کی میڈیائی مہمات کا چرچا بھی ختم ہو گیا اور امریکہ نے عراق میں اہداف کے حصول کے بعد ایران اور شام کی شیعہ قیادت کا شکنجہ بھی کسنا شروع کر رکھا ہے۔ لہذا سانحہ ہزارہ جیسے واقعات میں جوش سے زیادہ ہوش کی ضرورت ہے۔ بوسنیا کے مسلمانوں کی نشل کشی حالیہ سانحہ ہے۔ بوسنیا کے مسلمان شیعہ تھے نہ سنی بلکہ ان کے نام مسلمانوں کے سے تھے لہذا یورپ کو بوسنیائی مسلمانوں سے صاف کر دیا گیا۔ دشمن کیلئے شیعہ سنی سب مسلمان ہیں۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ ہزارہ کمیونٹی کا نیٹ ورک پورے پاکستان میں ہے۔ یہ اتنے منظم متحرک اور فعال ہیں کہ انہوں نے سانحہ جنوری کے بعد پانچوں صوبوں کی اہم سڑکوں اور مقامات کو بلاک کئے رکھا۔ بلوچستان میں مارشل لا لگانے کا مطالبہ کیا جو مسترد ہوا اور صوبے میں گورنر راج نافذ کیا گیا۔ فروری کے سانحہ نے گورنر راج کی بے وقعتی بھی ظاہر کر دی۔ مگر اس بار رحمان ملک نے کہا کہ سانحہ ہزارہ کیلئے پنجاب کی سرزمین استعمال ہوئی ہے۔ کالعدم لشکر جھنگوی کے لیڈر ملک اسحاق نے لشکر جھنگوی کی اس واقعہ کیلئے ذمہ داری قبول کرنے کے بعد از خود گرفتاری پیش کر دی اور پریس کانفرنس میں کہا کہ یہ وفاقی حکومت کی نااہلی اور پنجاب میں شیعہ سنی فساد کرانے کی امریکی سازش ہے۔
پنجاب پاکستان کا واحد صوبہ ہے جہاں امن وامان بہتر ہے۔ عوامی ترقی کے کام ہو رہے ہیں۔ اب جبکہ الیکشن میں چند ہفتے رہ گئے ہیں۔ نگراں صوبائی و وفاقی حکومتیں بننے میں دو ہفتے رہ گئے ہیں۔ رحمان ملک نے سانحہ ہزارہ کی ساری ذمہ داری پنجاب حکومت پر ڈال دی ہے اور دھمکی دی ہے کہ اگر شریف حکومت سانحہ ہزارہ کے ملزموں کو نہیں پکڑتی تو وہ خود رینجرز اور ایف آئی اے کے ذریعے آپریشن کریں گے جبکہ بلوچستان، سندھ، خیبر پختونخواہ (سرحد) اور گلگت میں سنی کمیونٹی کے خلاف آپریشن جاری ہیں۔ جس کے نتیجے میں بلوچستان میں صورتحال مزید کشیدہ اور ابتر ہو رہی ہے۔ اس وقت رحمان ملک کی نیت میں فتور ہے، اس کا واحد تدارک شیعہ سنی قیادت کا اتحاد ہے۔
رحمان ملک کے بارے میں پورا پاکستان جانتا ہے کہ وہ صادق اور امین نہیں اور وہ ایک لمحہ بھی وزارت داخلہ کے بغیر پاکستان میں نہیں رہ سکتے۔ شیعہ سنی لڑائی شروع ہو گئی تو اس کا انجام دونوں گروپوں کی مزید بتاہی اور بربادی ہے ۔ لہذا قیادت کو سانحہ ہزارہ جیسے مزید واقعات کو روکنے کے لئے تحمل، سمجھداری اور برد باری سے کام لینا چاہئے، اتحاد میں برکت اور فساد میں بربادی ہے۔